صفحه اصلی تبیان
شبکه اجتماعی
مشاوره
آموزش
فیلم
صوت
تصاویر
حوزه
کتابخانه
دانلود
وبلاگ
فروشگاه اینترنتی
جمعہ 22 نومبر 2024
فارسي
العربیة
اردو
Türkçe
Русский
English
Français
تعارفی نام :
پاسورڈ :
تلاش کریں :
:::
اسلام
قرآن کریم
صحیفه سجادیه
نهج البلاغه
مفاتیح الجنان
انقلاب ایران
مسلمان خاندان
رساله علماء
سروسز
صحت و تندرستی
مناسبتیں
آڈیو ویڈیو
اصلی صفحہ
>
مسلمان خاندان
>
بچوں کی دنیا
>
کہانیاں
1
2
3
4
سورج مُکھی کیا ہے
سورج مکھی(Sun Flower) زرد رنگ کا پھول ہے، چونکہ یہ دن کے اوقات میں سورج کے ساتھ اپنی سمت بدلتا رہتا ہے تاکہ اپنا رخ سورج کی سمت ہی رکھ سکے، اس لیے اسے سورج مکھی کا نام دیا گیا ہے۔
شیر کا احسان ( پانچواں حصّہ )
بادشاہ ملکہ کے پاس کسان کو لے کر آگیا کسان نے جیب سے بوٹی نکال کر اسے پانی میں گھول کر جیسے ہی پلایا، ملکہ کے ہاتھ پاؤں میں جنبش ہونا شو ہوگئی اور اس نے آنکھیں
شیر کا احسان ( چوتھا حصّہ )
کسان نے شیر کا شکریہ ادا کیا شیر نے کہا: ” جاؤ خدا حافظ ہمیشہ نیک رہنا اور نیکی کرتے رہنا “ کسان شیر سے رخصت ہو کر اپنے ٹھکانے پر آگیا سنار کو اٹھا کر اسے بوٹی کچل کر پلا دی
شیر کا احسان ( تیسرا حصّہ )
کسان کھانے پینے کا سامان کپڑے میں باندھ کر کاندھے پر اٹھا کر شیر کے ساتھ چلنے لگا کچھ دور جا کر شیر نے چھوٹے چھوٹے پودوں کی طرف پنجے سے اشارے کرتے ہوئے کسان سے کہا:
شیر کا احسان (دوسرا حصّہ )
شیر نے کہا: ” اے بھائی! مجھ دے نہ ڈر میں نے اللہ سے دعا مانگی ہے کہ مجھے بات کرنے کیلئے کچھ دیر کیلئے زبان دے دے“
شیر کا احسان
پرانے زمانے میں شہر سے کوسوں دور ایک گاؤں میں سیلاب آ گیا ہزاروں لوگ پانی میں بہہ گئے لاتعداد گھر تباہ و برباد ہوگئے اور سینکڑوں لوگ پانی میں ڈوبنے سے بچ تو گئے مگر اس کے پاس کھانے کو کچھ نہ بچا تھا
ایک چیل کی کہانی ( حصّہ سوّم )
بچو! پھر یہ ہوا کہ کچھ دنوں تک چیل کبوتر خانے کی طرف اسی طرح آتی رہی اور ان کی خوب دیکھ بھال کرتی رہی ایک دن بادشاہ چیل نے ایک بلے کو وہاں دیکھا تو اس پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایسا زبردست حملہ کیا کہ بلا ڈر کر بھاگ گیا
ایک چیل کی کہانی ( حصّہ دوّم )
بھائیو! اور بہنو! میں طلم کے خلاف ہوں انصاف اور بھائی چارے کی حامی ہوں میں چاہتی ہوں کہ انصاف کی حکومت قائم ہو دشمن کا منہ پھیر دیا جائے اور تم سب ہر خوف سے آزاد اطمینان اور سکون کی زندگی بسر کرسکو
ایک چیل کی کہانی
بچو! یہ اس چیل کی کہانی ہے جو کئی دن سے ایک بڑے سے کبوتر خانے کے چاروں طرف منڈلا رہی تھی اور تاک میں تھی کہ اڑتے کبوتر پر جھپٹا مارے اور اسے لے جائے لیکن کبوتر بھی بہت پھرتیلے، ہوشیار اور تیز اڑان تھے
ماں کے بغیر زندگی
اندھیری رات ہے، بس کا سفر ہے۔ میں نو دس سال کا لڑکا، ڈرائیور کے ساتھ کی نشست پر اپنے نانا کے پہلو میں بیٹھا ہوں۔ ایک آہنی جنگلے کے پیچھے تختے پر سفید چادر سے ڈھکا ہوا کوئی وجود ہے، میں آنکھیں مَل مَل کر دیکھتا ہوں۔ یہ میری ماں کی میّت ہے۔ سامنے میرے والد
چینی لوک کھانی
گۓ وقتوں میں کسی گاؤں میں اک لکڑ ہارا رھتا تھا؛وہ روز جنگل میں جاتا اور لکڑیاں کاٹ کر فروخت کرتا اس طرح تنگی ترشی سے گھر چل رھا تھا؛لیکن اسکی بیوی نھایت تنک مزاج اور بدخو تھی ھر وقت زبان پر شکوہ رھتا؛کرنا خدا کا یہ ھوا کہ لکڑ ھارے کی شیر سے دوستی ھوگئ؛اب
مخلص اور بہتر دوست
بس، بس رہنے دو میری بھلائی،میں خود سمجھتا ہوں ا پنی بھلائی اپنی برائی کو،تم اپنے کام سے کام رکھو بس، ندیم نے اسی طرح تنکتے ہوئے کہا۔
مخلص دوست
ایک پتھر درخت کی سب سے بالائی شاخ پر بیٹے ہوئے طوطے کو لگا اور وہ پھڑپھڑاتا ہوا شاخ سے گر کر نیچے زمین پر آن گرا.... اسے تڑپتا دیکھ کر ندیم کی آنکھوں میں چمک سی آ گئی، ہونٹوں پر مسکراہٹ تیرنے لگی۔
قحط میں قیمتی چیز
سب لوگ حیران رہ گئے۔ ملاح کی بات دل میں اتر گئی۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا ”گیہوں سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے۔ پورا جہاز اس سے بھر لیا جائے کہ جب قحط بھی پڑے تو اس کا مقابلہ ہو سکے۔“
سب سے قیمتی
کوئی آٹھ سو سال پہلے کی بات ہے، ہالینڈ میں ایک شہر بہت خوبصورت تھا ۔ یہ سمندر کے کنارے اب بھی واقع ہے اور سمندر کے تھپیڑوں کو روکنے کے لیے یہاں ایک بہت بڑا، اونچا اور مضبوط پشتہ بنا ہوا ہے۔ یہ پشتہ آٹھ سو سال پہلے بھی موجود تھا۔ اسی کی بدولت بڑے بڑے تجارت
جانوروں کا نیا مکان
اس کے ساتھ ہی اس نے دھماکے دار گولے فرش پر زور سے مارے۔ اتنے زور کا دھماکہ ہوا کہ در و دیوار ہلنے لگے۔ سب جانور ڈر کے مارے کانپنے لگے۔ کچھ تو دھڑام سے فرش پر گر ہی گئے تھے۔
نیا مکان
یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب سب جانور اکٹھے رہا کرتے تھے۔ ایک دن سب نے مل کر نیا مکان بنانے کا فیصلہ کیا۔ ان میں بھیا ریچھ، لومڑ، بھیڑیا سب ہی جانور شامل تھے۔
لکڑہارے کی رحم دلی
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گاؤں میں ایک غریب لکڑہارا رہتا تھا ۔ وہ روزانہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور انھیں بیچ کر اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالتا تھا۔ لکڑہارا بہت غریب لیکن ایمان دار، رحم دل اور اچھے اَخلاق والا آدمی تھا
دوسرے شير سوختہ شير کا انتقام لينا چاہتے تھے
شیر نے سارا واقعہ بیان کیا اور کہا یہ سب مصیبت میرے سر آدمی زاد کی لائی ہوئی ہے۔
شير اس کے ڈر سے ايسا فرار ہوا کہ اس نے پيچھے مڑ کر بھي نہ ديکھا
آدمی نے ابلتے پانی کا لوٹا تھاما اور پنجرے کی چھت پر سے شیر کے سر اور جسم پر انڈیلنا شروع کیا۔
او لڑکے لوٹا لے آ
شیر نے جس قدر بھی غور کیا، اسے کہ آدمی زاد کوئی وحشت ناک چیز نہیں اور بڑا مہربان ہے۔
آدمي زاد نے شير کے ليے گھر! بنايا
آدمی بولا: اچھے بول کوئی دلیل نہیں، ہمارے عمل اچھے ہیں۔ یقین کریں جو کام بھی ہمارے ہاتھ سے سر زد ہوتا ہے، دوسروں کی خدمت کے لیے ہوتا ہے۔
آدمي زاد: ميں جانوروں کي نگہداشت کرتا ہوں
مرد بولا: آپ کی جان عزیز کی قسم یقین کریں ان لوگوں نے آپ کے کان بھرے ہیں۔
کيا يہ بے سر وپا سي مخلوق آدمي زاد ہے؟!
