با کمال توتا عثمان کے گهر میں
عثمان نے توتا لے کر شکريہ ادا کيا اور گھر کي طرف چل ديا-
گھر والوں کو اس نے بتايا کہ يہ توتا اس نے اپني جيب خرچ سے خريدا ہے- چوں کہ يہ توتا بولتا بھي تھا، اس ليے سب کو پسند آيا-
شام کو عثمان اپنے اسکول کا کام کر رہا تھا- حساب کا ايک سوال بہت دشوار تھا، ا سکي سمجھ ميں نہ آيا- توتا وہي بيٹھا تھا، اس نے فوراً اس کا حل بتا ديا- عثمان حيران رہ گيا- تب سے عثمان کو توتا اور بھي عزيز ہو گيا- ايک دوست کي طرح وہ توتے سے باتيں کرتا- اس نے اپنے دوست نعمان کو بھي اپنا توتا دکھايا:
"نعمان! يہ توتا ميرا بہت اچھا دوست ہے اور بہت اچھي اچھي باتيں کرتا ہے-"
عثمان کي بات سن کر نعمان بہت حيران ہوا- وہ يہ تو جانتا تھا کہ توتے بولتے بھي خوب ہيں، مگر اتني صاف زبان ميں بول ليتے ہيں، يہ نہيں پتا تھا- نعمان نے بڑھ کر توتے کو اپنے ہاتھ پر بٹھا ليا اور اس سے باتيں کرنے لگا- اچانک عثمان کو شرارت سوجھي اس نے سوچا کہ کيوں نہ اس توتے کا امتحان ليا جائے- چناں چہ اس نے نعمان سے مختلف سوال کرنے شروع کر ديے- عجيب طريقے سے نعمان نے بالکل صحيح جوابات ديے- اب عثمان کو يقين ہو گيا کہ واقعي بزرگ نے توتے کے متعلق صحيح کہا تھا- عثمان نے يہ راز صرف اپنے تک محدود رکھا- وہ نعمان سے کل اسکول ميں ملنے کا کہہ کر توتے کے ساتھ گھر آ گيا-
گھر پہنچا تو اس کے تايا کے بيٹے سفير آئے ہوئے تھے- عثمان کي سفير بھائي سے بہت دوستي تھي- سفير بھائي ايک ايمان دار پوليس آفيسر تھے- پورے محکمے ميں ان کي ايمانداري اور سچائي کي شہرت تھي- ہر شخص ان سے کوئي غلط بات کرتے ہوئے ڈرتا تھا- عثمان کو سفير بھائي اس ليے بھي پسند تھے کہ وہ جرائم کا ہميشہ کے ليے خاتمہ کرنا چاہتے تھے- وہ اکثر چوري، ڈکيتي کي وارداتوں کي تفصيل اسے سناتے رہتے تھے- حسب توقع عثمان انھيں ديکھ کر کھل اٹھا: "آہا، سفير بھائي آئے ہيں، اب کے آپ بہت دنوں بعد آئے-" عثمان نے ان سے بڑي گرم جوشي سے ہاتھ ملايا-
تحرير: نازيہ انور شہزاد
پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
ضحّاک کي کہاني کا انيسواں اور بيسواں حصّہ