صفحه اصلی تبیان
شبکه اجتماعی
مشاوره
آموزش
فیلم
صوت
تصاویر
حوزه
کتابخانه
دانلود
وبلاگ
فروشگاه اینترنتی
سوموار 25 نومبر 2024
فارسي
العربیة
اردو
Türkçe
Русский
English
Français
تعارفی نام :
پاسورڈ :
تلاش کریں :
:::
اسلام
قرآن کریم
صحیفه سجادیه
نهج البلاغه
مفاتیح الجنان
انقلاب ایران
مسلمان خاندان
رساله علماء
سروسز
صحت و تندرستی
مناسبتیں
آڈیو ویڈیو
اصلی صفحہ
>
مسلمان خاندان
>
بچوں کی دنیا
>
کہانیاں
1
2
3
4
بھوت کے تعاقب میں (دوسرا حصّہ)
کوئی گویا اسی موقع کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ ہم تینوں کے سر پر ایک ایک ڈنڈا اور بھرپور طاقت سے رسید کیا گیا۔ ہمارے تو تن بدن میں آگ لگ گئی ، جبکہ پرنسپل صاحب بے چارے اس مرتبہ ضبط کا مظاہرہ نہ کرسکے اور ان کی چیخ نکل گئی۔
بھوت کے تعاقب میں
کالج میں داخل ہوتے ہی گڑ بڑ دیکھ کر ہم نے اندازہ لگالیا کہ وہاں شجاعت مرزا موجود ہیں۔ وہ جہاں جاتے کوئی نہ کوئی گل کھلا کر رہتے۔ کالج جیسی خشک اور بنجر زمین بھی ان سے محفوظ نہ تھی۔
تعلیم و تدریس میں کہانیوں کی اہمیت ( حصّہ دوّم )
کہانیاں دلچسپ ہوتی ہیں اس لیے بچے شوق سے سنتے اور پڑھتے ہیں ۔
تعلیم و تدریس میں کہانیوں کی اہمیت
ایک دفعہ کا ذکر ہے“……”ایک ۔۔۔ ہوا کرتا تھا“۔ یہ ایسے جملے ہیں جن کو سنتے ہی ہمارے ذہنوں میں فوراً بچپن میں سُنی ہوئی کہانیوں کی آواز گونجنے لگتی ہے
ضحّاک کی کہانی سولھواں، سترھواں اور اٹھارھواں نظارہ
ضحاک ۔ سب کام ٹھیک ہوگیا۔۔۔۔۔۔؟
ضہحّاک کي کہاني گيارهواں، بارهواں، تیرهواں، چودهواں اور پندوراں نظاره
پرویز۔ (اندرداخل ہوتے ہی خوب چہر کودیکھ کر، ٹھٹھک کراپنے آپ) آہ!۔۔۔۔۔۔ وہ یہاں ہے!۔۔۔۔۔۔ تنہا!۔۔۔۔۔۔(پلٹ کرجاناچاہتاہے ) مگر نہیں! ۔۔۔۔۔۔ٹھیرناچاہیئے! کچھ دیر یہیں ٹھیرناچاہیئے!( خوب چہر کی طرف دیکھتے ہوئے)
ضحّاک کی کہانی دسوان نظاره
خوب چہر۔ ہائے اللہ ! مجھے یہ کیا ہوگیا؟۔۔۔۔۔۔کچھ دنوں سے میرے دل میں ایک عجیب سا جذبہ پیدا ہوگیا ہے! اِس طر ح کہ ذرا کسی نے کوئی وحشتناک بات کہی
ضحّاک کي کہاني نوان نظاره
خوب چہر۔ پرویز کوجاتا دیکھ کر آہ! امّی جان! میں ایک بادشاہ کی لڑکی ہو کر، ایک فقیر کی!! ایک بھکاری کی لڑکی پر رشک کرتی ہوں!
ضحّاک کی کہانی ساتواں اور آٹھواں نظارہ
پرویز ۔ ( فرہاد سے ) حضور سو اُٹھے ہیں! آپ کو یاد فرماتے ہیں!
