سیرت حضرت فاطمہ زهرا سلام اللہ علیہا میں موجود چند تربیتی نمونے
۔ انسانیت کے کمال کی معراج وہ مقام عصمت ہے جب انسان کی رضا و غضب خدا کی رضا و غضب کے تابع ہو جائے۔اگر عصمت کبری یہ ہے کہ انسان کامل اس مقام پر پہنچ جائے کہ مطلقا خدا کی رضا پر راضی ہو اور غضب الہی پر غضبناک ہو تو فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا وہ ہستی ہیں کہ خداوند متعال مطلقا آپ کی رضا پر راضی اور آپ کے غضب پر غضبناک ہوتا ہے ۔یہ وہ مقام ہے جو کامل ترین انسانوں کے لئے باعث حیرت ہے ۔ان کی ذات آسمان ولایت کے ستاروں کےانوار کا سر چشمہ ہے ،وہ کتاب ہدایت کے اسرار کے خزینہ کی حد ہیں ۔آپؑ لیلۃ مبارکۃ کی تاویل ہیں ۔ آپ ؑشب قدر ہیں ۔ آپ ؑنسائنا کی تنہا مصداق ہیں۔ آپ ؑ زمانے میں تنہا خاتون ہیں جن کی دعا کو خداوند متعال نے مباہلہ کے دن خاتم النبین کے ہم رتبہ قرار دیا ۔
سیرت حضرت فاطمہ زهرا سلام اللہ علیہا میں موجود چند تربیتی نمونے
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
مقدمہ:
حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کےبارے میں کچھ لکھنا عام انسانوں کی بس کی بات نہیں آپ کے فضائل اور مناقب خدا وندمتعال، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلماورائمہ معصومین علیہم السلام ہی بیان کر سکتے ہیں ۔آپؑ کائنات کی وہ بے مثال خاتون ہیں جنہیں دو اماموں کی ماں بننے کا شرف حاصل ہوا ۔آپؑ وہ ممدوحہ ہیں جس کی مدح سورۃ کوثر ،آیت تطہیر اور سورۃ دہر جیسی قرآنی آیتوں اور سوروں میں کی گئی۔آپؑ وہ عبادت گزار ہیں جس کی نماز کے وقت زمین سے آسمان تک ایک نور کا سلسلہ قائم ہو جاتا تھا ۔آپؑ وہ صاحب سخاوت ہیں جس نے فاقوں میں سائل کو محروم واپس نہیں جانے دیا۔آپؑ وہ باعفت خاتون ہیں جس کا پردہ تمام زندگی برقرار رہا کہ باپ کے ساتھ نابینا صحابی بھی آیا تو اس سےبھی پردہ فرمایا۔ آپؑ وہ صاحب نظر ہیں کہ جب رسول خدا ﷺکے سوال پر کہ عورت کے لئے سب سے بہتر کیا چیز ہے ؟تواس وقت آپؑ نے فرمایا: عورت کے حق میں سب سے بہتر شے یہ ہے کہ نامحرم مرد اسے نہ دیکھے اور وہ خود بھی کسی نامحرم کو نہ دیکھے۔{خیر لهن ان لا یرین الرجال و لا یرو نهن}۱۔رسول خدا ﷺ آپ ؑکے بارے میں فرماتے ہیں :{ان الله یغضب لغضبک و یرضی لرضاک}۲۔بےشک خدا آپ کے غضبناک ہونے سے غصے میں آتا ہے اور آپ کی خوشنودی سےخوش ہوتا ہے ۔ انسانیت کے کمال کی معراج وہ مقام عصمت ہے جب انسان کی رضا و غضب خدا کی رضا و غضب کے تابع ہو جائے۔اگر عصمت کبری یہ ہے کہ انسان کامل اس مقام پر پہنچ جائے کہ مطلقا خدا کی رضا پر راضی ہو اور غضب الہی پر غضبناک ہو تو فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا وہ ہستی ہیں کہ خداوند متعال مطلقا آپ کی رضا پر راضی اور آپ کے غضب پر غضبناک ہوتا ہے ۔یہ وہ مقام ہے جو کامل ترین انسانوں کے لئے باعث حیرت ہے ۔ان کی ذات آسمان ولایت کے ستاروں کےانوار کا سر چشمہ ہے ،وہ کتاب ہدایت کے اسرار کے خزینہ کی حد ہیں ۔