ايک چيل کي کہاني ( حصّہ سوّم )
بچو! پھر يہ ہوا کہ کچھ دنوں تک چيل کبوتر خانے کي طرف اسي طرح آتي رہي اور ان کي خوب ديکھ بھال کرتي رہي ۔ايک دن بادشاہ چيل نے ايک بلے کو وہاں ديکھا تو اس پر اپنے ساتھيوں کے ساتھ ايسا زبردست حملہ کيا کہ بلا ڈر کر بھاگ گيا چيل اکثر اپني ميٹھي ميٹھي باتوں سے کبوتروں کو لبھاتي اور انہيں حفاظت اور آزادي کا احساس دلاتي۔
اسي طرح کچھ وقت اور گزر گيا۔ کبوتر اب بغير ڈرے اس کے پاس چلے جاتے وہ سب آزادي اور حفاظت کے خيال سے بہت خوش اور مطمئن تھے
۔ايک صبح کے وقت جب کبوتر دانہ چگ رہے تھے تو چيل ان کے پاس آئي وہ کمزور دکھائي دے رہي تھي معلوم ہوتا تھا جيسے وہ بيمار ہے کچھ دير وہ چپ چاپ بيٹھي رہي اور پھر شاہانہ آواز ميں بولي: ”بھائيو! اور بہنو! ميں تمہاري حکمران ہوں تم نے سوچ سمجھ کر مجھے اپنا بادشاہ بنايا ہے ميں تمہاري حفاظت کرتي ہوں اور تم چين اور امن سے رہتے ہو۔ تم جانتے ہو کہ ميري بھي کچھ ضرورتيں ہيں يہ ميرا شاہي اختيار ہے کہ جب ميرا جي چاہے ميں اپني مرضي سے تم ميں سے ايک کو پکڑوں اور اپنے پيٹ کي آگ بجھاوں۔ ميں آخر کب تک بغير کھائے پيے زندہ رہ سکتي ہوں؟ ميں کب تک تمہاري خدمت اور تمہاري حفاظت کر سکتي ہوں؟ يہ صرف ميرا ہي حق نہيں ہے کہ ميں تم ميں سے جس کو چاہوں پکڑوں اور کھا جاوں، بلکہ يہ ميرے ساے شاہي خاندان کا حق ہے آخر وہ بھي تو ميرے ساتھ مل کر تمہاري آزادي کي حفاظت کرتے ہيں۔ اس دن اگر اس بڑے سے بلے پر ميں اور ميرے خاندان والے مل کر حملہ نہ کرتے تو وہ بلا نہ معلوم تم ميں سے کتنوں کو کھا جاتا اور کتنوں کو زخمي کر ديتا
۔يہ کہہ کر بادشاہ چيل قريب آئي اور ايک موٹے سے کبوتر کو پنجوں ميں دبوچ کر لے گئي سارے کبوتر منھ ديکھتے رہ گئے
۔ اب بادشاہ چيل اور اس کے خاندان والے روز آتے اور اپني پسند کے کبوتر کو پنجوں ميں دوچ کر لے جاتے۔
اس تباہي سے کبوتر اب ہر وقت پريشان اور خوف زدہ رہنے لگے ان کا چين اور سکون مٹ گيا تھا ان کي آزادي ختم ہو گئي وہ اب خود کو پہلے سے بھي زيادہ غير محفوظ سمجھنے لگے اور کہنے لگے: ”ہماري بے وقوفي کي يہي سزا ہے آخر ہم نے چل کو اپنا بادشاہ کيوں بنايا تھا؟ اب کيا ہو سکتا ہے؟
ڈاکٹر جميل جالبي