شیر قدرے اور چلا اور ایک کھیت کے قریب جا پہنچا۔ کیا دیکھا ہے کہ ایک شخص لکڑیوں کا گھٹا باندھ رہا ہے اور ایک لڑکا بھی اس کی مدد کر رہا ہے اور شاخوں کو الگ الگ ترتیب دے رہا ہے۔
شير نے گھوڑے سے پوچھا تو کون ہے؟
اب شیر اس سوچ میں گم تھا کہ یہ آدمی زاد بھی عجیب شے ہے کہ ہر کوئی اس سے ڈرتا ہے۔
شير نے گدھے سے پوچھا کيا تو آدمي زاد کے سينگ ہے؟
وہ پھر آگے بڑھا اور اب اس کی نگاہ ایک گدھے پر پڑی کہ صحرا میں ڈھینچوں ڈھینچوں کرتا سر پٹ دوڑتا جا رہا تھا۔
شير نے گائے سے پوچھا کيا تو آدمي زاد ہے؟
شیر پھر آگے بڑھا حتی کہ رستے میں اسے ایک گائے ملے۔
شير نے ہاتھي اور اونٹ سے پوچھا کيا تو آدمي زاد ہے؟
اگلے دن شیر صبح سویرے صحرا کے رستے پر چل پڑا۔ چلتا گیا، چلتا گیا، حتی کہ اس نے دور سے ایک ہاتھی دیکھا۔
شير اور آدمي زاد
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شیر جنگل کے میدان میں بیٹھا اپنے بچوں کو کھیل کود میں مشغول دیکھ رہا تھا
ايک روز رنگيلا گيدڑ، انگور باغ کے کنويں ميں جاگرا اور قصہ اپنے اختتام کو پہنچا
گیدڑ بولے رنگ ریز تو غافل نہ بیٹھا ہوگا کہ گیدڑ وہاں خود کو رنگ کرتا پھرے۔
گيدڑ جمع ہوئے- انھوں نے رنگيلے گيدڑ کو مبارک دي
بھگوڑا گیدڑ ڈر گیا۔ بولا: نہیں میں جانتا ہوں کہ تم جو کہتے ہو سچ کہتے ہو۔ اب تم یہیں رہنا، میں دوسرے گیدڑوں کو اطلاع دیتا ہوں۔
گیدوس
اس وقت اچانک گڑگڑاہٹ ہوئی، بجلی چمکی اور فضا سے نور برسنے لگا اور میرا رنگ اس طرح کا ہوگیا۔
گيدڑ اس بے دمي اور رنگوں کے ساتھ کہ ميں مور کي طرح ہوگيا ہے
ناچار گیدڑ باہر نکلا اور جب اس کے بال خشک ہوگئے، خود سے کہنے لگا
اچانک گيدڑ سوراخ سے پھسل کر اس مٹکے ميں جا گرا جس ميں سرخ رنگ بھرا تھا
اب گیدڑ نے آبادی کا رخ کیا اور ایک گلی میں داخل ہوگیا۔ کتے کے ڈر سے اس نے اپنے آپ کو ایک سوراخ میں چھپا لیا۔
گیدڑ نے بڑي مشکل سے لوٹے کو الٹا سيدھا کرکے اسے ريت سے خالي کيا
پھر اس نے ایک باریک رسی ڈھونڈ نکالی اور لوٹے کے دستے کو بڑی مضبوطی سے اپنی دم سے باندھا۔
گيدڑ نے لوٹے کو اپنے اگلے دانتوں ميں پکڑ اور اسے ايک دريا کے کنارے لے آيا
گیدڑ نے لوٹے کو اپنے اگلے دانتوں میں پکڑ اور اسے ایک دریا کے کنارے لے آیا۔ کنارے پر پہنچ کر اس نے لوٹے کو پانی میں پھنکنا چاہا لیکن دریا کے کنارے پر گہرائی کم تھی اور گہرائی کم تھی
