دین اسلام
ظھور اسلام کے وقت عرب کے اکثر پیشوا بت پرست تھے لیکن ملک عرب کے گوشہ و کنار میں مذھبی رھبروں کی پیروی کرنے والے اور مختلف ادیان جیسے عیسائیت، یھودیت، حنفیت، مانوی اور صابئی وغیرہ بھی موجود تھے۔
ظھور اسلام کے وقت عرب کے اکثر پیشوا بت پرست تھے لیکن ملک عرب کے گوشہ و کنار میں مذھبی رھبروں کی پیروی کرنے والے اور مختلف ادیان جیسے عیسائیت، یھودیت، حنفیت، مانوی اور صابئی وغیرہ بھی موجود تھے۔
اس بناء پر عرب کے لوگ صرف ایک دین کی پیروی نہیں کرتے تھے اس کے علاوہ ہر ایک دین اور آئین، ابہام اور تیرگی سے خالی نہ تھا۔ اسی بنا پر ایک طرح کی سرگردانی اورحیرانگی ، ادیان کے سلسلے میں پائی جاتی تھی۔ ہم یہاں پر ہر ایک دین اور مذہب کے بارے میں مختصر توضیح دے رہے ہیں:
موحدینموحدین یا دین حنیف(۱) کے معتقد ایسے لوگ تھے جو مشرکین کے برخلاف بت پرستی سے بے زار، خداوند متعال اور قیامت کے عقاب و ثواب کا عقیدہ رکھتے تھے۔ ان میں سے کچھ عیسائیت کے ماننے والے تھے۔ لیکن بعض مورخین، ان کو بھی دین حنیف پر سمجھتے ہیں و رقہ بن نوفل، عبد اللہ بن حجش، عثمان بن حویرث، زید بن عمر بن نفیل(۲)، نابغۂ جعدی (قیس بن عبد اللہ) امیہ بن ابی ا لصلت، قس بن ساعدہ ، ابوقیس صرمہ بن ابی انس، زہیرابن ابی سلمیٰ، ابوعامر اوسی (عبد عمرو بن صیفی) عداس (عتبہ بن ربیعہ کا غلام) رئاب شنی او ربحیرہ راہب جیسے افراد کو بھی دین حنیف کے معتقدین میں سمجھا جاتا ہے۔(۳) ان میں سے بعض ،حکماء یا مشہو رشعراء تھے۔
البتہ وحدانیت کی طرف رحجان کا سبب ان کی پاک فطرت او رروشن فکر اوراس زمانے کے رائج ادیان کی بے رونکی اور اس سماج میں پائے جانے والے مذہبی خلا میں تلاش کرنا چاہیئے۔ یہ لوگ اپنی پاک فطرت کے ذریعہ خلاق عالم، مدبر جہاں کے معتقد تھے او رعقل و خرد سے دور ایک پست آئین جیسے بت پرستی کو قبول نہیں کر سکتے تھے۔ اور یہودی مذہب بھی صدیاں گزر جانے کے بعد اپنی حقیقت اور معنویت کو کھو بیٹھا تھا۔ اور روشن فکر افراد کے اندر پائی جانے والی بے چینی کو اطمینان اور سکون میں نہیں بدل سکتے تھے اسی بنا پر بعض الوہیت کے متلاشی افراد کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ آئین حق کی تلاش میں وہ اپنے اوپر سفر کی صعوبتوں اور پریشانیوں کو روا جانتے ہوئے مسیحی اور یہودی علماء اور دوسرے آگاہ لوگوں سے بحث اور گفتگو کیا کرتے تھے۔(۴) اور پیغمبر(ص) اسلام کی بعثت کی نشانیوں کے سلسلے میں آسمانی کتابوں میں جواشارے ملتے ہیں ان کے بارے میں تحقیق کرتے تھے اور چونکہ معمولاًکسی نتیجہ تک نہیں پہنچتے تھے لہٰذا اصل وحدانیت کو قبول کرتے تھے۔ بہرحال وہ اپنی مذہبی عبادتوں اور رسومات کو کس طرح انجام دیتے، یہ ہمارے لئے واضح نہیں ہے۔
