• صارفین کی تعداد :
  • 3416
  • 11/18/2011
  • تاريخ :

بھوت کے تعاقب ميں

کہانیاں

کالج ميں داخل ہوتے ہي گڑ بڑ ديکھ کر ہم نے اندازہ لگاليا کہ وہاں شجاعت مرزا موجود ہيں- وہ جہاں جاتے کوئي نہ کوئي گل کھلا کر رہتے- کالج جيسي خشک اور بنجر زمين بھي ان سے محفوظ نہ تھي- تبھي ہم کہتے دشت تو دشت ہيں، صحرا بھي نہ چھوڑے تم نے!

ہمارا خيال تھا کہ کالج ميں ”‌سال“ بھر ”‌خشک سالي“ رہتي جبکہ مرزا کہتے کہ يہ لڑکوں کا کالج ہے يہاں خشک ”‌سالے“ رہتے ہيں-

اسکول کے مقابلے ميں کالج اتني بور جگہ تھي کہ وہاں مکھياں اور مچھر تک نہ آتے تھے- اگر کوئي بھولي بھٹکي مکھي يا مچھر وہاں آبھي گيا ہوگا تو اساتذہ کي خشک اور طويل بحث سن کر جانبر نہ رہ سکا ہو گا-

وہاں سبزہ تھا نہ ہريالي، باغ تھا نہ کياري- ريت اور مٹي کا ايک سمندر تھا جس سے دھول کي لہريں اٹھتي رہتي تھيں- بيچوں بيچ ايک کچرا کنڈي تھي جو شجاعت کے مطابق کبھي فوارہ رہي ہوگي-

گڑ بڑ کي وجہ معلوم کرنے ہم مجمع کي طرف بڑھے ہي تھے کہ ہميں کچھ فاصلے پر شجاعت مرزا برے برے منہ بناتے دکھائي ديئے-

”‌ کيا ہو گيا بھئي؟“ ہم نے سرسري انداز ميں پوچھنے کي کوشش کي کيونکہ زور دے کر تو مرزا سے کچھ اگلوانا ناممکن تھا-

”‌ يہ سب لوگ سِک روم کے باہر جمع ہو کر احتجاج کر رہے ہيں-“ ہم نے ديکھا کہ مجمع واقعي سِک روم کے باہر ہي کھڑا تھا-

”‌کيوں؟“ ہم نے پوچھا-

”‌ ان کا کہنا ہے کہ جب سِک روم کے باہر ”‌بيمار کمرہ“ لکھا ہے تو باقي سب کمروں کے باہر ”‌صحت مند کمرہ“ لکھا ہونا چاہيے ورنہ وہ ان ميں نہيں پڑھيں گے-“

ہمارا منہ بن گيا- ہميں خاموش ديکھ کر مرزا خود ہي بولے”‌ ايک چپڑاسي کو آج صبح کسي بھوت نے ڈس ليا ہے- وہ اندر بے ہوش پڑا ہے-“

”‌ ہائيں! تم تو ڈنک مارتے تھے، يہ ڈسنا کب سے شروع کر ديا-“ہم جل کر بولے اور تفصيلات کيلئے سِک روم کي طرف بڑھ گئے-

معلوم ہوا کہ آخري منزل پر بنے کونے والے کمرے ميں يہ واقعہ پيش آيا- يہ کمرہ نہيں بارہ ڈي تھا، جسے اسٹور کے طور پر استعمال کيا جاتا تھا- چپڑاسي صاحب جب وہاں سے فاضل کرسي لينے گئے تو ان کے سر پر نامعلوم اطراف سے اوپر تلے سات ڈنڈے پڑے جس سے ان کے چودہ طبق روشن ہو گئے- باہر نکل کر انہوں نے يہ واقعہ جلدي جلدي کچھ لوگوں کو سنايا اور زخموں کي تاب نہ لا کر بے ہوش ہوگئے-

