• صارفین کی تعداد :
  • 4271
  • 6/6/2010
  • تاريخ :

مجھے ہاتھی خریدنا  ہے (حصّہ دوّم)

مجھے ہاتھی خریدنا  ہے

آخر منّا مایوسی کے عالم میں ڈیڈی  کے پاس آیا اور داستان سنائی ۔  ڈیڈی نے منے سے کہا  ! چلو بیٹا کوئی بات نہیں ہم کسی  دوسری جگہ سے پتہ کرتے ہیں ۔ شدید سردی  میں دونوں بازار سے گزر رہے تھے،  بازار  میں انہیں ایک اور  شخص  ملا ، اس  سے بھی دریافت کیا مگر اس نے بھی تضحیک کا نشانہ بنایا ۔ اب دونوں باپ بیٹا اسٹیشن پر جا پہنچے ۔ یہاں زندگی کے کچھ آثار نظر آۓ اور لوگوں کی چہل پہل دیکھنے کو ملی ، ٹکٹ گھر پہنچے اور منے نے اپنا سوال دہرایا ۔

سوال سننے کے بعد وہاں پر موجود شخص نے منے سے کہا ! بچے  آپ کو زندہ ہاتھی صرف چڑیا گھر سے ہی مل سکتا ہے ۔ وہاں پر بھی آپ صرف ہاتھی کو دیکھ  سکتے ہیں ، اس پر سواری کر سکتے ہیں مگر اسے گھر نہیں لے جا سکتے ۔

ڈیڈی منے سے مخاطب ہوۓ اور کہا ! بیٹا لگتا ہے ہمیں یہاں سے ہاتھی  نہیں ملے گا ۔ ایسا کرتے ہیں ہم کل چڑیا گھر جائیں گے ممکن ہے وہاں سے ہمیں ہاتھی مل جاۓ ۔

منّے کو اپنے ابو کی بات پسند آئی اور وہ دونوں گھر کی طرف لوٹ آۓ ۔

گھر میں داخل ہوۓ تو دادا ابو نے پوچھا ! بیٹا ابو کو اتنی رات میں لے کر کہاں گۓ  تھے ۔ منا بولا ہم ہاتھی خریدنے گۓ تھے ، زندہ ہاتھی ۔ جب یہ بات دادا ابو کی سماعت سے ٹکرائی تو ان کی چیخ نکل گئ ، آنکھوں سے آنسو جاری ہو گۓ ۔ امی جلدی سے پانی لائیں اور دادا ابو کو پانی پلایا ۔ جب دادا ابو کی حالت کچھ بہتر ہوئی تو امّی نے دادا ابو سے رونے کا سبب  پوچھا ۔ دادا ابو کہنے لگے بیٹا آپ کے ابو کتنے اچھے ہیں ، میں آپ کے ابو کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور میں کتنا برا ہوں کہ ایک دفعہ جب میرے اسی بیٹے نے  اپنے بچپن میں مجھ سے زندہ ہاتھی خریدنے کی فرمایش اور ضد کی تھی تو میں نے اپنے بیٹے کو تھپڑ رسید کر دیا تھا ۔ اس  کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرا بیٹا مجھ سے خفا  ہو  گیا اور مجھ سے دور رہنے لگا اور آج تک مجھ میں اور میرے بیٹے میں نہ چاہتے ہوئے بھی ایک فاصلہ موجود ہے ۔

یہ سچ ہے کہ بچپن میں پیدا ہونے والا خلا ساری عمر پر  محیط ہو جاتا ہے ۔ ڈانٹ ڈپٹ اور سزا کا خوف بچے کو ایک مستقل خوف میں مبتلا کر دیتا  ہے جس سے اس کا ذہن پریشان اور پراگندہ  ہو جاتا ہے، وہ عدم تحفظ کا شکار ہو جاتا  ہے اور اس میں خود اعتمادی کا فقدان پیدا ہو جاتا  ہے ۔ اس کے علاوہ اس کی قوّت فیصلہ ختم ہو کر رہ جاتی ہے ۔ اس لیۓ جونہی وہ موقع پاتا ہے ردعمل کے جذبات اس میں ابھر آتے ہیں اور وہ بڑی جلدی جارحانہ طرز عمل اختیار کر لیتا ہے ۔ منفی سرگرمیوں میں ملوّث  ہو جاتا ہے اور انتقامی کاروائیاں کرنے لگتا ہے ۔ بچے ہماری زندگی کے شگفتہ پھول ،  ہمارے مستقبل کی روشن امیدیں اور ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں ۔ ان سے پیار کیجیۓ ، انہیں ڈانٹۓ نہیں ۔ ان کی ضروریات اور جذبات کا احترام کیجۓ ۔ بچے کو جیسا بنانا ہے اس کے سامنے ویسا ہی عملی نمونہ پیش  کیجۓ ۔ بچے کیا بڑوں پر بھی وعظ و نصیحت کا اثر کم ہوتا ہے ۔ جبکہ عملی نمونہ کے افعال و کردار خود بخود انسان کی شخصیّت کا جزو بنتے چلے جاتے ہیں ۔ 

تحریر : ظہیر عباس ( ملک وال ضلع منڈی بہاؤالدین )

پیشکش : شعبۂ  تحریر و پیشکش تبیان


متعلقہ تحریریں :

كوّا اور كبوتر

حلال اور حرام کمائی کے اثرات