• صارفین کی تعداد :
  • 4125
  • 4/25/2010
  • تاريخ :

امام(ع) کي عمومي مرجعيت

 امام محمد باقر(ع)

اس زمانے کے تمام سياہ دل اور شيطان صفت دشمنوں کي پھيلائي ہوئي تاريکي کے باوجود آپ(ع) کا وجودِ ذي جود اس طرح نور پھيلاتا تھا کہ کوئي اس کا انکار نہيں کر سکتا تھا۔ اہلسنت کے بزرگ عالم، ذہبي، آپ (ع) کے بارے ميں کہتے ہيں:

’’وہ ان لوگوں ميں سے تھے جنہوں نے علم و عمل، بزرگي و عظمت اور وثاقت و متانت کو اپنے اندر جمع کر ليا تھا اور خلافت کے لئے اہل تھے۔‘‘

نيز ايک اور بزرگ عالمِ اہلسنت، ابوزہرہ، امام (ع) کي مرجعيت عمومي کے بارے ميں کہتے ہيں:

’’امام باقر(ع) امامت اور ہدايت ميں وارثِ امام سجاد (ع) تھے۔ اسي لئے، سرزمينِ اسلام کے تمام خطوں سے لوگ آپ کے حضور شرفياب ہوتے اور جو کوئي بھي مدينہ آتا وہ آپ(ع) کي خدمت ميں ضرور پہنچتا اور آپ (ع) کے علم کے سمندر سے استفادہ کرتا تھا۔‘‘

امام باقر(ع) کي فعاليت

تاريکي ميں روشني کا مينار:

پہلي صدي ہجري کے اختتام اور کشورکشائي کے آغاز کے ساتھ مسلمانوں کي اسلام سے بے خبري اپنے عروج تک پہنچ گئي تھي۔ جنگي امور اور مالي معاملات نے لوگوں کو علمي و تہذيبي فعاليت اور ديني تربيت سے غافل کر ديا تھا۔ بعض تاريخيں تو يہ تک بتاتي ہيں کہ بہت سے لوگ تو نماز اور حج بجا لانے کے صحيح طريقے سے بھي واقف نہيں تھے۔ ٹھيک اسي زمانے ميں امام باقر (ع) نے دربارِ خلافت کي کمزوري سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کو جہالت کي تاريکيوں سے نکالا اور علمي و فرہنگي مکتب کي بنياديں رکھنا شروع کرديں جسے آپ (ع) کے بعد آپ (ع) کے فرزند، امام صادق(ع) نے عظيم يونيورسٹي ميں تبديل کر ديا اور عظيم دانشوروں کي تربيت ہونے لگي۔

سياسي اور فرہنگي سرگرمياں:

پہلي صدي ہجري کے آخري برسوں ميں امام باقر (ع) کي علمي کاوشيں دنيائے اسلام کے لئے حياتِ نو کي نويد تھيں۔ اس زمانے کے سياسي حالات امام(ع) کو يہ موقع فراہم کرتے تھے کہ آپ (ع) علومِ اہلبيت (ع) کے فروغ کے لئے جدوجہد کريں۔ جو روايات آج ہمارے پاس ہيں، ان کا ايک بڑا حصہ آپ(ع) ہي سے منقول ہے۔ تاريخ ميں يہاں تک مرقوم ہے کہ: ’’امام حسن(ع) اور امام حسين (ع) کي اولاد ميں تفسير، کلام، فتويٰ اور حلال و حرام کے احکام کے بارے ميںجو روايات آپ (ع) سے نقل ہوئي ہيں، وہ کسي اور سے صادر نہيں ہوئيں۔‘‘ علومِ اسلامي کا يہ جامع اور کامل مجموعہ ايسي مضبوط بنيادوں پر استوار ہے جس پر مکتبِ تشيع کي وسيع و مستحکم اور ہر مکتبِ فکر سے بے نياز عمارت تعمير ہوئي ہے۔

سلام و درود خدا ہو اس چراغ پر جو تمام انسانوں کے لئے باعثِ ہدايت ہے!

فقہِ تشيع کے موسس:

رسولِ خدا۰ کي وفات کے بعد پہلي صدي ہجري کے آخر تک تدوينِ حديث پر پابندي کے سبب احکامِ فقہي گوشہ گير اور عوام الناس احکامِ دين سے غافل ہوگئے تھے۔ آخرکار امام محمد باقر (ع) کے ہم عصر خليفہ، عمر بن عبد العزيز نے احاديث لکھنے کا حکم ديا جس کے بعد تقريباً سو سال پہلے فراموش ہو جانے والي احاديث مختلف راويوں کے ذريعے لکھي جانے لگيں۔ اس عمل نے سوسائٹي ميں فقہي اختلافات کا طوفان برپا کر ديا اور معاشرہ حيران و سرگرداں ہو گيا۔ يہي وہ موقع تھا جب امت اسلامي کي کشتي کے ناخدا، حضرت امام محمد باقر (ع) نے اپني الہي ہدايت کا اظہار کيا۔ آپ(ع) نے، جو کہ مکتبِ اہلبيت (ع) کے نمائندے اور شيعہ فقہ کے اولين موسس تھے، اپنے اجداد کي درست روايات کو بيان کر کے مکتبِ تشيع کي فقہ کي بنياد ڈالي۔۔ ايک ايسا بھرپور مکتب کہ جو دينِ مبين اسلام کا جامع اور کامل دستور العمل اور انساني زندگي کے لئے مکمل رہنما ہے۔

غلو کا مقابلہ:

پہلي صدي ہجري کے اواخر ميں مقامِ امامت کے حوالے سے لوگوں کا اندازِ فکر شديد اختلافات کا شکار ہو گيا تھا۔ ايک جانب سے کچھ لوگ خلافت کو بنواميہ کا حق سمجھتے تھے اور مقامِ عصمت سے يکسر غافل تھے تو دوسري جانب سے کچھ لوگ ايسے بھي تھے جو اپنے مفادات کے حصول کے لئے مقامِ امامت کے بارے ميں غلو سے کام لينے لگے تھے۔ يہ لوگ معرفت امام کا نام لے کر اپنے آپ کو اسلامي ذمہ داريوں سے بري الذمہ سمجھنے لگتے تھے اور کاميابي کے لئے امام کي شناخت کو کافي سمجھتے تھے۔ امام محمد باقر (ع) ائمہ کرام کے مقامِ عصمت پر تاکيد کرتے ہوئے عملِ صالح کي بھي تلقين کرتے تھے اور فرماتے تھے: ’’ہمارے شيعہ وہ ہيں جو ہماري، ہمارے آثار کي اور ہمارے اعمال کي پيروي کرتے ہيں۔‘‘ مضبوط ايمان کے ساتھ ساتھ شيعوں کو عمل کي جانب راغب کرنے کے لئے امام (ع) کي يہ تاکيد‘ ان تمام فرقوں کے مقابلے ميں امام (ع) کا اہم اقدام تھا جو عمل کے لئے کسي اہميت کے قائل نہ تھے اور شناختِ امام کو اپني سستي اور غفلت پر پردہ ڈالنے کے لئے استعمال کرتے تھے۔

 

تحرير: منيرہ زارعان

ترجمہ و تلخيص : سجاد مہدوي


متعلقہ تحریریں:

حضرت امام باقر (ع) کے دور میں علوم اھلبیت علیھم السّلام کی اشاعت

امام محمد باقر (ع) کی شہادت