ضحّاک کی کہانی پانچواں اور چھٹا نظارہ
پرویز۔ (فرہاد کے پاس جا کرآہستہ ) ابّا ! ابّا! دیکھئے تو وہ ۔۔۔۔۔۔اِس عورت کو کیا تکلیف ہے؟ یہ ہمیشہ اِسی طرح غمگین رہتی ہے
ضحّاک کی کہانی چوتھا نظارہ
مہرو۔ (کچھ دیرخاموشی سے پرویز کے چہرہ کی طرف دیکھنے کے بعدایک طرف آ کر اپنے آپ ) آہ! اگر آج میرا لڑکا! زندہ ہوتا تووہ بھی ایساہی ہوتا!
ضحّاک کي کہاني تیسرا نظاره
پرویز۔ (اِدھراُدھر ٹہلتے ہوئے اپنے آپ ) آہا! کیسا نصیب! کیسی نعمت! کیسی زندگی!!۔۔۔۔۔۔اگر میں اپنی ساری عمر کے دنوں کا، آج کے دن سے موازنہ کروں تو کس قدر فرق نکلے گا؟
ضحّاک کی کہانی دُوسرا نظارہ
فرہاد ۔( پرویز کو دیکھ کراپنے آپ ) وہی ہے! وہی ہے ! کس شان سے آ رہا ہے! جیسے شیر! اللہ تعالیٰ ہر بلا سے محفوظ رکھّے! (پرویز سے ) بیٹا دیکھنا باری نہ ٹل جائے
ضحّاک کی کہانی
ضحاک - ایران کا ایک ظالم بادشاہ !جس نے شہنشاہ جمشید کی حکومت کا تخت اُلٹ کر ،ایران پر قبضہ جمالیا۔
امانتداری کی رسم
جیسے ہی مجید گھر واپس آیا تو ماں نے دسترخوان پر شام کا کھانا لگایا ۔ مجید نے جو کتاب اپنے دوست سے امانت کے طور پر لی تھی اسے دسترخوان کے قریب رکھا اور کھانا کھانے میں مشغول ہو گیا ۔
جادو کی بوتل
نجمی میرا بہت قریبی دوست تھا۔ پڑھائی اور کھیل میں ہمیشہ میرے ساتھ رہتا۔ یہاں تک کہ ہماری شرارتیں بھی آپس میں مشوروں سے انجام پاتیں۔
دادا جان ، تسبیح اور چمگادڑ (دوسرا حصّہ)
خاموش “ دادا جان کی آواز نے ان دونوں کو تو خاموش کروا دیا مگر خالد کا زمین پر لیٹے لیٹے اپنے منہ سے ہاتھ پھیرنے اور اجو میاں کا صوفے پر چھلانگیں مارنا بند نہ کروا سکی۔
دادا جان ، تسبیح اور چمگادڑ
ناسمجھ، نامعقول اور نہایت ہی فضول انسان کہتے ہیں اس گھر میں“ دادا جان بڑے کمرے میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک اپنی لاٹھی ٹیکتے چکر لگا رہے تھے۔ جب ہمارے چھوٹے بھائی جان نے انٹری دی اور آتے ہی اعلان کیا ، بم پھوڑا۔
ہائے ر ے تکیہ کلام (حصّہ دوّم)
اگلے روز صبح صبح دادا حضور نے ہمیں جگایااور حکم نازل کیا کہ میں نے تمہارے لیے اخبار منگوایا ہے۔ شہر میں اخبار کے عادی ہو گے ناں اس لیے ۔ جلدی سے اٹھو، اخبار خود بھی پڑھو اور مجھے بھی پڑھ کر سنا ؤ۔
ہائے ر ے تکیہ کلام
گرمیوں کی چھٹیاں ہونے کو تھیں۔ ہم نے سوچا کہ اس بار چھٹیوں میں کچھ نیا کیا جائے۔ سوچنے بیٹھے تو سوچتے چلے گئے۔
ایک چیونٹے کی کہانی
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی صحرا میں لمبی ٹانگوں والا ایک بڑا سا چیونٹا رہتا تھا ۔ اس کی لمبی ٹانگوں کی وجہ سے دوسری چیونٹیاں اسے گھوڑا نما چیونٹا کہا کرتی تھیں ۔
سہیلی کی مدد