آپؑ لیلۃ مبارکۃ کی تاویل ہیں ۔ آپ ؑشب قدر ہیں ۔ آپ ؑنسائنا کی تنہا مصداق ہیں۔ آپ ؑ زمانے میں تنہا خاتون ہیں جن کی دعا کو خداوند متعال نے مباہلہ کے دن خاتم النبین کے ہم رتبہ قرار دیا ۔آپؑ کائنات میں واحد خاتون ہیں جن کے سر پر{انما نطعمکم لوجه الله}۳۔ کا تاج مزین ہے ۔وہ ایسا گوہر یگانہ ہیں کہ خداوند متعال نے رسول خدا ﷺکی بعثت کے ذریعے مومنین پر منت رکھی اور فرمایا:{ لقد من الله علی المومنین اذ بعث فیهم رسولا من انفسهم.. }۴ اور اس گوہر یگانہ کے ذریعے سرور کائنات پر منت رکھی اور فرمایا:{انا اعطیناک الکوثر فصل لربک و انحر ،ان شانئک هو الابتر}بے شک ہم نے ہی آپ کو کوثر عطا فرمایا۔لہذا آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی دیں۔یقینا آپ کا دشمن ہی بے اولاد رہے گا۔ اس مختصر مقالہ میں ہم سیرت حضرت فاطمہ زهرا سلام اللہ علیہا میں موجود چند تربیتی نمونوں کو پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔
لغت میں سیرۃ ،رفتار کے معنی میں آیا ہے۔ "حسن السیره؛ یعنی خوش رفتار یا اچھی رفتار۔"۵ ۔ابن منظور کے مطابق سیرۃ سے مراد: "سنت" اور "طریقہ"ہے۔ جیسے" السیره:السنه؛ سیرت یعنی سنت اور راہ وروش کے معنی میں ہے۔سار بهم سیرة حسنة"یعنی ان کے ساتھ اچھا رویہ اور سلوک کے ساتھ پیش آیا۔اصطلاح میں سیرہ سے مراد کسی انسان کی زندگی کے مختلف مراحل اور مواقع میں چھوڑے ہوئے نقوش اور کردار کے مجموعہ کو" سیرۃ " کہا جاتا ہے جسے دوسرے انسان اپنے لئے نمونہ عمل بنایا جاسکے ۔۶
صاحب مفردات کے مطابق "رب" مصدری معنی ٰ کے لحاظ سے کسی چیز کو حد کمال تک پہچانے ، پرورش اور پروان چڑھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ۷صاحب التحقيق کا کہنا ہے اس کا اصل معنی ٰ کسی چیز کو کمال کی طرف لے جانے اور نقائص کو تخلیہ اور تحلیہ کے ذریعےرفع کرنے کے معنی ٰ میں ہے۔ ۷۔بنابر این اگر اس کا ريشه(اصل) "ربو" سے ہو تو اضافہ کرنا، رشد ، نمو اور موجبات رشد کو فراہم کرنے کے معنی ٰ میں ہےلیکن ا گر "ربب" سے ہو تو نظارت ، سرپرستي و رهبري اور کسی چیز کو کمال تک پہنچانے کے لئے پرورش کے معنی ٰ میں ہے۔
شہید مرتضی مطہری لکھتے ہیں: تربیت انسان کی حقیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کا نام ہے۔ ایسی صلاحیتیں جو بالقوہ جانداروں ( انسان، حیوان، پودوں) میں موجود ہوں انہیں بالفعل پروان چڑھانے کو تربیت کہتے ہیں۔ اس بناء پر تربیت صرف جانداروں سے مختص ہے۔۸
سیرہ تربیتی ہر اس رفتار کو کہا جاتا ہے جو دوسروں کی تربیت کی خاطر انجام دی جاتی ہے۔اس بناء پر انسان کا ہر وہ رفتار جو وہ دوسروں کے احساسات ،عواطف، یقین و اعتقاد اورشناخت پر اثرانداز ہونے کےلیے انجام دیتا ہے ،سیرت تربیتی کہا جاتاہے۔۹
سیرت حضرت فاطمہ زهرا سلام اللہ علیہا میں موجود چند تربیتی نمونے
الف۔گھرىلو اور ازدواجى نمونہ