ابتدائي طبي امداد شايد اسي وقت دے دي گئي تھي، اب اختتامي طبي امداد دي جا رہي تھي- سيدھا سيدھا وہم اور خوف کا کيس تھا، جس کو ہوا بنا ليا گيا تھا-

مجمع ميں گھل مل کر ہم اندر پہنچے تاکہ چپڑاسي کي شکل ديکھ ليں اور بعد ميں اسے سمجھا بجھا سکيں کہ يہ بھوت پريت محض خيالي کرائے دار ہوتے ہيں- جس شخص کي اوپري منزل خالي ديکھتے ہيں، ڈيرہ ڈال ديتے ہيں-

ليکن چپڑاسي کو ديکھنے کے بعد ہميں اس کي باتيں سچ لگنے لگيں- اس کے سر پر واقعي دو تين گومڑے موجود تھے- کمپانڈر طلبہ پر اپني قابليت کا رعب جھاڑنے کي کوشش کر رہا تھا ”‌ جب چھوٹے مچھر انسان کو کاٹتے ہيں تو چھوٹے دانے نکلتے ہيں، جب بڑے سے بھوت نے کاٹا ہے تو يہ بڑے بڑے دانے نکل آئے ہيں-“

لڑکوں کے چہروں پر بے يقيني ديکھ کر اس نے فوراً اپنا موضوع تبديل کيا اور بولا-

”‌بارہ ڈي کے کيسز پہلے بھي ميرے پاس آتے رہے ہيں، ليکن وہ اتنے سنجيدہ نہ تھے-“”‌ کيا وہ بہت پرمزاح ہوتے تھے؟“ ايک لڑکے نے صدا لگائي-

”‌وہاں خطرناک قسم کے جن بھوت رہتے ہيں اور بارہ ڈي ان کي پارليمنٹ ہے- يہ جو کرسي اٹھا رہا تھا وہ يقينا چيئرمين کي ہوگي-“ ايسي کرسي کيلئے تو قتل تک ہوجاتے ہيں ، يہ تو پھر زخمي ہي ہوا ہے-“

ہم باہر نکلے اور لگے مرزا کو تلاش کرنے، وہ ہمارے ليے بيساکھي کي مانند تھے ، جس کے بغير ہم خود کو اپاہج خيال کرتے تھے- ليکن يہي بيساکھي مل جانے کے بعد ہم ہزار ميٹر کي ريس ميں بھي اچھے اچھوں کو ہرا سکتے تھے-

مرزا کا کوئي سر پير نہ ملا اور ہم اکيلے ہي بارہ ڈي کا جائزہ لينے چل پڑے-وہاں پہنچے تو شجاعت مرزا کو دروازے کے باہر گہري سوچوں ميں غرق پايا-

”‌اسم بالمسمٰي ہونے کي وجہ سے تم سے يہ تو پوچھنا ہي فضول ہے کہ تم اندر کيوں نہيں گئے-“ ہم نے فقرہ کسا-

شجاعت کي خاص الخاص بات يہ تھي کہ اگر اسے اٹھا کر گھڑ ميں بھي پھينک دو، تب بھي ناراض نہ ہوتا تھا، جبکہ ہم کسي کي ”‌ہونہہ“ پر ہي منہ بسور ليتے تھے-

”‌يار.... دراصل ميں وہ بھول آيا ہوں-“ انہوں نے اپني کھوپڑي کي طرف اشارہ کيا-

”‌ کيا چيز.... عقل؟؟؟“ ہم حيرت سے بولے-

”‌ نہےں بھئي.... ہيلمٹ .... اس کے بغير اندر گئے تو سر کو چار چاند لگ جائيں گے-“

”‌ڈرپوک ! ميں تو جا رہا ہوں اندر-“ ہم يہ کہہ کر دروازے کي طرف بڑھے ليکن يہ ديکھ کر ہمارا منہ بن گيا کہ وہاں ايک موٹا تازہ تالا پڑا خونخوار نظروں سے ہميں گھور رہا تھا-

