مجھے ہاتھی خریدنا ہے (حصّہ اوّل)
منّا آج اپنے ڈیڈی کا بڑی بے تابی سے انتظار کر رہا تھا ۔ منے کے ابا ایک سکول ٹیچر تھے اور رات تک ہوم ٹیوشن پڑھاتے تھے ۔ لیکن آج نہ جانے کیوں منّے کی اپنے ابا جان سے ملنے کی خواہش تیز تر ہوتی جا رہی تھی ۔ منے نے گھر میں ادھم مچا رکھا تھا ۔ اماں بھی بہت حیران تھی لیکن اس نے بچے کو پیار کیا اور کہنے لگی بیٹا ! آپ کے ڈیڈی بس آتے ہی ہونگے ۔ رات کے گیارہ بج چکے تھے بچے کی ضد زور پکڑتی جا رہی تھی ۔ ماں نے منے کو لوریاں دیں ، سلانے کی کوشش کی لیکن بےسود ۔ پتہ نہیں منے کو آج اپنے ابا جان سے کون سا اتنا ضروری کام تھا جس کے لیۓ وہ اتنی ضد کر رہا تھا ۔ آخر کار انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں ۔ دروازے پر دستک ہوئی اور ابو آ گۓ ۔ ڈیڈی ڈیڈی ! منّا خوشی سے چلایا اور ابو کے ساتھ لپٹ گیا ۔ ڈیڈی نے منے کو پیار کیا اور اس کے معصوم سے گالوں کو بوسا اور پھر وہ دونوں خوشی خوشی کمرے میں چلے گۓ ۔
منّے نے کہا! ڈیڈی مجھے آپ سے آج ایک ضروری بات کرنی ہے لیکن پہلے آپ مجھے بتائیں کہ آپ میرا کہا مانیں گے یا نہیں ؟
ڈیڈی نے چاند کے سے بیٹے کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور کہا ! ہاں بیٹا آپ کہو تو سہی ۔
منے نے کہا ! ابو جان مجھے ہاتھی خریدنا ہے ، زندہ ہاتھی ۔
بیٹے کی معصوم خواہش اور فرمایش پر باپ کو پیار آیا ۔ گالوں پر تھپکی دی اور کہا ! بیٹا کل ہم بازار جا کر ہاتھی خرید لیں گے ۔
لیکن منّا بضد ہوا کہ اسے آج ہی اور اسی وقت زندہ ہاتھی چاہیے ۔
منّے کے ابا اس حسرت کو پس پشت نہ ڈال سکے اور بولے ! " اچھا بیٹا جلدی سے تیّار ہو جاؤ "
منّے نے خوشی سے چھلانگ گلائی اور امّی کے پاس پہنچا اور بولا " میں نہ کہتا تھا میرے ڈیڈی میرا کام ضرور کریں گے ۔ اس وقت رات کے دو بج چکے تھے ، سردی کی شدّت اپنے عروج پر تھی ، دونوں باپ بیٹا کانوں پر مفلر لپیٹے بازار کی طرف چل نکلے ۔ سبھی دکانیں بند پڑی تھیں ، سڑک سنسان پڑی تھی ، سامنے دور کچھ لوگ نظر آۓ ۔ قریب پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ایک ہوٹل کھلا ہے جہاں کچھ لوگ چاۓ پی رہے تھے ۔ ڈیڈی نے کہا ! "جاؤ بیٹا ہوٹل میں بیٹھے ہوۓ لوگوں سے کہو کہ مجھے ہاتھی خریدنا ہے "
منّا دوڑتا ہوا ہوٹل میں موجود لوگوں کے پاس گیا اور سلام کرنے کے بعد وہاں پر موجود لوگوں سے کہنے لگا کہ اسے ہاتھی خریدنا ہے ۔ منّے کی بات سن کر ہوٹل میں موجود لوگوں نے قہقہہ لگایا اور کہا بیٹا ! اس وقت تو کھلونوں کی دکانیں بند ہیں ۔ "
منّے نے کہا !" مجھے زندہ ہاتھی خریدنا ہے "
لوگوں نے پھر مذاق اڑایا اور کہا " بیٹا ! زندہ ہاتھی تو آپ کو کہیں سے بھی نہیں ملے گا "
تحریر : ڈاکٹر ظہیر عباس ( ملک وال ضلع منڈی بہاؤالدین )
پیشکش : شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان
متعلقہ تحریریں :
حلال اور حرام کمائی کے اثرات
اخلاقی محبت