زندگى اىک اىسا مرکز هے جس مىں نشىب وفراز پائے جاتے هىں زندگى مىں کبھی انسان خوش ، کبھى غمگىن ، کبھى آسائش اور کبھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا هے اگر مىاں بىوى با بصىرت اشخاص هوں تو سختىوں کو آسمان اور ناهموار کو همورا بنادىتے هىں۔ حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا اس مىدان مىں اىک کامل اسوه نمونه هىں آپ بچپن سے هى سختى اور مشکل مىں رهى اپنى پاک طبىعت اور روحانى طاقت سے تما م مشکلات کا سامنا کیا اورجب شوهر کے گھر مىں قدم رکھا تو اىک نئے معرکه کا آغاز هوا اس وقت آپ کى شوهردارى اور گھرىلوزندگى کے اخلاقىات کھل کر سامنے آئے ۔
اىک دن امام علىؑ جناب فاطمهؑ سے کھا نا طلب کىا تا که بھوک کو برطرف کرسکىں لىکن جناب فاطمهؑ نے عرض کىا مىں اس خدا کى قسم کھاتى هوں جس نے مىرے والد کو نبوت اور آپ کو امامت کے لىے منتخب کىا دو دن سے گھر مىں کافى مقدار مىں غذا نهىں ہےاور جو کچھ غذا تھى وه آپ اور آپ کے بىٹے حسنؑ اور حسىنؑ کو دى هے امام نے بڑى حسرت سے فرماىا اے فاطمهؑ آخرمجھ سے کىوں نهىں فرماىا مىں غذا فراهم کرنے کے لىے جاتا توجناب فاطمهؑ نے عرض کىا:{ يَا أَبَا الْحَسَنِ إِنِّي لَأَسْتَحْيِي مِنْ إِلَهِي أَنْ تُكَلِّفَ نَفْسَكَ مَا لَا تَقْدِرُ عَلَيْه} اے ابوالحسن مىں اپنے پروردگار سےحىا ءکرتى هوں که مىں اس چىز کا سوال کروں جو آپ کے پاس نه هو۔۱۰۔
ب۔ سىاسى نمونہ
حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا ؑکے سىاسى اخلاقىات کو درج ذىل عناوىن کے تحت دىکھا جاسکتا هے جىسے امام اور حجت خدا کا دفاع، امامت اور رهبرى کى کامل پىروى اور فدک کے متعلق مختلف مىدانوں میں مقابله اور جنگ وجهاد کے بندوبست مىں خوشى اور دلسوزى سے حاضر رهنا ۔سب سے پهلے آپ نے غصب شده حق کو گفتگو سے حل کرنے کى کوشش کى اور قرآن کرىم کى آىات سے دلىلىں قائم کىں۔
حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا خلیفہ کےپاس تشرىف لے گئىں اور فرماىا:" لِمَ تَمْنَعُنِي مِيرَاثِي مِنْ أَبِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ، وَ أَخْرَجْتَ وَكِيلِي مِنْ فَدَكَ؟! وَ قَدْ جَعَلَهَا لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ بِأَمْرِ اللَّهِ تَعَالَى؛ ۱۱؛ تم کیوں مجھے میرے بابا کے میراث سے منع کر رہا ہے اور تم کیوں مىرے وکىل کو فدک سے بے دخل کردىا هے حالا نکه الله کے رسول نے الله کے حکم سے اسے مىرى ملکىت مىں دىاتھا۔"
اسى طرح جب خلافت کا حق چھىنا گىا تو دفاع امامت مىں پورا پورا ساتھ دىا اور آپ حسن وحسىن کا هاتھ پکڑکر رات کے وقت مدىنه کے بزرگوں اور نماىاں شخصىات کے گھرجاتے اور انهىں اپنى مدد کى دعوت دىتے اور پىغمبر کى وصىت ىاد دلواتے ۔۱۲
حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا فرماتىں ہیں اے لوگو!کىا مىرے والد نے على ؑکو خلافت کے لىے معىن نهىں فرماىا تھا کىا ان کى فداکارىوں کو فراموش کربىٹھے هو کیامىرے پدر بزرگوار نے ىه نهىں فرماىاتھا که مىں تم سے رخصت هورها هوں اور تمہارے درمىان دو عظىم چىزىں چھوڑے جارها هوں اگر ان سے تمسک رهوگے تو هرگز گمراه نهىں هوگے اور وه چىزىں اىک الله کى کتاب اور دوسرا میری اہل بىت ۔
ج۔ اقتصادى نمونہ
حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا اقتصادى اخلاقىات مىں بھى همارے لىے اسوه کامل هىں سخاوت کے مىدان مىں آپ اپنے پدر بزرگوار کے نقش قدم پر چلتی تھیں ۔ آپ نے اپنے بابا سے سن رکھاتھا" السخى قرىب من الله" سخى الله کے قرىب هوتا هے ۔
جابر بن عبد الله انصارى کا بىان هے که رسو ل خدا نے همىں عصر کى نماز پڑھائى جب تعقىبات سے فارغ هوگئے تومحراب مىں همارى طرف رخ کرکے بىٹھ گئے لوگ آپ کو هر طرف سے حلقه مىں لىے هوئے تھے که اچانک اىک بوڑھا شخص آىا جس نے بالکل پرانا کپڑہ پهنا هوا تھا ۔ىه منظر دىکھ کر رسول خدا نے اس کى خىرت پوچھى اس نے کها اے الله کے رسول مىں بھوکا هوں لهذا کچھ کو دىجئے مىرے پاس کپڑا بھى نهىں هىں مجھے لباس بھى دیں۔ رسول خدا نے فرماىا فى الحال مىرے پاس کوئی چىز نهىں هے لیکن تم اس کے گھر جاؤ جو الله اور اس کے رسول سےمحبت کرتاهے اورالله اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے هىں جاؤ تم فاطمه کى طرف اور بلال سے فرماىا تم اسے فاطمه کے گھر تک پهنچا دو۔فقىر حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کے دروازه پررکا بلند آواز سے کها نبوت کے گھرانے والو تم پر سلام ۔شهزادى کونىن نے جواب مىں کها تم پر بھى سلام هو ۔تم کون هو ؟کها مىں بوڑھا اعرابى هوں آپ کے پدر بزرگوار کى خدمت مىں حاضر هوا تھا لیکن رسول خدا نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے۔ مىں فقىر هوں مجھ پر کرم فرمائے خدا آپ پر اپنى رحمت نازل فرمائے حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا نے اپنا هار یا گردن بند جو آپ کو حضرت حمزه کى بىٹى نے هبه کىا تھا اتار کر دے دىا اور فرماىا امىد هے که خدا تم کو اس کے ذرىعے بهتر چىز عناىت فرمائے ۔اعرابى هارلے کر مسجد مىں آىا حضور مسجد مىں تشرىف فرماتھے عرض کىا اے رسول خدا: فاطمه زهرا نے ىه هار دے کر کها اس کو بىچ دىنا حضور ىه سن کر روپڑے اس وقت جناب عمار ىاسر کھڑے هوئے عرض کىا ىا رسول الله کىا مجھے اس هار کے خرىدنے کى اجازت هے رسول خدا نے فرماىا خرىد لو جناب عمار نے عرض کى اے اعرابى ىه هار کتنے مىں فروخت کرو گے اس نے کها اس کى قىمت ىه هے که مجھے روٹى اور٬ گوشت مل جائے اور اىک چادرمل جائے جسے اوڑھ کر مىں نماز پڑھ سکوں اور اتنے دىنار جس کے ذرىعے مىں گھر جاسکوں۔ جناب عمار اپنا وه حصه جو آپ کورسول خدا نےخىبر کے مال سے غنىمت مىں دىا تھا قىمت کے عنوان سے پىش کرتے هوئے کها :اس هار کے بدلے تجھےبىس دىنار٬ دوسو درهم ٬ اىک بردىمانى ٬ ایک سوارى٬ اور اتنى مقدار مىں گهىوں کى روٹیاں اور گوشت فراهم کررها هوں جس سے تم بالکل سىرهوجاؤ گے۔جب یہ سب حاصل کیا تو اعرابى رسول خدا کے پاس آىا ۔رسول خدا نے فرماىا کىا تم سىر هوگئے هو؟ اس نے کها مىں آپ پر فدا هوجاؤں بے نىاز هوگىا هوں۔
