• صارفین کی تعداد :
  • 3009
  • 1/22/2008
  • تاريخ :

جنت سے اخراج

 

طبیعت

قرآن داستان حضرت ادم عليہ السلام كو اگے بڑھاتے ہوئے كہا ہے، بالآخر شيطان نے ان دونوں كو پھسلاديا اور جس بہشت ميں وہ رہتے تھے اس سے باہر نكال ديا_(1)

 

اس بہشت سے جو اطمينان و آسائشے كا مركز تھي، اور رنج و غم سے دور تھى شيطان كے دھوكے ميں آكر نكالے گئے، جيسا كہ قرآن كہتا ہے:

 

''اور ہم نے انھيں حكم ديا كہ زمين پر اُترو ، جہاں تم ايك دوسرے كے دشمن ہوجائو گے ( آدم و حوا ايك طرف اور شيطان دوسرى طرف)

مزيد فرمايا گيا:'' تمہارے لئے ايك مدت معين تك زمين ميں قرار گاہ ہے، جہاں سے تم نفع اندوز ہوسكتے ہو''(2)

يہ وہ مقام تھا كہ آدم متوجہ ہوئے كہ انہوں نے اپنے اوپر ظلم كيا ہے اور بہشت كے آرام دہ اور نعمتوں سے مالا مال ماحول سے شيطانى وسوسے كے سامنے سر جھكانے كے نتيجے ميں باہر نكا لے جارہے ہيں اور اب زحمت ومشقت كے ماحول ميں جاكر رہيں گے يہ صحيح ہے ،كہ آدم نبى تھے اور گناہ سے معصوم تھے ليكن جيسا كہ ہم آئندہ چل كربيان كريں گے كہ كسى پيغمبر سے جب ترك اولى سرزد ہوجاتا ہے تو خدا وند عالم اس سے اس طرح سخت گيرى كرتا ہے جيسے كسى عام انسان سے گناہ سرزد ہونے پر سختى كرتا ہے _

 

آدم عليہ السلام كونسى جنت ميں تھے

اس سوال كے جواب ميں اس نكتے كى طرف متوجہ رہنا چاہئے كہ اگر چہ بعض نے كہا ہے كہ يہ وہى جنت تھى جو نيك اور پاك لوگوں كى وعدہ گاہ ہے ليكن ظاہر يہ ہے كہ يہ وہ بہشت نہ تھى بلكہ زمين كے سرسبز علاقوں ميں نعمات سے مالا مال ايك روح پر ورمقام تھا كيونكہ_

اوّل تو وہ بہشت جس كا وعدہ قيامت كے ساتھ ہے وہ ہميشگى اور جاودانى نعمت ہے جس كى نشاند ہى بہت سى آيات ميں كى گئي ہے اور اس سے باہر نكلنا ممكن نہيں _

دوّم يہ كہ غليظ اور بے ايمان ابليس كے لئے اس بہشت ميں جانے كى كوئي راہ نہ تھى وہاں نہ وسوسہ شيطانى ہے اور نہ خدا كى نافرمانى _

سوم يہ كہ اہل بيت سے منقول روايات ميں يہ موضوع صراحت سے نقل ہوا ہے _

 

ايك راوى كہتا ہے : ميں نے امام صادق عليہ السلام سے آدم كى بہشت كے متعلق سوال كيا امام نے جواب ميں فرمايا :

''دنيا كے باغوں ميں سے ايك باغ تھاجس پر آفتاب وماہتاب كى روشنى پڑتى تھى اگر آخرت كى جنتوں ميں سے ہو تى تو كبھى بھى اس سے باہر نہ نكالے جاتے''_

 

يہاں سے يہ واضح ہو جاتا ہے كہ آدم كے ہبوط ونزول سے مراد نزول مقام ہے،نہ كہ نزول مكان يعنى اپنے اس بلند مقام اور سرسبز جنت سے نيچے آئے _

 

