• صارفین کی تعداد :
  • 2813
  • 8/8/2011
  • تاريخ :

دادا جان ، تسبيح اور چمگادڑ

کتابیں

ناسمجھ، نامعقول اور نہايت ہي فضول انسان کہتے ہيں اس گھر ميں” دادا جان بڑے کمرے ميں ايک کونے سے دوسرے کونے تک اپني لاٹھي ٹيکتے چکر لگا رہے تھے- جب ہمارے چھوٹے بھائي جان نے انٹري دي اور آتے ہي اعلان کيا ، بم پھوڑا-

”‌دادا جان قاضي انکل کہہ رہے ہيں تمہارے دادا جان نے کبھي اپنا بدلہ تو چھوڑا نہيں تو تسبيح کيسے چھوڑ گئے؟”

”‌اور تم خاموشي سے سنتے رہے ہمارے بارے ميں غلط خيالات؟” دادا جان کے غصے کا رخ جب اجو مياں نے اپني جانب مڑتے ديکھا تو بالائي کھاتے بڑے پھپھو کے فرزند خالد کي جانب اشارہ کيا-

”‌ نہيں دادا جان نے فوراً ہي ان سے معذرت کر لي تھي سننے سے ”خالد نے حيراني سے دادا جان اور ابو کي جانب ديکھا اور کندھے اچکا کر نہايت بے نيازي سے دوبارہ بالائي کھانے لگا-

”‌ ديکھا يہ ہے بس ميرا شہزادہ اور تم نہايت ہي لاپرواہ ہونا لائق-” دادا جان نے آگے بڑھ کر خالد کي پشت تھپکي جو اجو مياں کو قطعي بھائي نہيں تبھي جاتے جاتے وہ ننھي سي پھلجڑي چھوڑ گئے-

”‌ پورا تو سن ليں دادا جان اس نے کہا تھا يہ سب تو ہميں معلوم ہے کچھ نئي معلومات سے نوازيں-”

اور بڑے کمرے سے صحن تک اجو مياں وہ تمام اعزازي کلمات سنتے آئے جو دادا جان خالد کو نواز رہے تھے اور خالد بيچارہ يہ بھي نہ کہہ سکا کہ اس نے قاضي انکل سے تسبيح کے متعلق تفصيلات کے درميان کہا تھا جب قاضي انکل اس سنگ مرمر جيسے ننھے ننھے موتيوں سے بني تسبيح کي تعريف ميں K-2 کي چوٹي پر چڑھتے جا رہے تھے جو دادا جان کے بچپن کے دوست احمد ہمداني صاحب نے مالديپ سے واپسي پر تحفتاً دي تھي - مالديپ ويسے بھي ناياب و قيمتي موتيوں پتھروں کي بنا پر مشہور ہے اور چونکہ وہ جزيرہ نما ملک ہے تو ارد گرد سمندر کي تہوں سے ايسے ايسے قدرت کے تحفے نکالے جاتے ہيں کہ انساني عقل دنگ رہ جائے- انہي خوبصورت موتيوں سے بني تسبيح جو آج کل ہمہ وقت دادا جان کے ہاتھوں ميں رہتي تھي اچانک غائب ہو گئي تھي ذرا سا ذہن پر زور ڈالا تو ياد آيا پچھلي شام قاضي انکل کے گھر گذري تھي چنانچہ اجو مياں کو دوڑا ديا گيا اور پھر اجو مياں دوڑتے دوڑتے اور دادا جان دماغ کو دوڑاتے دوڑاتے نڈھال ہو گئے اور پھر زير تفتيش گھر کے افراد آگئے جن پر ذرا سا بھي نمازي ہونے کا گمان ہوتا وہ پوچھ تاچھ کيلئے کمرے ميں بلا ليا جاتا اور جب سب حسب مراتب گھوري ، ڈانٹ اور دھمکي کے مراحل معصوميت کے ساتھ طے کر گئے تو سب گھر والوں کي نظريں دادي جان پر جا ٹھہريں جو نہايت ہي بے نيازي سے اپني نماز کي چوکي پر بيٹھيں نماز ادا کر رہي تھيں اور جب ان کو سب کي ٹکٹکي کي وجہ معلوم ہوئي تو پھر کمرہ تفتيش ميں دادا جان کي تفتيش شروع ہو گئي-

دادي جان: ”‌ ميں پوچھتي ہوں آخر ميں کيوں شک کي زد پر آئي؟”

دادا جان: ”‌ارے بھئي ايسے ہي ہم پوچھنا چاہ رہے....”

