شير نے گدھے سے پوچھا کيا تو آدمي زاد کے سينگ ہے؟
شير اور آدمي زاد
شير نے ہاتھي اور اونٹ سے پوچھا کيا تو آدمي زاد ہے؟
شير نے گائے سے پوچھا کيا تو آدمي زاد ہے؟
وہ پھر آگے بڑھا اور اب اس کي نگاہ ايک گدھے پر پڑي کہ صحرا ميں ڈھينچوں ڈھينچوں کرتا سر پٹ دوڑتا جا رہا تھا- شير نے دل ميں کہا کہ يہ حيوان جو بھدي اونچي آوازيں نکال کر يوں دوڑتا خوشياں مناتا جا رہا ہے يقينا وہي چيز ہے جس کو پالينے کے ليے ميں سرگردان ہوں- اس نے گدھے کو آواز دي اور کہا:" ارے يہ تو ہي ہے جس نے آدمي کا روپ دھار ليا ہے؟"
گدھا بولا- "واللہ! ميں وہ نہيں جس نے آدمي کي صورت دھار لي ہے، ميں تو آدمي زاد کے ہاتھوں ستم رسيدہ ہوں اور اب اسي کے چنگل سي بھاگ نکلا ہوں- آدمي زاد بڑے وحشي ہيں اور جوںہي کوئي حيوان ان کے ہاتھ لگتا ہے، پھر کبھي چين نہيں پاتا- يہ ہميں پکڑ بليتے ہيں ہماري پيٹھ پر بوجھ لدتے ہيں اور پھر خود بھي سوار ہوجاتے ہيں- ادھر کچھ عرصے سے ہمارا نيا نام رکھا ہے "دراز گوش" ہمارا ٹھٹھا کرتے ہيں اور کہتي ہيں: " جب تک گدھا ہے، پيدل سفر نہيں کرنا چاہيئے- آدمي زاد اس قدر بے رحم اور مردم آزار ہيں کہ خود ايک شاعر نے ان کي بارے ميں کہا ہے:
گاوان و خران بار بردار
بہ ز آدميان مردم آزاز
مطلب يہ ہے کہ بوجھ اٹھانے والے گدھے اور گائيں ان انسانوں سے بہتر ہيں جو دوسروں کو تکليف اور اذيت پہنچاتے ہيں-
شير بولا:" اچھا، خير تو يہ خود مجھے معلوم تھا کہ تو گدھا ہے البتہ ميں يہ ديکھنے جا رہا تھا کہ آخر ان آدمي زادوں کا صحيح صحيح تعارف ہے کيا؟"
گدھا بولا: " ليکن ميں قربان جاۆ ں- تم ذرا احتياط ---- "
شير بولا-" بہت خوب- زيادہ باتيں نہ بنا اور اپنے کام سے لگ- مجھے معلوم ہے مجھے کيا کرنا ہے-"
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان