• صارفین کی تعداد :
  • 1566
  • 3/17/2012
  • تاريخ :

دنيا، عارضي قيام گاہ - 1

محرم الحرام

صبح عاشورا امام حسين عليہ السلام کا اہم خطبہ

تاريخ دمشق کا مۆلف بشر بن طلحہ کے حوالے سے اور وہ بھي قبيلۂ ہمدان کے ايک مرد سے نقل کرکے لکھتا ہے (1):

حسين بن على عليہ السلام، نے اپني شہادت کے دن صبح کے وقت ہم سے خطاب کيا اور حمد و ثنائے الہي کے بعد فرمايا:

"عِبادَ اللّه ِ، اتَّقُوا اللّه َ وكونوا مِنَ الدُّنيا عَلى حَذَرٍ" بندگان خدا! خدا سے ڈرو اور دنيا سے خبردار رہو-

وضاحت:

جس طرح کہ امام (ع) کے خطاب کي اگلي سطور نيز آيات قرآني سے ظآہر ہوتا ہے، آپ (ع) کے کلام کا مطلب يہ نہيں ہے کہ دنيا کي موجودہ نعمتوں سے دوري کي جائے بلکہ مراد يہ ہے يہ دنيا سے وابستگي اور دنيا کے معاملات ميں مصروف ہوکر ان اہداف کو بھلانے سے پرہيز کرنا چاہئے جن کے لئے ہماري تخليق ہوئي ہے، اس ہدف تک پہنچنے کي راہ ميں ہم پر عائد ہونے والي ذمہ دارياں فراموش کرنے سے پرہيز کرنا چاہئے جو آخرکار خدا کي ذات کو فراموش کرنے پر منتج ہوتا ہے- .(2)

امام (ع) اس کے بعد دنيا سے پرہيز کي ضرورت کا ثبوت لاتے ہوئے فرماتے ہيں:

"فَإِنَّ الدُّنيا لَو بَقِيَت لِأَحَدٍ و بَقِيَ عَلَيها أحَدٌ كانَتِ الأَنبِياءُ أحَقَّ بِالبَقاءِ و أولى بِالرِّضى و أرضى بِالقَضاءِ"  يعني اگر طے يہ ہوتا کہ يہ دنيا کسي کے لئے پائدار ہو اور کوئي اس ميں ابد تک جاويدان ہوکر رہے تو قطعي طور پر انبيائے الہي اس دنيا ميں ہميشہ کے لئے زندہ رہنے کے سب سے زيادہ اہل ہوتے اور وہ حضرات قضائے الہي اور اس کي رضا سے خوشنود ہونے کے سب سے زيادہ لائق تھے-

-----------

مآخذ:

1- تاريخ دمشق : ج 14 ص 218

2- سورہ حديد کي آيت 20 ميں قابل مذمت دنيا اور توہمات پر مبني اعتبارات کے بارے ميں ارشاد ہوا ہے جنہوں نے انسان کو اپنے اوپر مصروف کررکھا ہے اور يہ انسان کے انحراف کا سبب بنتے ہيں- [يہ دنيوي زندگي بس کھيل، تفريح ميں محويت، بناۆ سنگھار ،آپس ميں ايک دوسرے پر فخر، ايک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مال اور اولاد ميں زيادتي کي کوشش ہے]- سورہ ص کي آيت 26 ميں اس بات کي تنبيہ ہے کہ قيامت کو فراموش کرنا انحراف اور جہنم ميں گرنے کا سبب ہے-

تحرير : ف ح مهدوي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

حسين عليہ السلام انساني معاشرے کے طبيب 4