• صارفین کی تعداد :
  • 2486
  • 8/26/2012
  • تاريخ :

ميثاقِ مدينہ دنیا کا سب سے پہلا آئین حکومت

آئین حکومت

ميثاقِ مدينہ

سيرت نبوي صلي اللہ عليہ وسلم پر عمل کر تے ہو ئے امت واحدہ کے طور پر مسلم امہ کے 61 ممالک کيا ميثاقِ مدينہ کي طرز پر مو جودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہو ئے اور خاص طور پر 9/11 کے بعد مغربي صيہو ني و طا غوتي عنا صر کو اسلام کي حقا نيت بتانے اور اپنا کھويا ہوا وقار بحال کرنے کے ليے ايک دستاويز مرتب کر کے ايک جان ہو سکتے ہيں-اور يہ عہد با ندھيں کہ اگر کو ئي غير مسلم ر يا ست اگر رياستي دہشت گردي کا ارتکاب کر ے تو ہميں مل کر ان کا مقا بلہ کر نا ہو گا-اور نازک حالات ميں ہر ممکن تعاون کرنے کا پا بند بننا ہو گا تاہم سب سے پہلے امن و سلامتي کے ليے راستہ نکا لنا ضروي ہو گا- مو جودہ دور ميں مسلم مما لک کو معا ہدے کے ذ ريعے ايک ايسا وار پيکٹ شامل کر نا چا ہيے جس کے مطابق ايک ملک پر حملہ امت مسلمہ پر حملہ تصور ہو اور پھر سب مل کر دشمن کے خلاف نبر آزما ہو ں-اگر ايسا وسيع تر اتحاد و بلاک بنا ليا جائے تو صيہو ني شکنجے سے ہميشہ کے ليے ر ہائي مل سکتي ہے-جس کي بدولت ہما ري تہذ يبي روايات کے احياء کے ساتھ ساتھ معيشت کي بحالي بھي ممکن ہے-ايسي يادداشت سربراہان کي نہيں بلکہ مشترکہ طور پر مسلم ريا ستوں کے درميان ہوني چا ہئے - کيو نکہ’’ ميثا ق مدينہ‘‘ ميں شا مل دفعات کا تعلق مدينے کے عرب قبيلوں کے ما بين امن قائم رکھنے سے ہے- ميشا ق مدينہ بڑي اہم دستا ويز ہے اور موجودہ دور ميں امت مسلمہ اس سے بڑي رہنما ئي حاصل کر سکتي ہے-در اصل اس معا ہدے کا بنيا دي مقصد ہي يہ تھا کہ اہل مدينہ اپنے قبا ئلي جھگڑوں کو ختم کر ديں-اور امت واحدہ کے رشتے ميں منسلک ہو کر شہر ميں پُر امن زندگي گزاريں اور امت کے دشمنوں (قريش) کے خلاف متحد ہو جائيں-

