• صارفین کی تعداد :
  • 8600
  • 1/14/2014
  • تاريخ :

ماں کے بغير زندگي

ماں کے بغیر زندگی

چيني لوک کھاني(جصہ اول)

اندھيري رات ہے، بس کا سفر ہے- ميں نو دس سال کا لڑکا، ڈرائيور کے ساتھ کي نشست پر اپنے نانا کے پہلو ميں بيٹھا ہوں- ايک آہني جنگلے کے پيچھے تختے پر سفيد چادر سے ڈھکا ہوا کوئي وجود ہے، ميں آنکھيں مَل مَل کر ديکھتا ہوں- يہ ميري ماں کي ميّت ہے- سامنے ميرے والد کے ساتھ چھوٹے بھائي بہن اِن سے لپٹے ہُوئے سوتے ہيں اور نيند ميں سسکياں لے کر جاگ جاتے ہيں- دوسرے دن ميں اپنے ماموں کي انگلي پکڑے جنازہ گاہ سے واپس آرہا تھا- ميرے دو چھوٹے بھائي ساتھ نہيں تھے- ان کو دوسرے عزيزوں نے سنبھال ليا تھا- مجھے پہلي بار معلوم ہوا کہ ماں کے نہ ہونے سے بہن ، بھائي ايک دوسرے سے بچھڑ جاتے ہيں اور يہي ہُوا- ميں اور مجھ سے سَوا سال چھوٹا بھائي، دونوں چند ماہ بعد اپنے والد کے پاس ددھيال آ گئے، ليکن ميرے دو چھوٹے بھائي اور ايک بہن وہيں رہ گئے- خالائيں تھيں- انھوں نے بچوں کو سنبھال ليا، کئي سال بعد مجھے اپني چھوٹي بہن کو اپنے پاس ددھيال ميں ديکھنے کا موقع ملا- دونوں چھوٹے بھائي چيچک سے ہلاک ہوگئے تھے- ميں ننھيال ميں اپنے نانا، ناني، خالاۆں اور ماموۆں کے ساتھ جب تک رہا، مجھے رہ رہ کر کمال شفقت سے يہ احساس دلايا جاتا رہا کہ ہم ’بن ماں کے بچے‘ ہيں اور اس ليے خاص توجہ کے مستحق ہيں- ميں تکليف دہ قسم کي شرارتيں کرتا بھي تو لوگ نظر انداز کر ديتے- اپنے سے بڑے ماموں کے ساتھ بد تميزي کرتا تو خفا ہونے کے بہ جائے سينے سے لگا ليتے- ميں سوچتا يہ کيسي زندگي ہے، ہر بات انہوني ہے- اب سوچتا ہوں تو اس سانحے نے مجھ سے بہت سي فطري خواہشيں چھين ليں- مجھے اچھے کھانوں کي خواہش کبھي نہيں ہوئي، خراب کھانا منہ بنائے بغير اطمينان سے کھا ليتا ہوں- جيل ميں ميرے دوست جس دال کو گھر سے آئے ہوئے ديسي گھي کا تڑکا لگائے بغير کھا ہي نہيں سکتے تھے، ميں اسے کسي تڑکے کے بغير صبر سے کھا ليا کرتا تھا- ماں نے ميرے منہ ميں آخري نوالہ دے کر مجھے زندگي بھر کے ليے ايسے کھانوں کي لذّت سے محروم کر ديا- ميري طبيعت ميں عجيب طرح کي قناعت آگئي تھي- بہ ظاہر دوسرے ہم جوليوں کي طرح لباس پہنتا رہا، ليکن لباس کے سفيد برّاق اور بے شکن ہونے پر کبھي اصرار نہيں کيا- بچپن ميں ہي ميں نے اپنے کام خود کرنے کي عادت اختيار کر لي تھي- بھلا ميرے ناز اُٹھاتا کون اور ميرے چونچلے کون کرتا- پھر يہ بھي ہُوا کہ جب کچھ عرصے اسکول کے ہاسٹل ميں رہنا پڑا تو يہ عادت اور بھي پختہ ہوگئي- شادي کے بعد ابتدائي دنوں ميں جب ميري بيوي نے ميرے جوتے پالش کرنے کي کوشش کي (يہي کام ان کو سب سے آسان لگا) تو ميں نے انہيں ايسا کرنے سے روک ديا- اپنے کپڑے جب دھوبي کے پاس نہ ہوں تو ميں خود دھو ليتا ہوں- يہ کام بيوي يا بيٹي سے لينا ، ميں ان کے ليے توہين آميز سمجھتا ہوں-

 

حسن عابدي کي سرگزشت ’’جنُون ميں جتني بھي گزري---‘‘ سے اقتباس


متعلقہ تحریریں:

قحط ميں قيمتي چيز

مخلص دوست