*....*

انچارج نے تالا کھولنے سے صاف انکار کر ديا تو ہم نے اجازت طلب کرنے کيلئے پرنسپل صاحب کے دفترکا رخ کيا-

”‌تمہارا نام شجاعت ہے نا؟“ انہوں نے مرزا سے پوچھا- ہم شجاعت سے کسي تگڑے سے جواب کي توقع کر رہے تھے- مگر انہوں نے نظريں جھکا ليں اور خوب شرماتے ہوئے بولے- ”‌جج.... جي!“

ہم نے سرگوشي کي- اتنا بھي مت شرما، يہ تمہارے سسر تھوڑا ہي ہيں-“

”‌ تمہارے اسکول کے کچھ کارنامے ميں سن چکا ہوں-“ پرنسپل صاحب پھر بولے-

”‌باقي سارے ميں سناں؟“ ہم ہاتھ کھڑا کرکے بے ساختہ بولے-”‌ مگر پھر پرنسپل صاحب کو گھورتا ديکھ کر جھينپ گئے اور ہاتھ نيچے کر ليا-

”‌اب سنانے کا نہيں، بلکہ کارنامہ دکھانے کا وقت ہے- بارہ ڈي کے اندر کافي فرنيچر پڑا ہے، کسي طرح اسے نکالنا ہے تاکہ پھر اس کمرے کو ہميشہ کيلئے بند کر ديا جائے-“پرنسپل صاحب نے مسئلہ بتايا-

”‌ کيوں کيوں کيوں؟“ اس مرتبہ شجاعت سے رہا نہ گيا-

”‌ وہاں واقعتا خوفناک بھوت پريت ہيں-“ ايک دو عامل بھي اپنا سر پھڑوا کر ناکام واپس بھاگ چکے ہيں-“

”‌ اس کا حل تو بہت آسان ہے.... آپ نے کالج کے اندر سگريٹ پينے پر پابندي لگائي ہوئي ہے نا، بارہ ڈي ميں اجازت دے ديجئے....“ شجاعت نے ہاتھ جھاڑے-

”‌اس سے کيا ہوگا؟“ پرنسپل صاحب حيرت سے بولے-

”‌بھوتوں کے اچھے بھي وہاں سے بھاگتے نظر آئيں گے- ميري خالہ کہتي ہيں کہ کسي کمرے ميں پانچ مچھر مار کوائل جلا يا ايک سگريٹ پي لو بات برابر ہے، دونوں سے برابر زہر نکلتا ہے- ميرے خالو اخبار پڑھنے کے دوران ايک سگريٹ ضرور پيا کرتے تھے- ايک مرتبہ انہوں نے دوسرا سلگايا تو چھت سے ايک چھپکلي بے ہوش ہو کر ٹپک پري- وہ بھي روزانہ اوپر بيٹھ کر دھواں سونگھا کرتي تھي، اس دن نشہ بڑھ گيا تو اپنے قدموں پر کھڑي نہ رہ سکي-“

”‌ کيا بکواس کر رہے ہو ميں نے بارہ ڈي کے متعلق پوچھا تھا؟“ پرنسپل صاحب جھلا کر بولے-

”‌ بس يہ آخري دليل ہے-“ شجاعت مرزا بولے-

”‌ ايک چوہا روزانہ خالو کي ڈبي سے ايک سگريٹ چرا کر بھاگ جاتا تھا- ايک مرتبہ کئي روز تک ايسا نہ ہوا تو خالو نے اس کے بل پر جا کر اس کي خبر لي- معلوم ہوا کہ کثرت تمباکو نوشي سے اس کے پھيپھڑے شديد متاثر ہوئے تھے اور اسے گردن کا کينسر بھي ہو گيا تھا- خالو نے بھي اس کے بعد سے سگريٹ پينے چھوڑ ديئے!“

