صفحه اصلی تبیان
شبکه اجتماعی
مشاوره
آموزش
فیلم
صوت
تصاویر
حوزه
کتابخانه
دانلود
وبلاگ
فروشگاه اینترنتی
منگل 3 دسمبر 2024
فارسي
العربیة
اردو
Türkçe
Русский
English
Français
تعارفی نام :
پاسورڈ :
تلاش کریں :
:::
اسلام
قرآن کریم
صحیفه سجادیه
نهج البلاغه
مفاتیح الجنان
انقلاب ایران
مسلمان خاندان
رساله علماء
سروسز
صحت و تندرستی
مناسبتیں
آڈیو ویڈیو
اصلی صفحہ
>
مسلمان خاندان
>
بچوں کی دنیا
1
2
3
4
5
6
7
ہم بچے نجی اسکولوں کے لیے ہی تو پیدا کرتے ہیں
کبھی بچوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لیے کہا جاتا تھا، ’پڑھوگے لِکھو گے بنو گے نواب۔‘ لیکن اب والدین اولاد سے صاف صاف کہہ دیتے ہیں، ’بنو گے نواب تو ہی پڑھوگے لکھو گے۔‘
بچوں کو دوست رکھئے اور انھيں زيادہ وقت ديجئے
بچوں کی حفاظت اور نگرانی ان کی تربیت سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہے
سورج مُکھی کیا ہے
سورج مکھی(Sun Flower) زرد رنگ کا پھول ہے، چونکہ یہ دن کے اوقات میں سورج کے ساتھ اپنی سمت بدلتا رہتا ہے تاکہ اپنا رخ سورج کی سمت ہی رکھ سکے، اس لیے اسے سورج مکھی کا نام دیا گیا ہے۔
اپنے بچوں کو يہ ضرور سکھائيں
ہم اس تحرير ميں چند کاموں اور باتوں کا ذکر کريں گے جن کا خيال رکھتے ہوۓ ہم بچے کو بہت ساري اچھي عادات سکھا سکتے ہيں -
بچوں کی تربیت میں موبایل کا استعمال نقصان دہ
خاندانی امور کے ماہر نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ موبایل بچوں اور نوجواںوں کے لئے سب سے زیادہ ضرر رساں شئی ہے کہا: موبایل، بہت سارے ممالک ترقی پذیر ممالک اور اسلامی ممالک کے گھرانوں کے بیچ دراڑ پڑنے کا سبب ہے ۔
شیر کا احسان ( پانچواں حصّہ )
بادشاہ ملکہ کے پاس کسان کو لے کر آگیا کسان نے جیب سے بوٹی نکال کر اسے پانی میں گھول کر جیسے ہی پلایا، ملکہ کے ہاتھ پاؤں میں جنبش ہونا شو ہوگئی اور اس نے آنکھیں
شیر کا احسان ( چوتھا حصّہ )
کسان نے شیر کا شکریہ ادا کیا شیر نے کہا: ” جاؤ خدا حافظ ہمیشہ نیک رہنا اور نیکی کرتے رہنا “ کسان شیر سے رخصت ہو کر اپنے ٹھکانے پر آگیا سنار کو اٹھا کر اسے بوٹی کچل کر پلا دی
شیر کا احسان ( تیسرا حصّہ )
کسان کھانے پینے کا سامان کپڑے میں باندھ کر کاندھے پر اٹھا کر شیر کے ساتھ چلنے لگا کچھ دور جا کر شیر نے چھوٹے چھوٹے پودوں کی طرف پنجے سے اشارے کرتے ہوئے کسان سے کہا:
شیر کا احسان (دوسرا حصّہ )
شیر نے کہا: ” اے بھائی! مجھ دے نہ ڈر میں نے اللہ سے دعا مانگی ہے کہ مجھے بات کرنے کیلئے کچھ دیر کیلئے زبان دے دے“
شیر کا احسان
پرانے زمانے میں شہر سے کوسوں دور ایک گاؤں میں سیلاب آ گیا ہزاروں لوگ پانی میں بہہ گئے لاتعداد گھر تباہ و برباد ہوگئے اور سینکڑوں لوگ پانی میں ڈوبنے سے بچ تو گئے مگر اس کے پاس کھانے کو کچھ نہ بچا تھا