دادي جان:”‌ پوچھنے کا مطلب؟ ميں کوئي چور ہوں؟”

دادا جان: ”‌ بھئي وہ آپ اکثر درود پڑھتي رہتي ہيں نا؟”

دادي جان: ”‌ حد کر دي آپ نے ميں کيا تسبيح چرا کر درود پڑھتي ہوں؟ ويسے بھي چوري کي تسبيح پر درود پڑھنے کا پورا ثواب بھي نہيں ملے گا-”

دادا جان: ”‌ بس ہميں اب آپ کي بے گناہي کا يقين ہو گيا ہے-”

دادي جان: ”‌ کيا ؟ گويا ابھي تک ميں ملزم تھي؟ اور اب ميں باعزت بري ہوئي ہوں؟ ليکن اگر ميں آپ پر الزام لگا دوں کہ تسبيح آپ نے خود غائب کي ہے تو؟”

”‌لاحول ولا” دادا جان نے بے ساختہ کہا اور بڑے کمرے سے صحن کي جانب چل ديئے اور پيچھے دادي جان انتہائي افسوس کے عالم ميں خود کو ملزم ٹھہرائے جانے پر زير لب بڑبڑا رہي تھيں-

*....*

”‌ويسے يار مجھے حيراني بہت ہے تسبيح جا کہاں سکتي ہے؟ خالد جو مزے سے پاپ کان کھا رہا تھا- کچھ سوچتے ہوئے بولا-

”‌ بھوت لے گئے اسے؟”

”‌ خدا کيلئے اب اس بھوت کا مت بتا دينا دادا جان کو ورنہ اس آدھي رات ميں بھي اس کے گھر بھجوا ديں گے پوچھنے کيلئے پہلے سارا دن دوڑيں لگاتے جوتے گھس گئے ہيں- نيند بھي اڑ چکي ہے مارے تھکن کے-” اجو مياں جو آدھے صوفے اور آدھے زمين پر تشريف فرما تھے جھلا کر بولے-

”‌ اے .... اجو سن....؟” خالد نے پاپ کارن کھانے چھوڑ کر کسي ناديدہ شے کو ديکھنے کي کوشش کي-

”‌ کيوں؟”

”‌ارے يہ شوں کي کيسي آواز ہے؟”

”‌تم يہ پھولے پھولے پاپ کارن کھا رہے ہو تو تم ميں ہوا بھر رہي ہوگي-” اجو مياں نے بے نيازي سے آنکھيں موندے جواب ديا-

”‌ٹھک کي آواز کے ساتھ جب کوئي شے ڈرائنگ روم کے بند دروازے سے ٹکرائي تو جہاں پاپ کارن خالد کي گود سے گرے وہيں اجو مياں بھي بقيہ آدھے زمين پر گر پڑے-

”‌ کو .... کو.... کون؟” اجو مياں کي مارے گھبراہٹ کے اتني باريک آواز نکلي کہ خالد اسے گھورنے لگا اور چند قدم بڑھ کر دروازہ کھول ديا تبھي کوئي کالي سي چيز اڑتي ہوئي اس کے چہرے سے ٹکرائي اور خالد نے نعرہ مدد مارا- اجو مياں کو جب کچھ نہ سوجھا تو چلانے لگے -

”‌ آگ آگ.... مدد مدد-”

آن کي آن ميں پورا گھر جمع ہو گيا - خالد زمين پر اور اجو مياں صوفے پر اچھل اچھل کر شور مچا رہے تھے ۔

جاری ہے

 

تحریر: شاہا نعمان انصاري

متعلقہ تحريريں :

سہيلي کي مدد

محنت کا پھل

ہم روشني ہيں

آج کا کام ابھي

دو کبوتر (حصّہ ششم)