لومڑی نے ہر جگہ کھوج لگايا ليکن شير کا کہيں پتا نہ چلا
لومڑی بھی لوٹ آئی اور بولی: میں نے ہر جگہ کھوج لگایا لیکن شیر کا کہیں پتا نہ چلا۔
ايک گيدڑ پھندے ميں پھنس گيا
جس رات باغ کے مالک نے پھدا لگایا، ڈرپوک گیدڑ دیر سے آیا۔ ایک گیدڑ پھندے میں پھنس گیا اور باقی نے راہ فرار اختیار کی۔
رنگيلا گيدڑ
ایک تھا گیدڑ، بڑا ڈرپوک مگر بڑا بدفطرت۔ اس نے اپنے ہم جنسوں کو باغ کے انگوروں کو پامال کرنے کا ڈھنگ سکھایا۔
چڑيوں کا حملہ
چڑیوں کا حملہ شروع ہوا۔ وہ ہاتھی کے اردگرد منڈلانے لگیں اور اس سے پہلے کہ ہاتھی حرکت میں آتا، چڑیاں اس کی آنکھیں نکال چکی تھیں۔
کاميابي کي راه
ہاتھی نے کہا: مجھے جو کہنا تھا کہہ چکا تمہیں جو کرنا ہے کر لو۔
ہاتھي کي بے وقوفي
ہاتھی بولا: پانی پینے کے لیے جاتے ہوئے وہی میری گزرگاہ ہے۔
چڑياں يکجان ہو جاتي ہيں
چڑیاں یہ سن کر ہنسنے لگیں۔ پھر بولیں، تو ایسے بڑے بول کیوں بول رہی ہے۔ کیا ہم ہاتھی سے الجھنے کی سکت رکھتی ہیں؟
مجرم نے توتے کي وجہ سے سب کچھ اگل ديا
بعد میں مجرم نے توتے کی وجہ سے سب کچھ اگل دیا۔ اپنا نام، اڈے کا پتا اور کئی وارداتیں بھی جو اس نے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کی تھیں۔
با کمال توتا سفير بھائي کے ساتھ
سفیر بھائی نے اسے جواب دیا: بس کچھ مصروفیت رہی، ایک کیس نے بری طرح الجھا رکھا ہے۔ آج بھی اس علاقے میں اپنے کام سے آیا ہوں۔
با کمال توتا عثمان کے گهر میں
عثمان نے توتا لے کر شکریہ ادا کیا اور گھر کی طرف چل دیا۔
با کمال توتا
نعمان اور عثمان دونوں دوست اسکول سے نکلے تو نعمان اپنے والد کے ساتھ گھر چلا گیا، جب کہ عثمان اکیلا ہی گھر کی طرف چل دیا۔
چڑيا اور ہاتھي
ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی صحرا میں چڑیوں کا ایک خاندان رہتا تھا۔ انھوں نے گھاس پھونس میں انڈے دیے تھے جن سے بچے نکل آئے تھے۔
نیکی کے متعلق ایک خوبصورت کہانی
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی شہر میں ایک بہت ہی غریب لڑکا رہتا تھا ۔ لڑکا غریب ضرور تھا مگر انتہائی باہمت بھی تھا ۔
ضحّاک کی کہانی کا انیسواں اور بیسواں حصّہ
ضحاک ۔ اے میرے معبودوں کے خاص پرستارو!تم ہمارے معبودوں کے سایہءعاطفت، میں تمام ظاہری وباطنی رموزواَسرار سےواقف ہو!
1
2
3
4
اصلی صفحہ
ہمارے بارے میں
رابطہ کریں
آپ کی راۓ
سائٹ کا نقشہ
صارفین کی تعداد
کل تعداد
آن لائن