• صارفین کی تعداد :
  • 416
  • 3/28/2016
  • تاريخ :

8 سائنس فکشن خیالات جو زمین پر ڈھا سکتے ہیں قیامت پہلا حصه

8 سائنس فکشن خیالات جو زمین پر ڈھا سکتے ہیں قیامت دوسرا حصه

لوگ ہمیشہ سے ہی زمین پر زندگی کے خاتمے کے تجسس کا شکار رہتے ہیں اوراس حوالے سے متعدد پیشگوئیاں بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔
اب قیامت تو اللہ کے طے کردہ دن ہی آنی ہے مگر ناولوں اور فلموں میں ایسے خیالات کو اکثر پیش کیا جاتا ہے جس میں دنیا سے زندگی کا خاتمہ ہوتے دکھایا جاتا ہے جو کہ اکثر سائنس فکشن تھیمز سے زیادہ کچھ نہیں ہوتے۔
مگر ان ہزاروں لاکھوں خیالات میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو دنیا کے لیے واقعی قیامت بن کر بھی سامنے آسکتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ یہ ایسے خیالات ہیں جن کا حقیقی شکل اختیار کرلینا بھی کوئی ناممکن چیز نہیں اور یہ تھیمز بہت بھیانک ہونے کے باوجود ہمارے اوپر موت کے سائے بن کر پھیل سکتے ہیں۔
ہائپر کین (انتہائی شدید نوعیت کا مفروضی سمندری طوفان(
جاپان کے ایک کارٹون شو انوسینٹ وینس میں دکھایا گیا تھا کہ پوری دنیا بار بار آنے والے ہائپر کین سمندری طوفانوں میں گھر کر رہ جاتی ہے۔ ان طوفانوں کے نتیجے میں پانچ ارب افراد ہلاک ہوجاتے ہیں، جبکہ دنیا بھر کی معیشتیں اور حکومتیں ہل کر رہ جاتی ہیں۔
مگر دہشت زدہ کردینے کے لیے یہ حقیقیت کافی ہے کہ ہائپر کین نامی یہ سمندری طوفان نظری اعتبار سے بالکل ممکن ہے۔
یہ بات میساچوسٹس انسٹیٹوٹ فار ٹیکنالوجی کے ایک پروفیسر نے دریافت کی جس نے ہی ان طوفانوں کو "ہائپر کینز" کا نام دیا تھا۔
اس طرح کا طوفان سمندری درجہ حرارت 48.8 ڈگری تک بڑھ جانے کی صورت میں ہی آسکتے ہیں جن سے اٹھنے والی لہر 64 کلومیٹر اونچی ہوسکتی ہیں اور کچھ تصورات یہ بھی ہیں کہ ایسا ایک طوفان زمین پر اب تک ریکارڈ کیے جانے والے سب سے بڑے سمندری طوفان سے 8 گنا بڑا ہوسکتا ہے اور اس کے دوران چلنے والی ہوا کی رفتار 1200 میل فی گھنٹہ تک ہوسکتی ہے جو اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو تباہ کرسکتی ہے۔
اور مسئلہ صرف ایک ہائپر کین کا نہیں بلکہ یہ ایک سیریز ہوگی جو اس وقت تک نہیں تھمے گی جب تک سمندری درجہ حرارت کم نہیں ہوجاتا۔
دم توڑتا سورج
سائنس فکشن فلم سن شائن میں سال 2057 کا ایک تخیلاتی منظر پیش کیا گیا تھا کہ کیو بالز نامی پارٹیکلز سورج میں داخل ہوکر اس کی سطح کو کھا جاتے ہیں۔
اس فلم کے لیے سائنسی مشیر کا کام کرنے والے ماہر طبعیات برائن کوس کے بقول کیو بال کا نظریہ قابل عمل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ سورج کی اندرونی سطح کا تباہ ہونا تو ناممکن ہے مگر اس نظریے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنی کائنات کے بارے میں کتنا کم جاتے ہیں۔
اگر سورج آہستگی سے مرنے لگے تو ہمارے کرہ ارض پر سب سے پہلے روشنی کا مسئلہ پیدا ہوگا جیسا ابھی بھی پیدا ہونے لگا ہے اور ماضی کے مقابلے میں سورج کی شعاعیں زمین پر کم چمکنے لگی ہیں۔
اگر زمین تک سورج کی روشنی میں کمی آئے گی تو مختلف حصوں میں سردی بڑھ جائے گی جس سے پانی کے بخارات بننے کا عمل بھی سست پڑجائے گا اور بارشیں کم ہونے سے قحط سالی بڑھ جائے گی۔
اسی طرح ماحولیاتی آلودگی کے نتیجے میں سورج کی روشنی کم ہو رہی ہے اور زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے مگر ایسا کچھ عرصے تک ہی ہوگا اور اس کے بعد ہر چیز ٹھنڈی ہوتی چلی جائے گی اور ہم آئس ایج (برفانی دور) میں داخل ہوجائیں گے۔
جاری ہے ۔۔۔۔