• صارفین کی تعداد :
  • 5435
  • 4/21/2009
  • تاريخ :

اخلاقی محبت

کتاب

شام سہانی تھی۔ اماں جان اور سعدیہ دونوں سوئمنگ پُول کے قریب آرام دہ کرسیوں پر لیٹی ہوئی تھیں۔ میں بھی ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ اباجان حسب معمول کتب خانہ میں تھے۔ تمام رشتے داراور احباب جا چکے تھے۔

میں نے ماں سے پوچھا۔ ”اچھائی کیا ہوتی ہیں؟

“ تم کیوں پوچھتے ہو؟ کیا ابو کی باتیں کافی نہیں؟ " ماں نے کہا۔

" ہاں ابو نے ہمیں اچھائی کو سمجھنے میں مدد دی۔ مگر میں آپ کا خیال بھی جاننا چاہتا ہوں”۔

“ ماں نے جھک کرسعدیہ کا ماتھا چوما۔ اور کہا”۔ میرے خیال میں محبت انسان کی سب سے بڑی اچھائی ہے۔ جو تمام اچھائیوں کواپنے اندر سما لیتی ہے۔

“ محبت، ابا جان نے تو اس کا ذکر ہم سے نہیں کیا؟ "میں نے حیرت سے کہا۔

ماں نے کہا۔ ” انسانیت کے سینکڑوں اصول ہیں اور تمارے ابو تمیں باترتیب اور رواجی طریقہ سے بتا رہے ہیں ۔ اس لیے تم سقراط کے اہم سوالات کا جائزہ لے رہے ہو”۔

" لیکن محبت میں نے اور تمھارے ابو نے تم اور سعدیہ کو پہلے دن سے سیکھانا شروع کی تھی”۔

" مگر امی محبت تمام اچھائیوں کو کسے سما سکتی ہے؟ محبت کیا ہے؟" سعدیہ نے ماں سے پوچھا۔

ماں نے کہا “۔ اخلاقی محبت، اللہ کی تمام مخلوقات کیلئے تمارے دل میں ایک گہرا ناقابلِ بیان جذبہ ، رشتہ اورتعلق، شفقت ، بے قراری اور پروا ہ کرنے کا نام ہے۔ یہ ایک رشتہ ہے جو کہ مقناطیسی لگاؤ اور بنیادی یکجہتی سے پیدا ہوتا ہے”۔

" امی ، امی “۔ سعدیہ چلائی”۔ میں نے تو ایک سیدھا سا سوال کیا تھا”۔

ماں مسکرائیں۔” اچھا، اچھا”۔

" میں تم سے محبت کرتی ہوں تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔ سچ ہے؟

" امی یہ کیسا سوال ہے؟" سعدیہ نے ماں کی ناک موڑتے ہوۓ کہا”۔ میں تو سارے جہاں سے زیادہ آپ سے محبت کرتی ہوں”۔

“ مجھ سے بھی زیادہ “۔ میں نے ہنس کر کہا۔

“ بھول جائیے بھائی جان۔ آپ کا نمبر تیسرا ہے“۔ سعدیہ نے اماں کو آنکھ مار کر کہا۔

“ محبت کرنا ایک گہرا جذبہ ہے”۔ ماں نے کہا۔

" تم مجھ سے کیوں محبت کرتی ؟ "

آپ میری امی ہیں۔” سعدیہ نے ماں کے گال چوم کرکہا”۔

ماں نے کہا۔ ”رشتہ اور تعلق “

" کیا تم کو یاد ہے، تم نے اس ننھی سی بلی کو اپنے کمرے میں، اپنے بستر میں پناہ دی تھی”۔

" امی وہ بچاری تو بھوکی، بارش میں سردی سے مررہی تھی”۔ سعدیہ نے شکایت کی۔

اور جب ہمارے شہر کا میونسپل بورڈ اوکھ کا سو سال پرانا درخت کاٹنا چاہتا تھا ۔ ہم سب لوگ درخت کے چاروں طرف گھیرا ڈال کربیٹھے تھے تاکہ درخت کو کٹنے سے بچائیں تم بھی ہمارے ساتھ تھیں۔ اور جب پولیس نے ہم کو جانے کو کہا اور ہم نہیں گئے ۔ تب پولیس نے ہم سب کی آنکھوں میں لال مرچ ڈال دی ۔ تم روئیں مگر تم نے کہا۔ ماں ہم نہیں ہٹیں گے۔ یہ درخت ہم سب سے پہلے یہاں تھا جب ہم یہاں نہیں تھے۔ یہ ہمارے ایکو سسٹم میں برابر کا شریک ہے۔

جب سعدیہ کو یاد آیا کہ تمام کوششوں باوجود درخت کاٹا گیا۔ اُس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔

" اس کو ہم عصر کی پرواہ کرنا کہتے ہیں”۔ اماں جان نے کہا۔

” اللہ کی تمام مخلوق ہماری ہم عصر ہے”۔

" اور جب کبھی تمہارے بھیا کالج سے وقت پر واپس نہیں آتے۔ توکون بار بار پوچھتا ہے، امی ، بھائی جان نے کال کیا؟" ۔

" وہ تو میں اس لئے پوچھتی ہوں کیوں کہ وہ مجھ سے وعدہ کرکے جاتے ہیں کہ میں وقت پر واپس آؤں گا۔ میں انکی پروا تھوڑی کرتی ہوں”۔ سعدیہ نے شرارت سے کہا۔

ماں نے کہا۔” اس کو بے قراری کہتے ہیں”۔

اللہ نے اس کائنات میں ایک بنیادی یکجہتی بنائی ہے اور ایک مقناطیسی لگاؤ ہر چیز کی بناوٹ میں ملا دیا ہے۔ اس یکجاپن اور مقناطیسی لگاؤ کو ہم اخلاقی محبت کہتے ہیں۔اب یہ انسان کا کام کہ وہ اس اچھائی کو پھیلائے ۔

 

                                         سید تفسیراحمد


متعلقہ تحریریں :

بچو! سلام کرنا مت بھولنا

نيت کا فرق