حلال اور حرام کمائی کے اثرات
افضال اور آفاق دونوں بچپن کے دوست تھے۔ وہ ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کاآغاز پولیس ڈیپارٹمنٹ میں معمولی عہدے پر ملازمت سے شروع کیا۔ چند ہی سالوں میں افضال نے اس معمولی ملازمت سے گھر، کار، بینک بیلنس کے علاوہ اچھے عہدے پر ترقی بھی حاصل کرلی تھی جبکہ آفاق آج بھی اسی عہدے پرٴ معمولی تنخواہ پر ملازم تھا۔ اس کی وجہ اس کی ایمانداری اوروضع داری تھی۔ آج بھی دونوں کی دوستی تر و تازہ تھی۔ اگرچہ افضال معاشی لحاظ سے بہت مستحکم ہوچکا تھا مگر دوسی کے لوازمات کے معاملات افضال کوئی بے ایمانی نہ کرتا تھا۔ دونوں دوست اکٹھے گھومتے پھرتے۔ انجوائے کرتے مگر ایک دوسرے کے انتہائی ذاتی معاملات میں نہ جھانکتے۔ آفاق اکثر سوچا کرتا تھا کہ افضال کو کیا ہوگیا ہے وہ ایسا تو نہیں تھا کیونکہ آفاق افضال کو بچپن سے جانتا تھا جب ہی آفاق افضال کی اصلاح کرنا چاہتا تو افضال بات گول مول کردیتا۔ اس طرح وقت گزرتا رہا۔ دونوں کے بچے جوان ہوگئے۔ افضال نے اپنے بچوں کو اعلی ٰتعلیم کے ساتھ زندگی کی تمام سہولتیں فراہم کیں جبکہ آفاق اپنی معمولی تنخواہ سے اپنی اولاد صرف سرکاری سکولوں سے پڑھا سکا۔
اس کے دو بیٹے انٹر سے آگے نہ بڑھ سکے۔ افضال کے بھی دو بیٹھے اور ایک بیٹھی تھی۔ دونوں دوستوں پر پڑھانے کی آمد ہوچکی تھی مگر افضال اپنی صحت سے اپنی عمر سے کم ہی نظر آتا تھا۔ جبکہ آفاق اپنی عمر سے زیادہ۔ آفاق کی بیوی جب افضال کی بیوی اور بچوں کو دیکھتی تو آفاق سے لڑتی کہ تم آج بھی معمولی کلرک ہو جبکہ افضال بھائی کتنی ترقی کرچکے ہیں۔ کتنا کما چکے ہیں۔ آفاق بیچارا خاموشی سے بیوی کی ہر بات سن لیتا کیونکہ واقعی افضال نے بہت کچھ حاصل کر لیا تھا۔ افضال کا شمار شہر کے بڑے لوگوں میں ہونے لگا۔ دونوں کی دوستی آج بھی زندہ تھی۔ دونوں ایک دوسرے کےساتھ وقت گزار کر انجوائے کرتے تھے جونکہ اب مصروفیات بہت زیاد ہو چکی تھیں اس لئے اکٹھے ہونے کا موقع ک کم ہی ملتا۔ لوگ حیران ہوتے تھے۔ دونوں دوستوں میں معاشی لحاظ سے کتنا فرق ہے لیکن دوستی اتنی پکی جیسے ایک جسم اور دو روح۔ افضال آفاق کو سمجھاتا۔ یار ایمانداری کے چکر میں لگے تو کچھ نہ کرسکوگے۔ یہ دور ہی ایسا ہے کہ ہر طرح سے اور ہر طر ف سے کماؤ ۔آفاق افضال کی بات سن کر افسردہ ہو جاتا۔اب ہو بھی کیا سکتا تھا۔ ریٹائرڈمنٹ ہونے والی ہے۔
اب کیا بے ایمانی کرنی۔ فرض اور ضمیر کی کشمکش میں الجھا ہوا آفاق بہت پریشان رہنے لگا کیونکہ واقعا وہ اپنی اولاد کے لیے کچھ نہیں کرسکا۔ نہ تو انھیں اچھی تعلیم دے سکا نہ ہی انھیں زندگی کی خوشیاں۔ اس کے دونوں بیٹے بہت محنتی اور فرمانبردار تھے وہ اپنے باپ کا بہت خیال رکھتے تھے اچھی جاب اچھی تعلیم ملتی ہے اور آفاق صاحب کے بیٹوں کے پاس اچھی تعلیم نہ تھی۔ اس لیے انھوں نے ماں کا زیور بیچ کر کپڑے کا چھوٹا سا کاروبار شروع کرلیا تاکہ ابو کی ریٹائرڈمنٹ کے بعد گھر کا خرچہ چلتا رہے۔ افضال صاحب کے بچے اپنے والد کا بالکل خیال نہ کرتے۔ باپ کا کہنا نہ مانتے اور آزادی کے چکر میں غلط راہ پر چل نکے۔ اولاد کو یوں تباہ ہوتے دیکھ کر افضال کو بے حد صدمہ ہوتا۔ بیٹی بھی خود سر تھی۔ سمجھانے پر ٹکا سا جواب دے کر چلی جاتی۔ دونوں دوستوں نے چونکہ اکٹھے ملازمت کا آغآز کیا تھا اس لیے اکٹھے ریٹائر ہوئے۔ اب افضال اپنا زیادہ تر وقت آفاق کے ساتھ بساط کھیلنے میں گزارتے۔ دونوں اپنے گزرے ہوئے وقت کو یاد کرتے۔ بچپن کی طرح آج بھی ایک دوسرے سے کھیل کر خوش ہو جاتے۔ آفاق نے ایمانداری کا دامن کبھی نہ چھوڑا جس کی وجہ سے آج وہ بہت پرسکون اور مطمئن رہتے جبکہ افضال کو ہر وقت ایک انجام سا خوف گھیرے رہتا۔ اولاد کی بے رخی نے افضال کو ادھ موہ کردیا تھا۔ جب آفاق نے بیٹے آفاق سے گلے ملتے اُن سے ہنستے بولتے تو افضال صاحب کی آنکھوں میں بخود بخودآنسو آ جاتے کہ جس اولاد کو اتنی محبت دی کہ انھوں نے مجھے نظرانداز کردیا۔ افضال صاحب کے بیٹے ناجائز طریقے سے کما رہے تھے۔ ان کے پاس باپ سے بات کرنےٴ ان کی طبعیت کے بارے میں پوچھنے کا وقت ہی نہ تھا۔ افضال کو اب احساس ہو رہا تھا کہ آفاق نے ایمانداری کا کتنا خوبصورت صلہ پایا ہے۔ اس کی ساری زندگی کی ریاضت کس ٹھکانے لگی؟ اولاد کو حلال کھلانے سے اُن میں والدین کی محبت رشتوں کا تقدسٴ انسانیت کے احرام سے وصف پیدا ہوتے ہیں۔ جبکہ حرام اولاد کے خون میں سرایت کرجائے تو اولاد ماں باپ سے باغیٴ اُن کے احتام سے ناواقف ہو کر شیطانیت کی راہ پر چل پڑتی ہے۔ اب پچھتانے سے کیا فائدہ کیونکہ45 سال کا طویل عرصہ گزر چکا تھا۔ کل تک افضال خوش و خرم ہوا کرتاتھا۔ مگر آج آفاق کے چہرے پر سچی مسرت اس کی خوشی کا پتہ دیتی ہے۔
تحریر : سمیرا ملک ( آن لائن اردو ڈاٹ کام )
متعلقہ تحریریں :
بچو! سلام کرنا مت بھولنا
بن بلائے مھمان