ایک چیل کی کہانی ( حصّہ سوّم )
بچو! پھر یہ ہوا کہ کچھ دنوں تک چیل کبوتر خانے کی طرف اسی طرح آتی رہی اور ان کی خوب دیکھ بھال کرتی رہی ایک دن بادشاہ چیل نے ایک بلے کو وہاں دیکھا تو اس پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایسا زبردست حملہ کیا کہ بلا ڈر کر بھاگ گیا
ایک چیل کی کہانی ( حصّہ دوّم )
بھائیو! اور بہنو! میں طلم کے خلاف ہوں انصاف اور بھائی چارے کی حامی ہوں میں چاہتی ہوں کہ انصاف کی حکومت قائم ہو دشمن کا منہ پھیر دیا جائے اور تم سب ہر خوف سے آزاد اطمینان اور سکون کی زندگی بسر کرسکو
ایک چیل کی کہانی
بچو! یہ اس چیل کی کہانی ہے جو کئی دن سے ایک بڑے سے کبوتر خانے کے چاروں طرف منڈلا رہی تھی اور تاک میں تھی کہ اڑتے کبوتر پر جھپٹا مارے اور اسے لے جائے لیکن کبوتر بھی بہت پھرتیلے، ہوشیار اور تیز اڑان تھے
ماں کے بغیر زندگی
اندھیری رات ہے، بس کا سفر ہے۔ میں نو دس سال کا لڑکا، ڈرائیور کے ساتھ کی نشست پر اپنے نانا کے پہلو میں بیٹھا ہوں۔ ایک آہنی جنگلے کے پیچھے تختے پر سفید چادر سے ڈھکا ہوا کوئی وجود ہے، میں آنکھیں مَل مَل کر دیکھتا ہوں۔ یہ میری ماں کی میّت ہے۔ سامنے میرے والد
چینی لوک کھانی
گۓ وقتوں میں کسی گاؤں میں اک لکڑ ہارا رھتا تھا؛وہ روز جنگل میں جاتا اور لکڑیاں کاٹ کر فروخت کرتا اس طرح تنگی ترشی سے گھر چل رھا تھا؛لیکن اسکی بیوی نھایت تنک مزاج اور بدخو تھی ھر وقت زبان پر شکوہ رھتا؛کرنا خدا کا یہ ھوا کہ لکڑ ھارے کی شیر سے دوستی ھوگئ؛اب
یہ بادِ صبا کون چلاتا ہے
یہ بادِ صبا کون چلاتا ہے، مرا رب گلشن میں کلی کون کھلاتا ہے، مرا ربمکھی کو بھلا شہد بنانے کا سلیقہ تم خود ہی کہو کون سکھاتا ہے، مرا رب
یارب عظیم ہے تو
یارب عظیم ہے تو سب پر رحیم ہے توتعریف تجھ کو زیبا توصیف میرا شیوہ
مخلص اور بہتر دوست
بس، بس رہنے دو میری بھلائی،میں خود سمجھتا ہوں ا پنی بھلائی اپنی برائی کو،تم اپنے کام سے کام رکھو بس، ندیم نے اسی طرح تنکتے ہوئے کہا۔
مخلص دوست
ایک پتھر درخت کی سب سے بالائی شاخ پر بیٹے ہوئے طوطے کو لگا اور وہ پھڑپھڑاتا ہوا شاخ سے گر کر نیچے زمین پر آن گرا.... اسے تڑپتا دیکھ کر ندیم کی آنکھوں میں چمک سی آ گئی، ہونٹوں پر مسکراہٹ تیرنے لگی۔
چڑیا کے بچوں کی نجات
ادھر چڑیا بی کو جب کسی کی چیخ و پکار سنائی دی تو وہ پریشان ہوگئیں کہ اللہ خیر کرے کہیں یہ میرے بچے تو نہیں رو رہے، جب چڑیا بی نے اپنے درخت کے قریب آ کر یہ منظر دیکھا کہ ان کے دونوں ننھے ننھے معصوم سے روئی کے گالے بچے انسانی شکار بننے جا رہے ہیں تو ان سے ر
چڑیا بی کے بچے
گھنے جنگل کے پار افق پر سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اور سورج کی شعاعیں درختوں کی اوٹ سے جھانکتے ہوئے جنگل کی ناہموار زمین پر بمشکل پہنچ رہی تھیں۔ گویا جنگل کی زندگی میں ہر سو اجالا پھیل چکا تھا اور اس کے ساتھ ہی تمام چرند پرند بھی اپنی اپنی نگا