بعض لوگوں كے نزديك يہ احتمال بھى ہے كہ يہ جنت كسى آسمانى كرہ ميں تھى اگر چہ وہ ابدى جنت نہ تھى ،بعض اسلامى روايات ميں بھى اس طرف اشارہ ہے كہ يہ جنت آسمان ميں تھى ليكن ممكن ہے لفظ ''سماء ً(آسمان ) ان روايات ميں مقام بلند كى طرف اشارہ ہو _

 

تاہم بے شمار شواہد نشاندہى ہيں كرتے ہيں كہ يہ جنت آخرت والى جنت نہ تھى كيونكہ وہ تو انسان كى سير تكامل كى آخرى منزل ہے اور يہ اس كے سفر كى ابتداء تھى اور اس كے اعمال اور پروگرام كى ابتداء تھى اور وہ جنت اس كے اعمال و پروگرام كا نتيجہ ہے_(3)

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) سورہ اعراف آيت 20،21

(2) سورہ بقرہ آيت 36

(3)آدم كا گناہ كيا تھا :واضح ہے كہ آدم اس مقام كے علاوہ جو خدا نے قران مجيد ميں ان كے لئے بيان كيا ہے معرفت وتقوى كے لحاظ سے بھى بلند مقام پر فائز تھے وہ زمين ميں خدا كے نمائند ے تھے وہ فرشتوں كے معلم تھے وہ عظيم ملائكہ الہى كے مسجود تھے اوريہ مسلم ہے كہ آدم امتيازات وخصوصيات كے ہو تے ہوئے گناہ نہيں كر سكتے تھے علاوہ ازيں ہميں معلوم ہے كہ وہ پيغمبر تھے اور ہرپيغمبر معصوم ہو تا ہے لہذا يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ آدم سے جو كچھ سرزد ہوا وہ كيا تھا؟ اس سوا ل كے جواب ميں تين تفاسير موجود ہيں :

1_ آدم سے جو كچھ سرزد ہوا وہ ترك اولى تھا دوسرے لفظوںميں ان كى حيثيت اور نسبت سے وہ گناہ تھا ليكن گناہ مطلق نہ تھا، گناہ مطلق وہ گناہ ہوتا ہے جو كسى سے سرزد ہو اور اس كے لئے سزا معين ہو (مثلا شرك،كفر ،ظلم اور تجاوز وغير ہ)اور نسبت كے اعتبار سے گناہ كا مفہوم يہ ہے كہ بعض اوقات بعض مباح اعمال بلكہ مستحب بھى بڑے لوگوں كے مقام كے لحاظ سے مناسب نہيں انہيں چا ہئے كہ ان اعمال سے گريز كريں اور اہم كام بجالائيں ورنہ كہا جائے گا كہ انہوں نے ترك اولى كيا ہے ہم جو نماز پڑھتے ہيں اس كا كچھ حصہ حضور قلب سے ہوتا ہے كچھ بغير اس كے، يہ امر ہمارے مقام كے لئے تو مناسب ہے ليكن حضرت رسول اسلام(ص) اور حضرت على (ع) كے شايان شان نہيں ان كى سارى نماز خداكے حضور ميں ہو نى چاہئے اور اگر ايسا نہ ہو توكسى فعل حرام كا ارتكاب تو نہيں تاہم ترك اولى ہے _

2_ خدا كى نہى يہاں ''نہى ارشادي'' ہے جيسے ڈاكڑكہتا ہے فلاں غذا نہ كھائو ورنہ بيمار پڑجائو گے خدا نے بھى آدم سے فرمايا كہ اگر درخت ممنوعہ سے كچھ كھا ليا تو بہشت سے باہر جانا پڑے گااور رنج وتكليف ميں مبتلا ہونا پڑے گا ،لہذا ادم عليہ السلام نے حكم خدا كى مخالفت نہيں كى بلكہ ''نہى ارشادي''كى مخالفت كى ہے _

3_جنت بنيادى طور پر جائے تكليف نہ تھى بلكہ وہ ادم عليہ السلام كے زمين پر انے كے لئے ايك ازمائشے اور تيارى كا زمانہ تھا،اور يہ نہيں صرف ازمائشے كا پہلو ركھتى تھي_