• صارفین کی تعداد :
  • 1631
  • 3/22/2012
  • تاريخ :

کربلا حيات بخش کيوں ہيں (2)

عاشوره

کربلا حيات بخش کيوں ہيں (1)

 زينب اميني

شہيد سيد مرتضي آويني کے دور انديشوں کے پيش خدمت

ان، يزيديوں، کا گماں يہ تھا کہ سيدالشہداء کي صدائے "ہل من ناصر" کربلا ميں دفن ہوجائے گي اور اس کا کوئي اثر باقي نہيں رہ سکے گا، وہ غافل تھے اس حقيقت سے کہ ہر مۆمن کي مٹي خاک کربلا اور شہداء کے خون ميں گوندھي گئي ہے اور جب تک شب و روز باقي ہے، يہ تاريخي رشتہ ـ جو مۆمنين کو عاشورا سے متصل کرديتا ہے ـ فطرتوں کي اتہاہ گہرائيوں ميں بيدار اور زندہ رہے گا، اور ہر اس انسان کو جو اپنے باطن کي صدا سنتا ہے، صحرائے کربلا کي طرف ہدايت کرے گا،اور انسان اگر انسان ہو اور اپنے وجدان اور ضمير کي طرف رجوع کرے، سيدالشہداء کي ندا ضرور سنے گا جو اس کو اس کي فطرت کي ميثاق گوش گذار کراتي ہے- يہ ميثاق جو ايک ازلي ميثاق ہے، ہر آن اور ہر لمحہ مۆمن کے باطن ميں تجديد ہوتي رہتي ہے-

مجھے فاش کہنے ديجئے کہ وہ جو مسجود ملائکہ ہے، وہ حسين (ع) ہے، اور ملائکہ نے آدم (ع) کو سجدہ کيا کيونکہ وہ حسين (ع) کي خلقت کا واسطہ ہيں اور يہ سجدہ ازلي ہے؛ وہ ميزان حق، جو ابليس کو ہانک ديتا ہے، يعني يہ کہ غالَم کي فطرت حسين (ع) کي محبت اور ان کي ولايت پر شہادت ديتي ہے اور "أَلَسْتَ بِرَبِّكُمْ قَالُواْ بَلَى" (1)، عہد ہے جو خالق نے بني آدم سے حب حسين پر ليا ہے-

علم کا پيمان ايک کربلائي پيمان ہے اور جس نے يہ پيمان خدا کے ساتھ باندھ ليا، وہ وہي ہے جو مدرسۂ ميں درس فقہ پڑھتا ہے اور محاذ جنگ پر درس عشق، اور قُربَۃً الي اللہ دونوں درسوں ميں با وضو ہوکر وارد ہوتا ہے اور ان دونوں کو کفر و شرک کے خلاف محاذ جنگ سمحھتا ہے، اور جانتا ہے کہ يہ راستہ شہادت کا راستہ ہے-

-----

مآخذ:

1. اعراف ـ 172. ترجمہ: کيا ميں تمہارا پروردگار نہيں ہوں ؟ انہوں نے کہا کيوں نہيں!-