جناب عمار نے هار کو مشک سے معطر کىا اپنے غلام کو دىا اور عرض کىا اس هار کو لو اور رسول خدا کى خدمت مىں دو اور تم بھى آج سے رسول خدا کو بخش دیتا ہوں۔ غلام هار لے کر رسول خدا کى خدمت مىں آىا او رجناب عمار کى بات بتائى رسول خدا نے فرماىا ىه هار فاطمه کو دو اور تمہیں فاطمہ کو بخش دیتا ہوں۔ غلام هار لى کر حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کى خدمت مىں آىا اور آپ کو رسول خدا کى بات سے آگاه کىا ۔ حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا نے وه هار لىا اور غلام کو آزاد کردىا۔ غلام مسکرانے لگا ۔ حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا نے وجه پوچھى تو غلام نے کها مجھے اس هار کى برکت نےمسکرانے پر مجبور کیا جس کی برکت سے بھوکا سىر هوا اوربرھنہ کو لباس اور غلام آزاد هوگىا پھر بھی ىه هار اپنے مالک کے پاس پلٹ گىا۔۱۳۔
خلاصہ یہ کہ حضرت زہراؑ منصب امامت کے لحاظ سے تو اگرچہ پیغمبر گرامیﷺ کی جانشین نہیں تھیں لیکن وجودی کمالات اور منصب عصمت و طہارت کے لحاظ سے کوئی دوسری خاتون اولین و آخرین میں سے ان جیسی نہیں ہے۔ جناب سیدہ ؑ علمی ،عملی ،اخلاقی،اور تربیتی حوالے سے نمونہ عمل ہیں۔ انسان کی دینی و دنیاوی سعادت اس بات میں مضمر ہے کہ وہ ان ہستیوں سے متمسک رہے جنہیں اللہ نے "اسوہ حسنہ"قرار دیا ہے۔بنابرین حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا ہمارے لئے زندگی کے ہر شعبے میں نمونہ عمل اور قابل تقلید ہے ۔
{السّلام علیک أیّتها الصدّیقة الشهیدة الممنوعة إرثُها، المکسور ضلعها، المظلوم بعلها، المقتولِ وَلَدُها}
حوالہ جات:
۱۔حلیۃ الاولیاء ج2ص40۔
۲۔ المستدرک علی الصحیحین ، ج3 ص154
۳۔ انسان،9۔
۴۔ آل عمران،164۔
۵۔ فیروز آبادی، القاموس المحیط، بیروت، دارالکتاب العربیہ ، ۱۴۳۲ھ ،ص۴۳۹۔
۶۔ محمد بن مکرم ابن منظور،لسان العرب،بیروت: دارالفکر، ۱۴۱۴ق، ج۴ ، ص۳۸۹؛ فخرالدین محمد طریحی ، مجمع البحرین ، تہران:مرتضوی، ۱۳۷۵، ج۳، ص۳۴۰۔
۷۔ معجم مقاييس اللغه، ص378؛ لسان العرب، ج2، ص1420؛ مجمع البحرين، ج2، ص63؛ محمدمرتضي حسینی زبيدي، تاج العروس من جواهر القاموس، بیروت،دارالفکر، ۱۴۱۴ق ،چ اول ،ص459 و460.
۸۔مرتضیٰ مطہری، تعلیم و تربیت در اسلام ، تہران: صدرا، ، ۱۳۳۷ش۔ ، ص۴۳ ۔ ۔ مرتضیٰ
۹۔محمد داؤدی، سیرہ تربیتی پیامبر و اہل بیت ، تربیت دینی ، بی تا،ج ۲، ص۲۳۔
۱۰۔باقر مجلسی٬ مجلسی٬ بحار الانوار٬ مؤسسه الوفا بیروت٬ 1404ق٬ ج43 ٬ص59۔
۱۱۔قزوینی،محمد کاظم، مترجم الطاف حسین ٬فاطمه زهرا من المهدی الی الحد، قم٬ قزوینی فاونڈیشن ، 1980،ص343۔
۱۲۔ابراهیم امینی، ،اسلام کی مثالی خاتون،(مترجم،اخترعباس)،دارالثقافه اسلامیه ،1470 ھ، ص191۔
۱۳۔ مجلسی٬ محمد باقر٬ بحار الانوار٬ج43 فص56و57۔