• صارفین کی تعداد :
  • 2545
  • 2/9/2018 7:00:00 PM
  • تاريخ :

انقلاب اسلامی ایران کا سب سے بڑا کارنامہ

انقلاب اسلامی ایران اور اسکے بانی نے اس انقلاب اور اس انقلابی نظریئے کو صرف ایران تک محدود نہیں سمجھا کیونکہ مسئلہ دنیا کے ستم رسیدہ و پابرہنہ انسانوں کی ظلم و ستم سے نجات کا ہے اور اس کیلئے دنیا کے کمزور، محروم و مظلوم انسانوں کو اگر کوئی ایک ریاست ڈھارس دینے کی پابند بنائی گئی ہے تو وہ ایران ہے، کیونکہ وہ نظریہ مہدویت کے پیروکار انقلابی مومنین کی آئینی و قانونی ریاست ہے۔ یہ ریاست محض آئینی تبدیلی و ولی عصر کے تذکرے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسے معاشرے کے قیام کے ارتقائی سفر کو طے کر رہی ہے کہ جو مدینۃ النبی ﷺ کے تازہ ترین ورژن یعنی مدینۃ المھدی (عج) کی منزل تک پہنچے گا۔

 
انقلاب اسلامی ایران کا سب سے بڑا کارنامہ

تحریر: عرفان علی
ایران کے اسلامی انقلاب کی انتالیسویں سالگرہ کے موقع پر اس انقلاب کے حامی یقیناً انقلاب سے متعلق ایسے حقائق کی تلاش میں ہوں گے کہ جو ان سے پوشیدہ رہ گئے ہوں۔ یہ حقیر خود بھی اس انقلاب کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیتے رہنے اور اس کے مختلف پہلوؤں پر بسا اوقات تازہ نگاہ ڈالتے رہنے کا قائل ہے۔ ماہنامہ منتظر سحر کے لئے قلمی ناموں سے جو مقالے لکھے، انہی میں سے ایک بانی انقلاب اسلامی ایران امام خمینی پر تھا، جس کا عنوان ’’امام زمانہ کی عبوری حکومت کے بانی‘‘ رکھا تھا۔ غالباً سال 2003ء جون کا شمارہ تھا، جس میں وہ مقالہ شائع ہوا۔ آج پندرہ برس بعد جب انقلاب اسلامی ایران کے کارناموں پر سوچا تو یاد آیا کہ اس انقلاب کا سب سے بڑا کارنامہ یہی تھا کہ اس نے دنیا کے ستم رسیدہ انسانوں کو، ایسے انسان کہ جو ایک نجات دہندہ کے منتظر تھے، یعنی پوری عالم انسانیت ہی کو امام زمانہ کی عبوری حکومت کے دور میں داخل کر دیا تھا، یعنی عصر انتظار سے عصر ظہور کا سفر۔ بظاہر اس انقلاب نے ایران میں سیاسی نظام کو پلٹ کر رکھ دیا تھا، لیکن درحقیقت اس انقلاب نے پوری دنیا کی کایا پلٹ دی تھی۔ دیکھا جائے تو انقلاب نے منتظرین کا تذبذب ختم کر دیا۔ اس انقلاب نے ایران کے آئین میں واضح الفاظ میں لکھا کہ ’’ولی عصر کی غیبت میں‘‘ حکومت و رہبری کا نظام یوں ہوگا۔ ولی عصر یعنی امام مہدی (عج) یعنی منجی عالم بشریت، یعنی دنیا کے نجات دہندہ، یعنی دکھی انسانیت جس کا انتظار کر رہی ہے، وہ مسیحا! سوائے ایران کے دنیا کے کسی ملک کے آئین میں امام مہدی، مسیحا، عالم انسانیت کے نجات دہندہ کا تذکرہ شامل نہیں کیا گیا۔ البتہ انقلاب اسلامی نے ایران کو دنیا کے نقشے پر موجود ایک سو نوے سے زائد ممالک میں وہ یکتا و منفرد ملک بنا دیا کہ جس نے منجی عالم بشریت کے منتظرین کے لئے ایک نظیر قائم کر دی کہ کم از کم ایک ملک دنیا میں ایسا ہے کہ جو ستم رسیدہ انسانوں کے حقیقی آقا و مولا کے الٰہی، آئینی و قانونی حق حکمرانی پر ایمان رکھتا ہے۔

