• صارفین کی تعداد :
  • 3123
  • 11/18/2011
  • تاريخ :

بھوت کے تعاقب ميں (دوسرا حصّہ)

کہانیاں

کوئي گويا اسي موقع کے انتظار ميں بيٹھا تھا- ہم تينوں کے سر پر ايک ايک ڈنڈا اور بھرپور طاقت سے رسيد کيا گيا- ہمارے تو تن بدن ميں آگ لگ گئي ، جبکہ پرنسپل صاحب بے چارے اس مرتبہ ضبط کا مظاہرہ نہ کرسکے اور ان کي چيخ نکل گئي-

”‌ بچا بچا!“ وہ بچوں کي طرح چلائے اور حواس باختہ ہو کر دروازے کي طرف دوڑ لگا دي- شايد ہوا ہي سے ہوا ہو.... مگر دروازہ بھي اسي وقت بند ہو گيا-

کمرے کا اندھيرا مزيد گہرا جبکہ ماحول مزيد ڈرانا ہو گيا- اب تو ہمارے سروں پر تاک تاک کر ڈنڈے برسائے جانے لگے- يوں لگا کہ مارنے والوں کو بڑي فرصت ہے- ہمارے سروں پر گويا ڈرم بجا رہے تھے- ہماري تو ہوا اکھڑ گئي اور ہم ”‌امي! امي....“ کہہ کر رونا شروع ہو گئے- پرنسپل صاحب کا حال بھي مختلف نہ تھا- شجاعت شايد اپنے نام کي لاج رکھنے کي کوشش کر رہا تھا- وہ بولا-

”‌ اپنے سوئٹر کو سر پر کر لو اور يہ ڈنڈے جلدي جلدي اٹھا کر کھڑکي سے نيچے پھينکو-“

اس نے ايک کھڑکي کھولي تو کچھ روشني اور تازہ ہوا اندر آئي- ہماري بھي کچھ جان ميں جان آئي- ہم نے ڈنڈے اٹھا اٹھا کر نيچے پھينکنے شروع کر ديئے-

سارے ڈنڈے پھينک چکنے کے بعد دروازے پر زور آزمائي شروع کي تو وہ بھي کھل گيا- پرنسپل صاحب ابھي تک اپنے کوٹ کے اندر سر چھپائے کپکپا رہے تھے-

”‌سر! دروازہ کھل گيا، باہر چليں-“

وہ کوٹ سے منہ نکالے بغير ہي اندازے سے دروازے کي طرف لپکے اور اندھي ميںديوار سے ٹکرا کر چاروں شانے چت گر پڑے-

وہ مدہوشي سے بے ہوشي کي طرف پرواز کر چکے تھے-

*....*

”‌ پرنسپل صاحب بھوتوں سے معاملات طے کرنے گئے تھے، ليکن يہ مذاکرات ناکام ہو گئے- بھوتوں کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پہلے کالج کے بجلي کے نظام کو بہتر بنايا جائے کيونکہ جگہ جگہ شاٹ سرکٹ ہونے سے بھوتوں کي قيمتي جانوں کا نقصان ہوتا ہے-“ کمپانڈر کہہ رہا تھا جبکہ پرنسپل صاحب کي مزاج پرسي کو آئي ہوئي طلبہ کي بڑي تعداد سِک روم اور اس کے باہر جمع تھي-

پرنسپل صاحب ہوش ميں آکر بولے- ”‌ بارہ ڈي کو فوراً لاک کرا اور اس کي چابي کو آتش دان ميں ڈال کر پگھلا دو.... جا جلدي -“

”‌ ليکن کيوں.... ہم ايک بھوت سے کيوں ڈريں-“ شجاعت نے جرح کي-

”‌ اس ليے کہ وہ بہت طاقتور ہے- اسے ايک کمرے ہي ميں رہنے کي اجازت دے دو تاکہ وہ باقي سارے کالج ميں دخل اندازي سے باز رہے-“ پرنسپل صاحب خوفزدہ لہجہ ميں بولے-

”‌ اگر ہم نے اس سے ڈر کر ہار مان لي تو وہ ايک کمرے ميں نہيں ہم سب کے ذہنوں پر راج کرے گا، ہم سب کو مل کر آج ہي اس کا بھرکس نکال دينا چاہےے-“

”‌ کيونکہ دشمن کا کچومر نکال دينا عين عقل مندي ہے-“ ہميں بھي کہيں پڑھا ہوا قول ياد آگيا-

