ايک چيل کي کہاني ( حصّہ دوّم )
بھائيو! اور بہنو! ميں طلم کے خلاف ہوں انصاف اور بھائي چارے کي حامي ہوں ميں چاہتي ہوں کہ انصاف کي حکومت قائم ہو دشمن کا منہ پھير ديا جائے اور تم سب ہر خوف سے آزاد اطمينان اور سکون کي زندگي بسر کرسکو ۔ميں چاہتي ہوں کہ تمہارے ميرے درميان ايک سمجھوتا ہو ۔ہم سب عہد کريں کہ ہم مل کر امن کے ساتھ رہيں گے۔ مل کر دشمن کا مقابلہ کريں گے اور آزادي کي زندگي بسر کريں گے، ليکن يہ اسي وقت ہوسکتا ہے جب کہ تم دل و جان سے مجھے اپنا بادشاہ مان لو جب تم مجھے اپنا بادشاہ مان لو گے اور مجھے ہي حقوق اور پور ااختيار دے دو گے تو پھر تمہاري حفاظت اور تمہاري آزادي پوري طرح ميري ذے داري ہو گي تم ابھي سمجھ نہيں سکتے کہ پھر تم کتنے آزاد اور کتنے خوش و خرم رہو گے۔ اسي کے ساتھ آزادي چين اور سکون کي نئي زندگي شروع ہو گي۔
چيل روز وہاں آتي اور بار بار بڑے پيار محبت سے ان باتوں کوطرح طرح سے دہراني رفتہ رفتہ کبوتر اس کي اچھي اور ميٹھي ميٹھي باتوں پر يقين کرنے لگے۔
ايک دن کبوتروں نے آپس ميں بہت دير مشورہ کيا اور طے کر کے اسے اپنا بادشاہ مان ليا۔
اس کے دو دن بعد تخت نشيني کي بڑي شان دار تقريب ہوئي چيل نے بڑي شان سے حلف اٹھايا اور سب کبوتروں کي آزادي، حفاظت اور ہر ايک سے انصاف کرنے کي قسم کھائي جواب ميں کبوتروں نے پوري طرح حکم ماننے اور بادشاہ چيل سے پوري طرح وفادار رہنے کي دل سے قسم کھائي۔ ( جاري ہے )