اس نکتہ کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ دین حنیف کے پیرو کار، بعض لوگوں کے خیال کے برخلاف ہدایت اور عرب سماج کی تبدیلی میں توحید کے مسئلہ میں کوئی رول نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ جیسا کہ مورخین نے صراحت کی ہے کہ وہ لوگ تنہائی اور انفرادی شکل میں زندگی بسر کرتے تھے اور غور و فکر میں لگے رہتے تھے اور کبھی بھی ایک گروہ یا ایک منظم فرقہ کی شکل میں نہیں تھے اور ان کے پاس کوئی ایسا دین و آئین نہیں تھا جس میں ثابت اور معیّن احکام بیان کئے گئے ہوں۔ ان لوگوں نے آپس میں طے کر رکھا تھا کہ لوگوں کے اجتماعی مراکز سے دور رہیں اور بتوں کی پرستش سے بچیں اس قسم کے لوگ اپنی جگہ پر مطمئن تھے ا ور خیال کرتے تھے کہ ان کی قوم والوں کے عقائد باطل ہیں اور اپنے کو تبلیغ و دعوت کی زحمت میں مبتلا کرنے کے بجائے صرف اپنے نظریات کا اظہار کرتے تھے۔ اور اپنی قوم والوں سے ان کے تعلقات ٹھیک ٹھاک تھے ان کے درمیان کسی قسم کا ٹکراؤ نہیں رہتا تھا۔(۵)
حوالہ جات:
(۱) حنیف (جس کی جمع حنفاء ہے) اس شخص کو کہتے ہیں جودین ابراہیمؑکا پیرو ہو (طبرسی، مجمع البیان، شرکۃ المعارف، ج۱، ص ۲۱۶.)
(۲) محمد بن حبیب، (المحبر (بیروت: دار الافاق الجدیدہ)، ص ۱۷۱.
(۳) مسعودی، مروج الذہب، ترجمہ: ابو القاسم پایندہ (تہران: ادارۂ ترجمہ و نشر کتاب، ط۲، ۱۳۵۶)، ج۱، ص ۶۸۔ ۶۰؛ ابن ہشام، سیرۃ النبی، تحقیق: مصطفی السقاء و معاونین، (قاہرہ: مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی، ۱۳۵۵ھ.ق)، ج۱، ص ۲۳۷؛ ابن کثیر، السیرۃ النبویہ، تحقیق: مصطفی عبد الواحد (قاہرہ: مطبعۃ عیسی البابی الحبی، ۱۳۸۴ھ.ق)، ج۱، ص ۱۶۵۔ ۱۲۲؛ محمد بن اسحاق، السیر و المغازی، تحقیق: ڈاکٹر سہیل زکار (بیروت: دار الفکر، ط۲، ۱۴۱۰ھ.ق)، ص۱۱۶۔ ۱۱۵؛ محمد بن حبیب بغدای، المنمق فی اخبار قریش، تحقیق: خورشید احمد فارق (بیروت: عالم الکتب، ط۱، ۱۴۰۵ھ.ق)، ص ۱۹۔ ۱۳۔
(۴) ابن کثیر، گزشتہ حوالہ، ص ۱۵۶؛ محمد ابوالفضل ابراہیم (اور معاونین)، قصص العرب، (قاہرہ: دار احیاء الکتب العربیہ،ط۵)، (قم: آفسیٹ منشورات الرضی، ۱۳۶۴)، ج۱، ص۷۲۔
(۵) جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب، قبل الاسلام (بیروت: دار العلم للملایین، ط۱، ۱۹۶۸ء)،ج۶، ص ۴۴۹؛ حسینی طباطبایی، خیانت در گزارش تاریخ (تہران: انتشارات چاپخش، ۱۳۶۶ش)، ج۱، ص۱۲۰؛ ابن ہشام، سیرۃ النبی، ج۱، ص ۲۳۷۔