”‌ ليکن يہ ہوگا کيسے؟“ پرنسپل صاحب نے استفسار کيا-

”‌ آپ کے بے ہوش ہونے کے بعد ہم نے بھوتوں کو ان بوريوں ميں جکڑ ديا جن ميںپراني ردّي وغيرہ بھري تھي- مجھے کچھ خاص عمل آتے ہيں جنہيں ميں نے استعمال کيا- اب اگر ان بوروں کو فوراً جلا نہ ديا گيا تو بھوت پھر سے آزاد ہو سکتے ہيں-“

پرنسپل صاحب نے سہمے سہمے انداز ميں سر ہلا ديا- گويا کمانڈ شجاعت کے ہاتھ آگئي- اسے ليڈر بننے کيلئے فقط چيونٹي کي پھونک درکار ہوتي تھيجس کے بعد وہ ہواں ميں اڑنے لگتا - وہ کسي سپہ سالار کي طرح اپني فوج سے خطاب کر رہا تھا-

”‌دوستو! خدا کو يہ کام تمہارے ہي ہاتھوں سے لينا منظور تھا- آج کے بعد بارہ ڈي ميں کسي بھوت کا سايہ بھي پر نہيں مارے گا- تم سب لوگ ہاتھوں ميں درخت کي ٹہنياں وغيرہ تھام لو، پيچھے بہت سے ڈنڈے پڑے ہيں انہيں اٹھا لو اور ميرے ساتھ ساتھ آ-“

جب ہم آگے آگے بارہ ڈي کي طرف جا رہے تھے اور ہمارے پيچھے پرجوش نعرے لگاتا ڈنڈا برداروں کا لشکر تھا تو ہم نے مرزا کے کان ميں سرگوشي کي-

”‌ يہ کيا ڈرامہ کرنے جا رہے ہو؟“

”‌دنيا ميں کوئي بھوت ايسا نہيں جس کيلئے لاتيں موجود نہ ہوں-“

”‌ مگر وہ تو يقينا کسي گيس کا اثر تھا، جس سے سر ميں ٹيسيں اٹھتي تھيں، کھڑکي کھلنے کے بعد تو وہ ختم ہو گيا تھا-“ہم نے گويا حقيقت بتانا چاہي-

”‌ گومڑے کہاں سے نکل آتے تھے؟“ شجاعت نے گويا دليل دي -

”‌ وہ تو خوف سے اِدھر اُدھر ٹکرانے کا نتيجہ تھے-“ ہمارے پاس بھي مکمل توضيح تھي-

”‌سچي مچ بھي بھوت ہوتے ہيں.... مان لو-“

”‌ کہاں ہوتے ہيں؟“ ہم نے پوچھا-

”‌ کشمير ميں.... جنہيں يہ سوچ کر ظلم کرنے کي آزادي دے دي جاتي ہے کہ اگر ان کے کام ميں مداخلت کي گئي تو پورے ملک ميں گھس آئيں گے- اگر ان سے کشمير ميں لڑا گيا تو پورے ملک ميں خانہ جنگي شروع ہوجائے گي- ہمارے حکمراں يہ بھول گئے کہ مومن اگر ثابت قدم رہے تو اپنے سے دس گنا بڑے دشمن پر قابو پا سکتا ہے- نتيجتاً بھارت کا قبضہ صرف کشمير پر ہي نہيں بلکہ ہم سب کے ذہنوں پر بھي ہوتا جا رہا ہے- يہ ہوا ہے، صرف ہوا.... ورنہ ہندوستان ايک ڈنڈے کي مار ہے.... صرف ايک ڈنڈے کي.... کوئي آنکھيں دکھانے والا تو ہو-“ شجاعت کا چہرہ سرخ ہو گيا- آنکھيں شعلہ اگلنے لگيں- خود ہميں اس سے خوف محسوس ہونے لگا، اور ہم اس سے کچھ فاصلے پر ہو گئے-

*....*

لڑکوں کو ايک مشغلہ ہاتھ آگياتھا- انہوں نے ردّي کے بوروں کي وہ دھنائي کي کہ وہ پھٹ پھٹ کر بکھر گئے- پھر انہيں بحفاظت نذرِ آتش کيا گيا اور قضيہ تمام ہوا-ساري کھڑکياں کھول دي گئي تھيں- صفائي وغيرہ کرا کے وہاں سفيد رنگ پھيرا گيا اور پھر بارہ ڈي کو ليبارٹري بنا ديا گيا، جو کسي بھي کالج کي مصروف ترين جگہ ہوا کرتي ہے- آج وہاں نہ بھوت ہے نہ بھوت زاد- بس کبھي کبھي شيلف ميں رکھي شيشياں کھڑکھتي ہيں، گويا کسي بہت بڑے بھوت کو اس کي بے بسي پر ہنس ہنس کر منہ چڑا رہي ہوں-


متعلقہ تحريريں :

ضحّاک کي کہاني سولھواں، سترھواں اور اٹھارھواں نظارہ