قحط میں قیمتی چیز
سب لوگ حیران رہ گئے۔ ملاح کی بات دل میں اتر گئی۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا ”گیہوں سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے۔ پورا جہاز اس سے بھر لیا جائے کہ جب قحط بھی پڑے تو اس کا مقابلہ ہو سکے۔“
سب سے قیمتی
کوئی آٹھ سو سال پہلے کی بات ہے، ہالینڈ میں ایک شہر بہت خوبصورت تھا ۔ یہ سمندر کے کنارے اب بھی واقع ہے اور سمندر کے تھپیڑوں کو روکنے کے لیے یہاں ایک بہت بڑا، اونچا اور مضبوط پشتہ بنا ہوا ہے۔ یہ پشتہ آٹھ سو سال پہلے بھی موجود تھا۔ اسی کی بدولت بڑے بڑے تجارت
جانوروں کا گھر اور خرگوش
ہر گزرنے والا مینار کو گردن اٹھا کر دیکھتا پھر خرگوش سے پوچھتا، ارے یہ مینار کس لئے بنا رہے ہو؟
جانوروں کا نیا مکان
اس کے ساتھ ہی اس نے دھماکے دار گولے فرش پر زور سے مارے۔ اتنے زور کا دھماکہ ہوا کہ در و دیوار ہلنے لگے۔ سب جانور ڈر کے مارے کانپنے لگے۔ کچھ تو دھڑام سے فرش پر گر ہی گئے تھے۔
خدا کی حمد
تنہائیوں میں ہے یاد اس کی محفلوں میں ہے بات اس کی رنجشوں میں ملے رحمت اس کی خوشیوں میں بھی ملے رحمت اس کی
حمد باری تعالی
تو موسم سردی کا لائےسردی جائے گرمی آئےتیرا ہے برسات نظارااور ہے موسم بہار پیارا
نیا مکان
یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب سب جانور اکٹھے رہا کرتے تھے۔ ایک دن سب نے مل کر نیا مکان بنانے کا فیصلہ کیا۔ ان میں بھیا ریچھ، لومڑ، بھیڑیا سب ہی جانور شامل تھے۔
لکڑہارے کی رحم دلی
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گاؤں میں ایک غریب لکڑہارا رہتا تھا ۔ وہ روزانہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور انھیں بیچ کر اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالتا تھا۔ لکڑہارا بہت غریب لیکن ایمان دار، رحم دل اور اچھے اَخلاق والا آدمی تھا
دوسرے شير سوختہ شير کا انتقام لينا چاہتے تھے
شیر نے سارا واقعہ بیان کیا اور کہا یہ سب مصیبت میرے سر آدمی زاد کی لائی ہوئی ہے۔
شير اس کے ڈر سے ايسا فرار ہوا کہ اس نے پيچھے مڑ کر بھي نہ ديکھا
آدمی نے ابلتے پانی کا لوٹا تھاما اور پنجرے کی چھت پر سے شیر کے سر اور جسم پر انڈیلنا شروع کیا۔
او لڑکے لوٹا لے آ
شیر نے جس قدر بھی غور کیا، اسے کہ آدمی زاد کوئی وحشت ناک چیز نہیں اور بڑا مہربان ہے۔
آدمي زاد نے شير کے ليے گھر! بنايا
آدمی بولا: اچھے بول کوئی دلیل نہیں، ہمارے عمل اچھے ہیں۔ یقین کریں جو کام بھی ہمارے ہاتھ سے سر زد ہوتا ہے، دوسروں کی خدمت کے لیے ہوتا ہے۔
آدمي زاد: ميں جانوروں کي نگہداشت کرتا ہوں
مرد بولا: آپ کی جان عزیز کی قسم یقین کریں ان لوگوں نے آپ کے کان بھرے ہیں۔
کيا يہ بے سر وپا سي مخلوق آدمي زاد ہے؟!