فاطمہ اور سلمی کی آپس میں گہری دوستی تھی ۔ ہمیشہ اکٹھے کھیلا کرتی تھیں ۔ کھیل سے پہلے دونوں سہیلوں میں کوئی ایک دوسرے کے گھر آتی اور گھر میں موجود کسی بڑے سے اکٹھے کھیلنے کی اجازت مانگتی ۔
محنت کا پھل
سعد باہر لان میں ساتھ والی بوڑھی خالہ سے مشین پکڑ کر زبردستی انکی گھاس کاٹنے لگا کیونکہ بانو خالہ بہت بوڑھی تھیں۔
ہم روشنی ہیں
جنگل بہت گھنا اور پراسرار تھا۔۔ شام ہونے کو تھی اور ایزو کو ابھی تک راستہ نہیں ملا تھا۔۔ اس کو گھر جانا تھا۔۔ جہاں ممی اس کے کھانے کے لیے پیزا بنا کر رکھا ہوگا۔
آج کا کام ابھی
آج میں آپ کو شیری کی کہانی سناؤں گی۔ شیری اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ پڑھائی میں تیز تھا اور کھیل کود کا بھی شوقین تھا۔
دو کبوتر (حصّہ ششم)
نامہ بر بولا: میرےنزدیک شیطان تیرے دل میں وسوسے ڈال رہا ہے تا کہ تو دانے کی خواہش میں وہاں جائے اور جال میں قید ہوجائے.
دو کبوتر (حصّہ پنجم)
نامہ بر بولا بالفرض جو کچه تو کہتا ہے، ایسا ہی ہے، لیکن کیا تیری نگاه ان باریک رسّیوں پر نہیں پڑ رہی جو سبزے کہ اوپر ہوا سے بل کها رہی ہیں۔یقینا یہ جال کی رسّیاں ہیں۔
دو کبوتر (حصّہ چهارم)
ہرزه بولا: شاید الله نے یہاں اپنی قدرت کا جلوه دکهایا ہوا اور صحرا کے بیچ سبزے کا رنگ جمایا ہو۔
دو کبوتر (حصّہ سوّم)
نامہ بر بولا: ہمیں دیر ہوجائے گی لیکن خیر اگر بہت ہی تهک گیا ہے تو کوئی ہرج نہیں۔
دو کبوتر (حصّہ دوّم)
جو لوگ مصیبت اور بدبختی کا شکار ہوتے ہیں، اپنی خودسری ہی کے باعث ہوتے ہیں۔
دو کبوتر (حصّہ اول)
ایک دفعہ کا ذکر ہے . دو کبوتر ایک دوسرے کے ہمسایے میں رہتے تهے .
بہت مہنگی قیمت میں حلوا
ایک تھکا ہارا شخص مسجد میں پہنچا ۔ مسجد میں پہنچنے کے بعد اس نے وضو کیا اور دو رکعت نماز پڑھی ۔
رازداری
ایک دن ایک شخص ابوسعید کے پاس آیا اور کہنے لگا ؛( اے شيخ ! میں آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ مجھے کچھ اسرارحق بتائيں )
تیسری نصیحت
ایک داستان کچھ اس طرح کی ہے کہ ایک شخص نےاپنے بچوں کے لئے دمشق کے بازارمیں ایک درھم کی ایک خوبصورت رنگین چڑیا خریدی ۔
مالک اشتر
جناب مالک اشتر جو سپاہ اسلام کے کمانڈر اورحضرت علی علیہ السلام کی فوج کے سپہ سالارتھے ایک دن بازار کوفہ سے گذر رہے تھے وہ بہت ہی معمولی ساسوتی لباس پہنے ہوئے تھے اور ان کے سرپرعمامہ بھی سوتی کپڑے کا ہی تھا ۔
زہرخوشتر
مکہ کے راستے میں ایک حاجی قافلے سے چھوٹ گیا اوربیابان میں تنہا رہ گیا ۔ وہ اس بیابان میں چلتا رہا یہاں تک کہ ایک جگہ پہنچنے کے بعد اسے ایک گھر نظرآیا وہ اس گھر کی طرف بڑھا ۔
قوم عاد
قوم عاد بہت ہی مالدار قوم تھی اسی دولت اوراس کی طولانی عمر اورقوی جسمانیت نے ہی اسے اس بات سے بھی بے خبرکر رکھا تھا کہ اس قوم کے افراد کس پرکتنا ظلم کر رہے ہيں اورکس قدر سرکشی کر رہے ہيں ۔
لوہار اور عورت