اس انقلاب سے پہلے دنیا کے ستم رسیدہ انسانوں کی اکثریت متذبذب اور بے عمل منتظرین پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اللہ تبارک تعالٰی کے جس ولی کامل، مرکزی و واقعی حجت کہ جس کا وعدہ آسمانی صحیفوں میں درج تھا، کہ جس کی پیشن گوئی خود پیامبر اعظم و صادق ﷺ نے کی تھی اور جس پر نہ صرف سنی، شیعہ مسلمانوں کا بلکہ دیگر ادیان و مذاہب کا بھی ایمان تھا، اس عظیم الٰہی ہستی کے پردہ غیب میں ہونے کے دوران یہ ستم رسیدہ انسان نہ صرف ایک ریاست اور رہبر و قائد سے محروم تھے، بلکہ وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ اپنی ریاست میں اس عظیم ہستی کو رسمی طور مرکزیت مان لیں۔ ایران کے انقلاب اسلامی نے دنیا کے بے عمل اور متذبذب منتظرین کو خبردار کیا کہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بے عملی کی چادر تان لینا، مایوس ہو جانا، یہ مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ اس مرکزی اور واقعی الٰہی حجت کی عالمی حکومت کے ظہور کے لئے راہ ہموار کرنا ناگزیر ہے اور ایسا کرنا ایک قابل عمل کام ہے، یہ ناقابل عمل یا ناممکن نہیں ہے۔ یوں اس انقلاب نے منتظرین کو عصر انتظار سے عصر ظہور میں داخل کر دیا۔ ذرا غور سے اس حجت واقعی و مرکزی کے نائب یعنی بانی انقلاب اسلامی امام خمینی کی وصیت کا پہلا جملہ پڑھیں۔ ان کے مطابق:’’اس عظیم الشان اسلامی انقلاب کی جو لاکھوں ذی قدر انسانوں، ہزاروں زندہ و جاوید شہیدوں اور زندہ شہیدوں (یعنی جانبازوں) کی زحمتوں کا ثمرہ ہے اور دنیا کے کروڑوں مسلمانوں اور دنیا کے مستضعفین کی امیدوں کا مرکز ہے، اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ اس کا حق ادا کرنا زبان و قلم کے دائرے سے باہر ہے۔‘‘ امام زمانہ کے اس عظیم نائب، عالمی سیاست کے بت شکن خمینی نے اسی وصیت نامے میں واضح طور پر فرمایا:’’آج بالخصوص ایرانی عوام اور بالعموم تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس امانت الٰہی کی، جس کا ایران نے سرکاری طور پر اعلان کیا ہے، اپنی توانائی کے بقدر حفاظت کریں اور اس کی بقا کی فکر کریں۔" امام خمینی نے اس وصیت نامے کے پیش لفظ میں واضح کر دیا کہ ان کی سیاسی و الٰہی وصیت صرف ایرانیوں کے لئے نہیں ’’بلکہ یہ تمام اسلامی قوموں اور دنیا کے ہر مذہب و ملت کے مظلوموں کے لئے ہے۔‘‘ انہوں نے پیش لفظ میں انسانیت کے نجات دہندہ حضرت مہدی صاحب الزمان (عج) کا تذکرہ بھی کیا ہے ’’جو قادر مطلق کی قدرت سے زندہ اور ہمارے امور کے شاہد و نگراں ہیں۔‘‘ یہ الفاظ انقلاب اسلامی کی اصل ماہیت کو آشکار کر رہے ہیں کہ یہ انقلاب محض ایران کا داخلی معاملہ نہیں بلکہ امام زمانہ اور مظلوموں سے متعلق بھی ہے اور اس کی بقا و حفاظت کی ذمے داری ایرانیوں کے ساتھ ساتھ سارے مسلمانوں کی ہے!

