• صارفین کی تعداد :
  • 4305
  • 12/11/2013
  • تاريخ :

حضرت زينب کبري (س) نے حضرت امام سجاد (ع) کي حفاظت کي

حضرت زینب کبری (س) نے حضرت امام سجاد (ع) کی حفاظت کی

شہادت امام حسين (ع) کے بعد زينب کبري (س) کي تين ذمہ دارياں

امام سجاد (ع) جن کے بابا او ر پوراخاندان احياء دين کيلئے مبارزہ کرتے ہوئے بدرجہ شہادت فائز ہوئے تھے اور خود امام نے ان شہداء کے پيغامات کو آنے والے نسلوں تک پہنچانے کي ذمہ داري قبول کي تھي ، اس سے مخاطب ہوئے : ميرا بھائي علي ابن الحسين (ع) تھا جسے تم لوگوں نے شہيد کيا -

ابن زياد نے کہا : اسے خدا نے قتل کيا ہے -

امام سجاد (ع) نے جب اس کي لجاجت اور دشمني کو ديکھا تو فرمايا: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ -2-

 اللہ ہي ہے جو روحوں کو موت کے وقت اپني طرف بلاليتا ہے اور جو نہيں مرتے ہيں ان کي روحوں کو بھي نيند کے وقت طلب کرليتا ہے - اور پھر جس کي موت کا فيصلہ کرليتا ہے ،اس کي روح کو روک ليتا ہے - اور دوسري روحوں کو ايک مقررہ مدّت کے لئے آزاد کرديتا ہے - اس بات ميں صاحبان فکر و نظر کے لئے بہت سي نشانياں پائي جاتي ہيں -

ابن زياد اس محکم اور منطقي جوا ب اور استدلال سن کر لا جواب ہوا تو دوسرے ظالموں اور جابروں کي طرح تہديد پر اتر آيا اور کہنے لگا : تو نے کس طرح جرات کي ميري باتوں کا جواب دے ؟! جلاد کو حکم ديا ان کا سر قلم کرو - تو اس وقت زينب کبري (س) نے سيد سجاد (ع)کو اپنے آغوش ميں ليا اور فرمايا:اے زياد کے بيٹے ! جتنے ہمارے عزيزوں کو جو تم نے شہيد کيا ہے کيا کافي نہيں؟!خدا کي قسم ميں ان سے جدا نہيں ہونگي - اگر تو ان کو شہيد کرنا ہي ہے تو پہلے مجھے قتل کرو-

يہاں ابن زياد دوراہے پر رہ گيا کہ اس کے سمجھ ميں نہيں آرہا تھا کہ کيا کروں ؟ ايک طرف سے کسي ايک خاتون اوربيمار جوان کو قتل کرنا - دوسرا يہ کہ زينب کبري (س)کو جواب نہ دے پانا- يہ دونوں غيرت عرب کا منافي تھا -

اس وقت عمرو بن حريث نے کہا: اے امير! عورت کي بات پر انہيں سزانہيں دي جاتي، بلکہ ان کي خطاۆں سے چشم پوشي کرنا ہوتا ہے - اس وقت ابن زياد نے زينب کبري(س) سے کہا: خدا نے تمھارے نافرمان اور باغي خاندان کو قتل کرکے ميرے دل کو چين اور سکون فراہم کيا -اس معلون کي اس طعنے نے زينب کبري(س) کا سخت دل دکھا يااورلاديا - اس وقت فرمايا: ميري جان کي قسم ! تو نے ميرے بزرگوں کو شہيد کيا، اور ميري نسل کشي کي ، اگر يہي کام تيرے دل کا چين اور سکون کا باعث بنا ہے تو کيا تيرے لئے شفا ملي ہے ؟! ابن زياد نے کہا : يہ ايک ايسي عورت ہے جو قيافہ کوئي اور شاعري کرتي ہے - يعني اپني باتوں کو شعر کي شکل ميں ايک ہي وزن اور آہنگ ميں بيان کرتي ہے - جس طرح ان کا باپ بھي اپني شاعري دکھايا کرتا تھا -

زينب کبري (س) نے کہا: عورت کو شاعري سے کيا سروکار؟! ليکن ميرے سينے سے جو بات نکل رہي ہے وہ ہم قيافہ اور ہم وزن ہے-3--

آخر ميں مجبور ہوا کہ موضوع گفتگو تبديل کرے اور کہا: بہت عجيب رشتہ داري ہے کہ خدا قسم ! ميرا گمان ہے کہ زينب چاہتي ہے کہ ميں اسے ان کے برادر زادے کے ساتھ قتل کروں؛ انہيں لے جاۆ؛ کيونکہ ميں ان کي بيماري کو ان کے قتل کيلئے کافي جانتاہوں-

اس وقت امام سجاد(ع) نے فرمايا : اے زياد کے بيٹے ! کيا تو مجھے موت سے ڈراتے ہو ؟ کيا تو نہيں جانتا ، راہ خدا ميں شہيد ہونا ہمارا ورثہ اور ہماري کرامت ہے -

قدم قدم پہ مقاصد کي عظمتوں کا خيال

نفس نفس ميں بھتيجے کي زندگي کا سوال

ردا چھني تو بڑھا اور عصمتوں کا جلال

کھلے جو بال تو نکھرا حسينيت کا جمال

نقيب فتح شہ مشرقين بن کے اٹھي

نہ تھے حسين تو زينب حسين بن کے اٹھي -4- ( جاری ہے )

 

حوالہ جات :

1 - بحار ،ج45،ص117،118-

2 - زمر 42-

3 - ارشاد- ترجمه رسولى محلاتى ج‏2 ص 119

4 - پيام اعظمي ؛ القلم،ص273-

 


متعلقہ تحریریں‌:

بني نجار ميں ايک عورت

پيغمبر حضرت خديجہ کي وفات کے موقع پر