ایک نیک و پرہیزگار شخص مصرپہنچا ۔ وہاں اس نے ایک لوہار کودیکھا وہ اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر سرخ اور دہکتا ہوا لوہا آگ کی بھٹی سے باہر نکال رہا ہے مگرآگ کی حرارت وگرمی کا اس پرکوئي اثرنہيں تھا
آٹے کا تھیلہ
شہباز! باورچی خانے سے امی کی آواز آئی۔ میں گھر کے پچھواڑے میں گیند سے کھیل رہا تھا، ان کی آواز سن کررک گیا۔ میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ امی نے کس لیے بلایا ہے۔
ایمانداری کا انعام (حصّہ دوّم)
بوڑھے نے آہ بھرکرکہا:”میراایک بھائی تھا۔بڑاپیارا ماں باپ جایا بھائی،لیکن برسوں سے وہ ایسا گم ہوا کہ معلوم نہیں جیتا ہے یا مرگیا ہے۔
ایمانداری کا انعام
پہلی صدی ہجری میں یحییٰ بن ہبیرہ ایک مشہور وزیرگزرا ہے۔ اس کو یہ عہد بنوامیہ کی حکومت کے زمانے میں ملا تھا۔
تعلیم کی اہمیت
رامو ایک دیہاتی شخص تھا۔ شہر کے ایک رئیس کے پاس گھریلو ملازم تھا وہ پڑھا لکھا بالکل بھی نہیں تھا۔ اپنے گاﺅں اور اپنی بیوی بچے سے دور شہر میں رہتے ہوئے اسے عرصہ بیت گیا تھا۔
ایک ہاتھی- ایک چیونٹی
پیارے بچو! ایک جنگل میں ہاتھیوں کا ایک جھنڈ رہتا تھا ۔ ان ہاتھیوں میں ایک ہاتھی تھا جس کا نام راجا تھا ۔ راجا بہت بڑا بدمست اور مغرور ہاتھی تھا ۔
لالچی چیونٹی
ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک چیونٹی جو کے دانے جمع کرنے کے لیے ایک رستے سے گذر رہی تهی کہ اچانک اس کی نظر شہد کے ایک چهتے پر پڑی-
لالچی چیونٹی (حصّہ سوّم)
پر دار نے اپنی راه لی اور چیونٹی نے دوباره آواز لگائی : کوئی ہے جواں مرد کہ مجهے شہد کے چهتے تک پہنچادے اور معاوضے میں ایک جَو مجه سے وصول کر لے؟
جادو کا موتی (حصّہ دوّم)
ڈائزنگ نے جیلر کو بلایا اور اُسے یہ بات بتائی۔ جیلر کو اُس کی بات کا یقین نہ آیا۔ اُس نے کہا تم کوئی جادو گر ہو کہ تمھیں یہاں بیٹھے بیٹھے چوری کی خبر مل گئی؟
جادو کا موتی
ویت نام کے کسی گاؤں میں ایک شکاری رہتا تھا۔ اس کا نام ڈائزنگ تھا اور وہ اکیلا ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں رہتا تھا۔
نیک دل پری
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ دریا کے کنارے ایک ملاح کا خوبصورت سا مکان تھا۔ اُس کے پاس ایک نہایت ذہین طوطا تھا
مجھے ہاتھی خریدنا ہے (حصّہ دوّم)
آخر منّا مایوسی کے عالم میں ڈیڈی کے پاس آیا اور داستان سنائی ۔ ڈیڈی نے منے سے کہا ! چلو بیٹا کوئی بات نہیں ہم کسی دوسری جگہ سے پتہ کرتے ہیں ۔
مجھے ہاتھی خریدنا ہے
منّا آج اپنے ڈیڈی کا بڑی بے تابی سے انتظار کر رہا تھا ۔ منے کے ابا ایک سکول ٹیچر تھے اور رات تک ہوم ٹیوشن پڑھاتے تھے ۔
1
2
3
4
اصلی صفحہ
ہمارے بارے میں
رابطہ کریں
آپ کی راۓ
سائٹ کا نقشہ
صارفین کی تعداد
کل تعداد
آن لائن