قصہ مختصر یہ کہ انقلاب اسلامی ایران اور اس کے بانی نے اس انقلاب اور اس انقلابی نظریئے کو صرف ایران تک محدود نہیں سمجھا کیونکہ مسئلہ دنیا کے ستم رسیدہ و پابرہنہ انسانوں کی ظلم و ستم سے نجات کا ہے اور اس کے لئے دنیا کے کمزور، محروم و مظلوم انسانوں کو اگر کوئی ایک ریاست ڈھارس دینے کی پابند بنائی گئی ہے تو وہ ایران ہے، کیونکہ وہ نظریہ مہدویت کے پیروکار انقلابی مومنین کی آئینی و قانونی ریاست ہے۔ یہ ریاست محض آئینی تبدیلی و ولی عصر کے تذکرے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسے معاشرے کے قیام کے ارتقائی سفر کو طے کر رہی ہے کہ جو مدینۃ النبی ﷺ کے تازہ ترین ورژن یعنی مدینۃ المھدی (عج) کی منزل تک پہنچے گا۔ اجتماعی عدل (سماجی عادلانہ مساوات) پر مبنی نیک انسانوں کا معاشرہ۔ انقلاب اسلامی ایران نے دنیا کو ایسے آدرشوں سے مانوس کر دیا ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہ تھا اور نہ ہی اس راہ پر یہ طویل سفر بلا رکاوٹ کیا جا رہا ہے۔ انقلابیوں کی راہ میں خار ہی خار بچھائے گئے ہیں، انہیں ہر ممکن طریقے سے ڈرایا، دھمکایا گیا ہے، بھوک و خوف (اقتصادی پابندیوں اور جنگوں) کے ذریعے ان کی حرکت روکی گئی، لیکن اقتصادی پابندی کے بم کا دھماکہ ہو یا جنگوں کے اسلحوں کی تباہ کاریاں، یہ انقلاب تو خود نوری دھماکے کے ساتھ وقوع پذیر ہوا ہے، اس لئے اس انقلاب نے ساری رکاوٹیں عبور کرکے سفر جاری رکھا اور اپنے اطراف میں اپنی سرحدوں سے باہر بھی ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ اس انقلاب کے عظیم کارناموں میں ایک یہ بھی ہے کہ اس نے دنیا کی ستم رسیدہ اور کمزور و مقروض اقوام کو خود انحصاری کی تعلیم دی ہے، اس نے خدا پر توکل اور خودی پر اعتماد کے ذریعے نہ صرف ایرانیوں کی عزت نفس و غیرت و حمیت ملی کو جلا بخشی ہے بلکہ لبنان و فلسطین کی جعلی ریاست اسرائیل سے آزادی کی قومی مزاحمتی تحریک کو بھی نئی زندگی عطا کی ہے۔ اس انقلاب کا بانی روح اللہ موسوی خمینی، یعنی اسم باسمیٰ کہ شہنشاہیت کے ظلم و تشدد کی شکار ملت ایران اور مسلمانان عالم و عرب اقوام کے تن مردہ میں نئی روح پھونک دی کہ یہ کام روح اللہ ہی کرسکتا ہے، بنی اسرائیل کا بکھرا ریوڑ بنی اس نام نہاد امت کو حقیقی معنوں میں ایک امت کی حیثیت سے صف آراء کر دیا کہ یہ موسوی کام تھا اور انقلاب اسلامی ایران نے اسلام، امام اور امت پر مشتمل انقلابی مثلث کو جنم دیا، جس کے تحت نظام کفر جہانی کے بڑے بڑے بتوں یعنی عالمی سیاست کے لات و منات و عزیٰ و ھبل کو بت شکن خمینی نے سنت ابراہیمی ؑ میں توڑ کر دکھایا!

اسلامی انقلاب کے بعد سے ایران رسمی طور امام زمانہ کی مملکت ہے۔ انقلاب کے بعد ایران پر توحیدی رنگ چھا گیا ہے، یعنی ایران کی امت صرف امت حزب اللہ ہی نہیں ہے بلکہ صبغت اللہی بھی ہے۔ ایران، دعائے کمیل، دعائے ابو حمزہ ثمالی، دعائے عرفہ، مناجات امیرالمومنین، مناجات شعبانیہ کے نوری رنگ میں رنگ چکا ہے۔ ایران کی اس نرم طاقت (سافٹ پاور) کا کوئی جواب نہیں ہے اور یہ رنگ اب دیگر ممالک تک برآمد ہوچکا ہے۔ آج اگر ایران کی فضاؤں سے علی فانی، استاد علی اکبر لطیفیان کے اشعار کے ذریعے منجی عالم بشریت کی خدمت میں غم ہجراں کی شکایت کرتا ہے کہ ’’از کریمان، فقرا جود و کرم می خواھند، لطف بسیار طلبگار شدن، ھم دارد‘‘ تو ایران سے ہزاروں کلومیٹر دور مجھ جیسے گناہگار کی بھی آنکھ بھر آتی ہے، کیونکہ مجھ جیسوں کے لئے بھی تو اس نظم میں ایک شعر ہے کہ ’’ما اسیریم، اسیر غم دنیا ھستیم ،،، غفلت از یار، گرفتار شدن ہم دارد!‘‘ ہر جمعہ کی صبح جب پورا ایران عالم انسانیت کے اس یگانہ دلدار کی یاد میں "این معز الاولیاء و مذل الاعداء" کی فریاد سے گونج رہا ہوتا ہے اور یہ منظر ایران کے سرکاری ٹی وی پر براہ راست نشر ہو رہا ہوتا ہے تو دنیا کو یہ پیغام جاتا ہے کہ اس مملکت کا ایک صاحب ہے، وہی کہ جس کی غیبت میں اس کے نائب عمومی کو مرکزی نائب تسلیم کر لیا گیا ہے، جو کہ عبوری سیٹ اپ ہے۔ ورنہ اصل اختیار اور صاحب حکومت تو وہی ہے۔ اسلامی انقلاب کے بعد کا ایران امام زمانہ کے حقیقی عاشقوں کی ایسی سرزمین بن چکا ہے کہ جو صرف ایرانیوں کی نہیں بلکہ دنیا کے ہر کمزور و مستضعف کی اور خاص طور پر مومن، مسلم کی سرنوشت لکھ رہا ہے۔ میں اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتا کیونکہ میرا حال و مستقبل خلیفۃ اللہ الاعظم فی الارض سے جڑا ہوا ہے اور انقلابی ایران دنیا کے اس نجات دہندہ کو اپنا حقیقی سربراہ مملکت تسلیم کرنے والا دنیا کا پہلا اور اب تک واحد ملک ہے! کیا اس سے بڑھ کر بھی اس کائنات میں کوئی کارنامہ ہوسکتا ہے؟!
{اسلام ٹائمز}