”‌بارہ ڈي کالج کے اندر ہي آتا ہے، وہاں کسي کو نشہ کرنے کي اجازت نہيں دي جا سکتي-“ پرنسپل صاحب نے حتمي فيصلہ سنايا-

”‌پھر آپ ہميں اجازت ديں کہ ہم دونوں از خود اس معاملہ سے نمٹيں!“ ہماري خواہش زبان پر آگئي-

”‌ٹھيک ہے، ليکن ميں بھي تمہارے ساتھ چلوں گا....“ پرنسپل صاحب نے حامي بھري- ہم نے دبے لفظوں ميں ان کا جملہ مکمل کيا-

”‌تاکہ تم لوگ اکيلے اکيلے ہي ہيرو نہ بن جا-“

*....*

انچارج نے تالا کھولا اور سر پر پاں رکھ کر بھاگا- اس نے پيچھے مڑ کر بھي نہ ديکھا- جاتے جاتے ہميں خوف کا ٹھيک ٹھاک تاثر دے گيا-

”‌چلئے سر-“ ہم ہاتھ آگے کرکے احتراماً بولے-

”‌ نہيں بھئي پہلے تم لوگ.... سنا نہيں کہ عورتيں اور بچے پہلے!“ پرنسپل صاحب ايثار و قرباني کا پيکر بنگئے-شجاعت دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا- پيچھے پيچھے ہم تھے- اندر کا ماحول کافي پراسرار لگ رہا تھا- اندھيرا ماحول، دھول مٹي کي تہيں ، بے ہنگم انداز ميں بکھري کرسياں اور ميزيں ايک عجيب سا تاثر قائم کر رہي تھيں-

”‌ يہ اتنے بہت سے ڈنڈے يہاں کيوں پڑے ہيں؟“ شجاعت نے ماحول کے رعب ميں آنے کے بجائے اس کا جائزہ ليتے ہوئے پوچھا-

”‌ کسي زمانے ميں يہاں کے اساتذہ انہيں بطور ”‌مولا بخش “ استعمال کيا کرتے تھے- مارا تو کم ہي جاتا تھا، صرف ڈرانے کيلئے استعمال ہوتے تھے-“ پرنسپل صاحب نے بتايا-

”‌ اب يہ بارہ ڈي ميں بند ہيں تو پورا کالج اس کمرے سے ڈرتا ہے-“

ہم آنکھيں پھاڑ پھاڑ کر ہر چيز کو بغور ديکھنے کي کوشش کر رہے تھے- ہماري غفلت کا فائدہ اٹھا کر شجاعت نے ايک ڈنڈا بھرپور طريقے سے ہماري کھوپڑي پر رسيد کر ديا- ہماري آنکھوں کے سامنے تارے ناچ گئے- ہم غضب ناک ہو کر پيچھے مڑے تو ديکھا کہ شجاعت کے ہاتھ ميں کوئي ڈنڈا نہيں ہے، وہ خود اپنا سر پکڑے پيچھے کھڑے پرنسپل صاحب کو ديکھ رہا ہے-

”‌نامعقول پرنسپل.... کيا يہ تمہاري شرارت ہے؟“ ہم نے سوچا اور پرنسپل صاحب کو ديکھا- ان کے آس پاس تو کيا، دور دور تک کوئي ڈنڈا نہ تھا اور وہ خود اپنا سر تيز تيز سہلانے ميں مصروف تھے-

ہم تينوں ہي کے چہروں پر تشويش ابھر آئي- کچھ دير سوچنے کے بعد شجاعت نے اوپر چھت کي طرف ديکھا- ہم نے بھي نظريں اٹھاديں-

تحریر : حماد ظہير


متعلقہ تحريريں :

ضہحّاک کي کہاني گيارهواں، بارهواں، تيرهواں، چودهواں اور پندوراں نظاره