شیر قدرے اور چلا اور ایک کھیت کے قریب جا پہنچا۔ کیا دیکھا ہے کہ ایک شخص لکڑیوں کا گھٹا باندھ رہا ہے اور ایک لڑکا بھی اس کی مدد کر رہا ہے اور شاخوں کو الگ الگ ترتیب دے رہا ہے۔
شير نے گھوڑے سے پوچھا تو کون ہے؟
اب شیر اس سوچ میں گم تھا کہ یہ آدمی زاد بھی عجیب شے ہے کہ ہر کوئی اس سے ڈرتا ہے۔
شير نے گدھے سے پوچھا کيا تو آدمي زاد کے سينگ ہے؟
وہ پھر آگے بڑھا اور اب اس کی نگاہ ایک گدھے پر پڑی کہ صحرا میں ڈھینچوں ڈھینچوں کرتا سر پٹ دوڑتا جا رہا تھا۔
شير نے گائے سے پوچھا کيا تو آدمي زاد ہے؟
شیر پھر آگے بڑھا حتی کہ رستے میں اسے ایک گائے ملے۔
شير نے ہاتھي اور اونٹ سے پوچھا کيا تو آدمي زاد ہے؟
اگلے دن شیر صبح سویرے صحرا کے رستے پر چل پڑا۔ چلتا گیا، چلتا گیا، حتی کہ اس نے دور سے ایک ہاتھی دیکھا۔
شير اور آدمي زاد
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شیر جنگل کے میدان میں بیٹھا اپنے بچوں کو کھیل کود میں مشغول دیکھ رہا تھا
ايک روز رنگيلا گيدڑ، انگور باغ کے کنويں ميں جاگرا اور قصہ اپنے اختتام کو پہنچا
گیدڑ بولے رنگ ریز تو غافل نہ بیٹھا ہوگا کہ گیدڑ وہاں خود کو رنگ کرتا پھرے۔
گيدڑ جمع ہوئے- انھوں نے رنگيلے گيدڑ کو مبارک دي
بھگوڑا گیدڑ ڈر گیا۔ بولا: نہیں میں جانتا ہوں کہ تم جو کہتے ہو سچ کہتے ہو۔ اب تم یہیں رہنا، میں دوسرے گیدڑوں کو اطلاع دیتا ہوں۔
گیدوس
اس وقت اچانک گڑگڑاہٹ ہوئی، بجلی چمکی اور فضا سے نور برسنے لگا اور میرا رنگ اس طرح کا ہوگیا۔
گيدڑ اس بے دمي اور رنگوں کے ساتھ کہ ميں مور کي طرح ہوگيا ہے
ناچار گیدڑ باہر نکلا اور جب اس کے بال خشک ہوگئے، خود سے کہنے لگا
اچانک گيدڑ سوراخ سے پھسل کر اس مٹکے ميں جا گرا جس ميں سرخ رنگ بھرا تھا
اب گیدڑ نے آبادی کا رخ کیا اور ایک گلی میں داخل ہوگیا۔ کتے کے ڈر سے اس نے اپنے آپ کو ایک سوراخ میں چھپا لیا۔
گیدڑ نے بڑي مشکل سے لوٹے کو الٹا سيدھا کرکے اسے ريت سے خالي کيا
پھر اس نے ایک باریک رسی ڈھونڈ نکالی اور لوٹے کے دستے کو بڑی مضبوطی سے اپنی دم سے باندھا۔
گيدڑ نے لوٹے کو اپنے اگلے دانتوں ميں پکڑ اور اسے ايک دريا کے کنارے لے آيا
گیدڑ نے لوٹے کو اپنے اگلے دانتوں میں پکڑ اور اسے ایک دریا کے کنارے لے آیا۔ کنارے پر پہنچ کر اس نے لوٹے کو پانی میں پھنکنا چاہا لیکن دریا کے کنارے پر گہرائی کم تھی اور گہرائی کم تھی
لومڑی نے ہر جگہ کھوج لگايا ليکن شير کا کہيں پتا نہ چلا
لومڑی بھی لوٹ آئی اور بولی: میں نے ہر جگہ کھوج لگایا لیکن شیر کا کہیں پتا نہ چلا۔
ايک گيدڑ پھندے ميں پھنس گيا
جس رات باغ کے مالک نے پھدا لگایا، ڈرپوک گیدڑ دیر سے آیا۔ ایک گیدڑ پھندے میں پھنس گیا اور باقی نے راہ فرار اختیار کی۔
رنگيلا گيدڑ
ایک تھا گیدڑ، بڑا ڈرپوک مگر بڑا بدفطرت۔ اس نے اپنے ہم جنسوں کو باغ کے انگوروں کو پامال کرنے کا ڈھنگ سکھایا۔
1
2
3
4
5
6
7
اصلی صفحہ
ہمارے بارے میں
رابطہ کریں
آپ کی راۓ
سائٹ کا نقشہ
صارفین کی تعداد
کل تعداد
آن لائن