• صارفین کی تعداد :
  • 1520
  • 3/23/2012
  • تاريخ :

غدير و اور آيت تبليغ 2

من کنت مولاه فهذا علي مولاه

غدير و اور آيت تبليغ 1

استاد شہيد مرتضي مطہري

اس آيت کا مضمون اتنا ہي شديد ہے جتنا کہ حديث "من مات و لم يعرف امام زمانہ مات ميتۃ الجاہليۃ" کا مضمون شديد ہے- اجمالي طور پر اس آيت خود ہي بتا ديتي ہے کہ موضوع اس قدر اہم ہے کہ اگر پيغمبر اکرم (ص) تبليغ نہ کريں اور اس موضوع کو عوام اور خواص تک نہ پہنچائيں تو گويا آپ (ص) نے سرے سے تبليغ رسالت کي ذمہ داري نبھائي ہي نہيں ہے-

شيعہ اور سني کا اتفاق ہے کہ سورہ مائدہ قرآن کي آخري سورت ہے اور يہ آيتيں وہ آخري آيات ہيں جو رسول اللہ (ص) پر نازل ہوئي ہے؛ يعني يہ آيات ايسے زمانے ميں نازل ہوئي ہيں جب رسول اکرم (ص) مکہ کي تيرہ سالہ اور مدينہ کي دس سالہ تبليغ کے دوران اسلام کے ديگر احکامات کي تبليغ مکمل کرچکے تھے اور يہ اسلام کے آحري احکامات تھے-

اتنا اہم موضوع ہے کيا؟

شيعہ پوچھتا ہے: يہ حکم جو آخري احکامات ميں‎ سے ہے اور اس قدر اہم ہے اگر رسول اللہ (ص) اس کي تبليغ نہ کريں تو ان کے ماضي کي پوري تئيس سالہ محنت برباد ہوجائےگي؛ کيا حکم ہے؟ يعني آپ ايسا کوئي حکم نہيں بتا سکتے جس کا تعلق رسول اللہ (ص) کي زندگي کے آخري ايام سے ہو اس کي اہميت اس قدر زيادہ ہو کہ اگر اس کا ابلاغ نہ ہوا تو کچھ بھي ابلاغ نہ ہوا ہو- تا ہم ہم کہتے ہيں کہ وہ اہم موضوع امامت کا موضوع ہے جو اگر نہ ہو تو سب کچھ برباد اور کالعدم ہوجائے گا، يعني اسلام کا شيرازہ بکھر جائے گا علاوہ بريں شيعہ اہل سنت کے منابع سے ثبوت لاتا ہے کہ يہ آيت غدير خم کے مقام پر (اور 18 ذوالحجہ) کو نازل ہوئي ہے- (3)

.........

مآخذ:

3- امامت و رهبرى، چاپ دوم 1364 ش، صص 61 - 62.