آج ہم مشترکہ طور پر آنحضرت محمد صلي اللہ عليہ وسلم کي سياسي و معاشي علاقائي قيادت(ميثاقِ مدينہ) کي جانب پہلے قدم پر قدم رکھ کر معاشرے ميں جاري نسلي فسادات ، آپس کے جھگڑے ختم کر کے وہ وقت اور سرما يا امت کي بھلا ئي اور علم و فن کي ترويج و ترقي کے ليے استعمال کر سکتے ہيں- اور جنگ بدر (2 ہجري) ميں مال غنيمت کا کامل مہاجرين ميں تقسيم کر نے اور اس کي وجہ سے انصار کي اعانت کي ضرورت با قي نہ رہنے کے فارمولے کو بھي استعمال ميں لا تے ہو ئے اجتما عي تعليمي، سائنسي، معاشي ترقيا تي منصوبوں پر خرچ کر سکتے ہيں افريقہ جيسے غريب ملک کي معا ونت کر سکتے ہيں- مثال کے طور پر ہم امت واحدہ کے طور پر ايک مضبوط معاشي بلاک کے طور پر تيل، معدنيات، گيس، کو سا منے رکھتے ہو ئے ملٹي نيشنلز سسٹم متعارف کروا سکتے ہيں- اگر ہم پرسکون عقلي ماحول ميں بيٹھ کر سوچيں گے تو يقينا مثبت نتا ئج کي تواقع کي جا سکتي ہے پھر شايد ہي روايتي اسلامي سربراہي کانفرنس بلانے کي ضرورت پڑے- اور اس پر اُٹھنے والے اخراجات بھي امت کي اجتما عي ’’بچت‘‘ ہو گي- آج امت واحدہ کو عالمي معاشي نظام ، انرجي کا بحران، پيٹرو ڈالر کي واپسي ، چين کي معاشي ترقي کو پيش نظر کر اجتماعي طور پر ديکھنا ہو گا- اسلا مي دنيا کے مختلف حصوں ميں جغرا فيا ئي قربت کي بنياد پر الگ الگ علاقائي يا ذيلي علاقائي بلاک بننے کے روشن امکا نا ت موجودہيں يہ علا قا ئي بلاک آپس ميں تعاون کي بنياد پر ايک عالمي اسلامي بلاک کي صورت اختيار کر سکتے ہيں-تمام تر اسلامي ممالک سے عالم دين کو جمع کر يں اور 3/5 اور دس سالہ منصو بہ کے ساتھ ايک اللہ ، ايک رسول (آخري نبي حضرت محمد صلي اللہ عليہ وسلم) ايک قرآن مجيد ، ايک مسجد ايک مسلک ، ايک فقہ (قرآني) کو ہميشہ کے ليے لاگو کريں-مسلمانوں کو اپنے ممالک ، اپني قومي سطح پر اور اس طرح عالمي سطح پر متحدہ طور پر فلاحي اور معلمي ادارے بنانا ہو نگے-

اسلامي سربرا ہي کانفرنس کے حوالے سے يہ بتا نا بھي ضروري سمجھتا ہو ں کہ مسلمانوں نے کبھي يہ تسليم نہيں کيا کہ ان کي پسماندگي ميں ان کا بھي کو ئي قصور ہے-وہ اس کي بڑي ذمہ داري ،يہوديو ں عيسائيو ں اور ہندووں پر عا ئد کر تے ہيں يعني يہ کہ غير مسلموں نے سا زش کے ذريعے انہيں پسماندہ بنا ديا ہے-مگر ميں يہ سمجھتا ہو ں کہ مسلم اقوام کي کمزوري کي ايک بڑي وجہ مسلم معا شرے ميں جديد دور کے تقا ضوں کے مطابق نئے علوم کو فروغ حاصل نہ ہو سکنا بھي ہے-آج شعوري بيداري کے ليے مستقل جدوجہد کي ضرورت ہے-مستقل جدوجہد نہ ہو تو اس کا حصول نہ ممکن ہے-آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے جس طرح صحا بہ کرام رضوان اللہ عليہم اجمعين کو تعليم و تربيت کي زينت سے آراستہ فرما يا اسي طرح آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے صحا بہ کرام کي جماعت کے شعور کي تربيت ميں بھي کسي قسم کي کمي با قي نہيں رہنے دي-عالم اسلام کي بہت بڑي خدمت يہ ہے کہ اس ميں صيحح شعور پيدا کيا جا ئے-وہ اپنے تمدني ، سياسي ، اجتما عي مسائل و معا ملات ميں ايک عاقل و بالغ انسان کي طرح غور کر سکے-اور فيصلہ کر نے کي صلا حيت رکھتا ہو، جب تک يہ شعور نہ پيدا ہو ، کسي اسلامي ملک و قوم کا جوش عمل ،صلا حيت کار کے مظاہر و مناظر کچھ زيادہ وقعت نہيں رکھتے-شعور سے نا بلد مسلمان ممالک کي آپس ميں نا اتفاقي اور يگانگت کا فقدان امت کي پستي کي ايک اور اہم وجہ ہے-مسلمانو ں کے پسماندہ رہ جا نے کي ايک اہم وجہ حکو متي سطح پر ’’ تحقيقي‘‘ نوعيت کے کاموں کا نہ ہو نا بھي ہے-

تحرير: ڈاکٹر اشفاق رحماني

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان