کس طرح بغیر دیکھے خدا پر ایمان لائیں؟
خدا پرستوں پر مادیوں کا ایک بیھودہ اعتراض یہ ھوتا ہے کہ ''انسان کس طرح ایک ایسی چیز پر ایمان لے آئے جس کو اس نے اپنی آنکھ سے نہ دیکھا ھو یا اپنے حواس سے درک نہ کیا ھو
خدا پرستوں پر مادیوں کا ایک بیھودہ اعتراض یہ ھوتا ہے کہ ''انسان کس طرح ایک ایسی چیز پر ایمان لے آئے جس کو اس نے اپنی آنکھ سے نہ دیکھا ھو یا اپنے حواس سے درک نہ کیا ھو، تم کھتے ھو کہ خدا کا نہ جسم ہے اور نہ اس کے رھنے کے لئے کوئی جگہ، نہ زمان درکار ہے اور نہ کوئی رنگ و بووغیرہ تو ایسے وجود کو کس طرح درک کیا جاسکتا ہے اور کس ذریعہ سے پھچانا جاسکتا ہے؟ لھٰذا ھم تو صرف اسی چیز پر ایمان لاسکتے ہیں کہ جس کو اپنے حواس کے ذریعہ درک کرسکیں اور جس چیز کو ھماری عقل درک نہ کرسکے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ در حقیقت اس کا کوئی وجود ھی نھیں ہے''۔
جواب :اس اعتراض کے جواب میں مختلف پھلوئوں سے بحث کی جاسکتی ہے:
١۔ معرفت خدا کے سلسلہ میں مادیوں کی مخالفت کے اسباب :
ان کا علمی غرور اور ان کا تمام حقائق پر سائنس کو فوقیت دینا ، اور اسی طرح ھر چیز کو سمجھنے اور پرکھنے کا معیار صرف تجربہ اور مشاھدہ قرار دینا ہے، نیز اس بات کا قائل ھونا کہ طبیعی اور مادی چیزوں کے ذریعہ ھی کسی چیز کو درک کیا جاسکتا ہے، (یہ سخت بھول ہے﴾۔
کیونکہ ھم اس مقام پر ان لوگوں سے سوال کرتے ہیں کہ سائنس کے سمجھنے اور پرکھنے کی کوئی حد ہے یا نھیں؟!
واضح ہے کہ اس سوال کا جواب مثبت ہے کیونکہ سائنس کے حدود دوسری موجودات کی طرح محدود ہیں ۔
تو پھر کس طرح لامحدود موجود کو طبیعی چیزوں کے ذریعہ درک کیا جاسکتا ہے؟۔
لھذا بنیادی طور پر خداوندعالم، اور موجودات ماورائے طبیعت ،سائنس کی رسائی سے باھر ہیں، اورجو چیزیں ماورائے طبیعت ھوں ان کو سائنس کے آلات کے ذریعہ درک نھیں کیا جاسکتا، ''ماورائے طبیعت ''سے خود ظاھر ھوتا ہے کہ سائنس کے ذریعہ ان کو درک نھیں کیا جاسکتا، جیسا کہ سائنس کے مختلف شعبوں میں سے ھر شعبہ کے لئے ایک الگ میزان و مقیاس ھوتا ہے جس سے دوسرے شعبہ میں کام نھیں لیا جاسکتا، نجوم شناسی، فضا شناسی اور جراثیم شناسی میں ریسرچ کے اسباب ایک دوسرے سے بھت مختلف ھوتے ہیں ۔
کبھی بھی ایک مادی ماھر اس بات کی اجازت نھیں دے گا کہ ایک منجم سے کھا جائے کہ فلاں جرثومہ کو ستارہ شناسی وسائل کے ذریعہ ثابت کرو، اسی طرح ایک جراثیم شناس ماھر سے اس بات کی امید نھیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے آلات کے ذریعہ ستاروں کے بارے میں خبر دے ، کیونکہ ھر شخص اپنے علم کے لحاظ سے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرسکتا ہے، اور اپنے دائرے سے باھر نکل کر کسی چیز کے بارے میں ''مثبت'' یا ''منفی'' نظریہ نھیں دے سکتا۔
لھذا ھم کس طرح سائنس کو اس بات کا حق دے سکتے ہیں کہ وہ اپنے دائرے سے باھر بحث و گفتگو کرے ، حالانکہ اس کے دائرے کی حد عالم طبیعت اور اس کے آثار و خواص ہیں؟!
ایک مادی ماھر کو یہ حق ہے کہ وہ یہ کھے کہ میں ''ماورائے طبیعت'' کے سلسلہ میں خاموش ھوں، کیونکہ یہ میرے دائرے سے باھر کی بات ہے، نہ یہ کہ وہ ماورائے طبیعت کا انکار کرڈالے، یہ حق اس کو نھیں دیا جاسکتا۔
جیسا کہ اصولِ فلسفۂ حسی کا بانی '' اگسٹ کانٹ'' اپنی کتاب ' امور حسیہ کے بارے میں گفتگو'' میں کھتا ہے:''چونکہ ھم موجودات کے آغاز و انجام سے بے خبر ہیں لھذا اپنے زمانہ سے پھلے یا اپنے زمانہ کے بعد آنے والی موجودات کا انکار نھیں کرسکتے، جس طرح سے ان کو ثابت بھی نھیں کرسکتے (غور کیجئے گا﴾۔
خلاصہ یہ کہ حسی فلسفہ ، جھل مطلق کے ذریعہ کسی بھی طرح کا نظریہ نھیں دیتا، لھذا حسی فلسفہ کے فرعی علوم کو بھی موجوات کے آغاز اور انجام کے سلسلہ میں کوئی فیصلہ نھیں کرنا چاھئے ، یعنی ھم خدا کے علم و حکمت ، اوراس کے وجود کا انکار نہ کریں اور اس کے بارے میں نفی و اثبات کے سلسلہ میں بے طرف رھیں ،(نہ انکار کریں اور نہ اثبات﴾ ''
ھمارے کھنے کا مقصد بھی یھی ہے کہ ''ماورائے طبیعت'' دنیا کو سائنس کی نگاھوں سے نھیں دیکھا جاسکتا، اصولی طور پر وہ خدا جس کو مادی اسباب کے ذریعہ ثابت کیا جائے خدا نھیں ھوسکتا۔
دنیا بھر کے خدا پرستوں کے عقائد کی بنیاد یہ ہے کہ خدا ،مادہ اور مادہ کی خاصیت سے پاک و منزہ ہے، اور اسے کسی بھی مادی وسیلہ سے درک نھیں کیا جاسکتا۔
لھذا یہ نھیں سوچنا چاھئے کہ اس دنیا کو خلق کرنے والے کو آسمان کی گھرائیوں میں میکروسکوپ (Microscope) یا ٹلسکوپ کے ذریعہ تلاش کیا جاسکتا ہے، یہ خیال بیھودہ اور بیجا ہے۔
٢۔ اس کی نشانیاں
دنیا کی ھر چیز کی پھچان کے لئے کچھ آثار اور نشانیاں ھوتی ہیں ، لھذا اس کی نشانیوں کے ذریعہ ھی اس کو پھچانا جاسکتا ہے، یھاں تک کہ آنکھوں اور دوسرے حواس کے ذریعہ جن چیزوں کو درک کرتے ہیں در حقیقت ان کو بھی آثار اور نشانیوں کے ذریعہ ھی پھچانتے ہیں، (غور کیجئے ﴾
کیونکہ کوئی بھی چیز ھمارے فکر و خیال میں داخل نھیں ھوسکتی اور ھمارا مغز کسی بھی چیز کے لئے ظرف واقع نھیں ھوسکتا۔
مثال کے طور پر: اگر آپ آنکھوں کے ذریعہ کسی جسم کو تشخیص دینا چاھیں اور اس کے وجود کو درک کرنا چاھیں تو شروع میں اس چیز کی طرف دیکھیں گے اس کے بعد نور کی شعائیں اس پر پڑتی ہیں اور آنکھ کی پتلی میں نورانی لھریں ''شبکیہ'' نامی آنکھ کے پردہ پر منعکس ھوتی ہیں تو بینائی اعصاب نور کو حاصل کرکے مغز تک پھنچاتے ہیں اور پھر انسان اس کو سمجھ لیتا ہے۔
اور اگر لمس کے ذریعہ(یعنی چھوکر) کسی چیز کو درک کریں تو کھال کے نیچے کے اعصاب انسان کے مغز تک اطلاع پھنچاتے ہیں اور انسان اس کو درک کرتا ہے، لھذا کسی جسم کو درک کرنا اس کے اثر (رنگ، آواز اور لمس وغیرہ ) کے ذریعہ ھی ممکن ہے اور کبھی بھی وہ جسم ھمارے مغز میں قرار نھیں پاتا، اور اگر اس کا کوئی رنگ نہ ھو اور اعصاب کے ذریعہ اس کا ادراک نہ کیا جاسکتا ھو تو ھم اس چیز کو بالکل نھیں پھچان سکتے۔
مزید یہ کہ کسی چیز کی پھچان کے لئے ایک اثر یا ایک نشانی کا ھونا کافی ہے، مثلاً اگر ھمیں یہ معلوم کرنا ھوکہ دس ھزار سال پھلے زمین کے فلاں حصہ میں ایک آبادی تھی اور اس کے حالات اس طرح تھے، تو صرف وھاں سے ایک مٹی کا کوزہ یا زنگ زدہ اسلحہ برآمد ھونا کافی ہے، اور اسی ایک چیز پر ریسرچ کے ذریعہ ان کی زندگی کے حالات کے بارے میں معلومات حاصل ھوجائیں گی۔
اس بات کے پیش نظر ھر موجود چاھے وہ مادی ھو یا غیر مادی اس کو اثر یا نشانی کے ذریعہ ھی پھچانا جاتا ہے اور یہ کہ ھر چیز کی پھچان کے لئے ایک اثر یا نشانی کا ھونا کافی ہے، تو کیا پوری دنیا میں عجیب و غریب اور اسرار آمیز چیزوں کو دیکھنا خدا کی شناخت اور اس کی معرفت کے لئے کافی نھیں ہے؟!
آپ کسی چیز کو پھچاننے کے لئے ایک اثر پر کفایت کرلیتے ہیں اور ایک مٹی کے کوزہ کے ذریعہ چند ھزار سال پھلے زندگی بسر کرنے والوں کے بعض حالات کا پتہ لگاسکتے ہیں، جبکہ خدا کی شناخت کے لئے ھمارے پاس لاتعداد آثار، لاتعداد موجودات اور بے انتھا نشانیاں موجود ہیں کیا اتنے آثار کافی نھیں ہیں؟! دنیا کے کسی بھی گوشہ پر نظر ڈالیں خدا کی قدرت اور اس کے علم کی نشانیاں ھر جگہ موجود ہیں، پھر بھی لوگ کھتے ہیں کہ ھم نے اپنی آنکھوں سے نھیں دیکھا اور اپنے کانوں سے نھیں سنا، تجربہ اور ٹلسکوپ کے ذریعہ نھیں دیکھ سکے، توکیا ھر چیز کو صرف آنکھوں سے دیکھا جاتاہے؟!
٣۔ دیکھنے اور نہ دیکھنے والی چیزیں:
خوش قسمتی سے آج سائنس نے ترقی کر کے بھت سی ایسی چیزیں بناڈالی ہیں کہ ان کے وجود سے مادیت اور اس کے نتیجہ میں مادی اور الحادی نظریہ کی تردید ھوجاتی ہے، قدیم زمانہ میں تو ایک دانشور یہ کہہ سکتا تھا کہ جس چیز کو انسانی حواس درک نھیں کرسکتے اس کوقبول نھیں کیا جاسکتا، لیکن آج سائنس کی ترقی سے یہ بات ثابت ھوچکی ہے: اس دنیا میں دیکھی جانے والی اور درک ھونے والی چیزوں سے زیادہ وہ چیزیں ہیں جن کو دیکھا اوردرک نھیں کیا جاسکتا، عالم طبیعت میں اس قدر موجودات ہیں کہ انھیں حواس میں سے کسی کے بھی ذریعہ درک نھیں کیا جاسکتا، اور ان کے مقابلہ میں درک ھونے والی چیزیں صفر شمار ھوتی ہیں!
نمونہ کے طور پر چند چیزیں آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:
١۔ علم فیزکس کھتا ہے کہ رنگوں کی سات قسموں سے زیادہ نھیں ہیں جن میں سے پھلا سرخ اور آخری جامنی ہے، لیکن ان کے ماوراء ھزاروں رنگ پائے جاتے ہیں جن کو ھم درک نھیں کرسکتے، اور یہ گمان کیا جاتا ہے کہ بعض حیوانات ان بعض رنگوں کو دیکھتے ہیں۔
اس کی وجہ بھی واضح اور روشن ہے ، کیونکہ نور کی لھروں کے ذریعہ رنگ پیدا ھوتے ہیں، یعنی آفتاب کا نور دوسرے رنگوں سے مرکب ھوکر سفید رنگ کو تشکیل دیتا ہے اور جب جسم پر پڑتا ہے تو وہ جسم مختلف رنگوں کو ھضم کرلیتا ہے اور بعض کو واپس کرتا ہے جن کو واپس کرتا ہے وہ وھی رنگ ھوتا ہے جس کو ھم دیکھتے ہیں، لھذا اندھیرے میں جسم کا کوئی رنگ نھیں ھوتا، دوسری طرف نور کی موجوں کی لھروں کی شدت اور ضعف کی وجہ سے رنگوں میں اختلاف پیدا ھوتا ہے اور رنگ بدلتے رھتے ہیں، یعنی اگر نور کی لھروں کی شدت فی سیکنڈ٤٥٨ ھزار ملیارڈ تک پھنچ جائے تو سرخ رنگ بنتا ہے اور ٧٢٧ ھزار ملیارڈ لھروں کے ساتھ جامنی رنگ دکھائی دیتا ہے ، اس سے زیادہ لھروں یا کم لھروں میں بھت سے رنگ ھوتے ہیں جن کو ھم نھیں دیکھ پاتے ۔
٢۔ آواز کی موجیں ١٦مرتبہ فی سیکنڈ سے لے کر ٢٠٠٠٠ مرتبہ فی سیکنڈ تک ھمارے لئے قابل فھم ہیں اگر اس سے کم یا زیادہ ھوجائے تو ھم اس آواز کو نھیں سن سکتے۔
٣۔ امواجِ نور کی جن لھروں کو ھم درک کرسکتے ہیں انھیں٤٥٨ ھزار ملیارڈ فی سیکنڈ سے ٧٢٧ ھزار ملیارڈ فی سیکنڈ تک کی حدود میں ھونا چاھئے اس سے کم یا زیادہ چاھے فضا میں کتنی ھی موجیں موجود ھوں ھم ان کو درک نھیں کرسکتے۔
٤۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے جانداروں (وائرس اور بیکٹریز) کی تعداد انسان کی تعداد سے کھیں زیادہ ہیں، اور بغیر کسی دوربین کے دیکھے نھیں جاسکتے ، اور شاید اس کے علاوہ بھت سے ایسے چھوٹے جاندار پائے جاتے ہیں جن کو سائنس کی بڑی بڑی دوربینوں کے ذریعہ ابھی تک نہ دیکھا گیا ھو۔
٥۔ ایک ایٹم اور اس کی مخصوص باڈی اور الکٹرون کی گردش نیز پروٹن کے ذریعہ ایک ایسی عظیم طاقت ھوتی ہے جو کسی بھی حس کے ذریعہ قابل درک نھیں ہے، حالانکہ دنیاکی ھر چیز ایٹم سے بنتی ہے، اور ھوا میں بمشکل دکھائی دینے والے ایک ذرہ غبار میں لاکھوں ایٹم پائے جاتے ہیں۔
گزشتہ دانشوروں نے جو کچھ ایٹم کے بارے میں نظریہ پیش کیا تھا وہ صرف تھیوری کی حد تک تھا لیکن کسی نے بھی ان کی باتوں کو نھیں جھٹلایا۔(١﴾
لھذا اگر کوئی چیز غیر محسوس ہے تو یہ اس کے نہ ھونے پر دلیل نھیں ہے، آپ دیکھئے دنیا میں ایسی بھت سی چیزیں بھری پڑی ہیں جو غیر محسوس ہیں جن کو ھمارے حواس درک نھیں کرسکتے!
جیسا کہ ایٹم کے کشف سے پھلے یا ذرہ بینی (چھوٹی چھوٹی چیزوں) کے کشف سے پھلے کسی کو اس بات کا حق نھیں تھا کہ ان کا انکار کرے، اور ممکن ہے کہ بھت سی چیزیں ھمارے لحاظ سے مخفی ھوں اور ابھی تک سائنس نے ان کو کشف نہ کیا ھو بلکہ بعد میں کشف ھوں تو ایسی صورت میں ھماری عقل اس بات کی اجازت نھیں دیتی کہ ان شرائط (علم کا محدود ھونا اور مختلف چیزوں کے درک سے عاجز ھونے) کے تحت ھم ان چیزوں کے بارے میں نظریہ پیش کریں کہ وہ چیزیں ہیں یا نھیں ہیں۔
خلاصہ یہ کہ ھمارے حواس اور دوسرے وسائل کا دائرہ محدود ہے لھذا ان کے ذریعہ ھم عالَم کو بھی محدود مانیں۔(۲﴾ انھیں چیزوں میں سے ھوا بھی ہے جوھمہ وقت ھمارے چاروں طرف موجود رھتی ہے اوراس قدر وزنی ہے کہ ھر انسان ١٦ ھزار کلوگرام کے برابر اس کو برداشت کرسکتا ہے، اور ھمیشہ عجیب و غریب دبائو میں رھتا ہے البتہ چونکہ یہ دباو (اس کے اندرونی دباو کی وجہ سے) ختم ھوتا رھتا ہے لھذا اس دباو کا ھم پر کوئی اثر نھیں پڑتا، جبکہ کوئی بھی انسان یہ تصور نھیں کرتا کہ ھوا اس قدر وزنی ہے، ''گلیلیو'' اور ''پاسکال'' سے پھلے کسی کو ھوا کے وزن کا علم نھیں تھا، اور اب جبکہ سائنس نے اس کے وزن کی صحت کی گواھی دے دی پھر بھی ھم اس کا احساس نھیں کرتے.
انھیں غیر محسوس چیزوں میں سے ''اٹر'' ہے کہ بھت سے دانشوروں نے ریسرچ کے بعد اس کااعتراف کیا ہے، اور ان کے نظریہ کے مطابق یہ شئے تمام جگھوں پر موجود ہے اور تمام چیزوں میں پائی جاتی ہے، بلکہ بعض دانشور تو اس کو تمام چیزوں کی اصل مانتے ہیں، اور اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ یہ ''اٹر'' ایک بے وزن اوربے رنگ چیز ہے اور اس کی کوئی بو بھی نھیں ھوتی... جو تمام ستاروں اور تمام چیزوں میں پائی جاتی ہے اور تمام چیزوں کے اندر نفوذ کئے ھوئے ہے، لیکن ھم اسے درک کرنے سے قاصر ہیں.
البتہ یہ غلط فھمی نہ ھو کہ ھم یہ دعویٰ کرناچاھتے ہیں کہ جس طرح سے الکٹرون ، پروٹون یا دوسرے رنگ سائنس نے کشف کئے ہیں تو سائنس مزید ترقی کرکے بعض مجھول چیزوں کو کشف کرلے گی، اور ممکن ہے کہ ایک روز ایسا آئے کہ اپنے ساز و سامان کے ذریعہ ''عالم ماورائے طبیعت'' کو بھی کشف کرلے!
جی نھیں، اس بات کا کوئی امکان نھیں ہے جیسا کہ ھم نے کھا کہ ''ماورائے طبیعت'' اور ''ماورائے مادہ '' کو مادی وسائل کے ذریعہ نھیں سمجھا جاسکتا، اور یہ کام مادی اسباب و سازو سامان کے بس کی بات نھیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح بعض چیزوں کے کشف ھونے سے پھلے ان کے بارے میں انکار کرنا جائز نھیں تھا اور ھمیں اس بات کا حق نھیں تھا کہ یہ کھتے ھوئے انکار کریں کہ فلاں چیز کوچونکہ ھم نھیں دیکھتے؛ جن چیزوں کو دنیاوی سازو سامان کے ذریعہ درک نھیں کیا جاسکتا ، یاوہ سائنس کے ذریعہ ثابت نھیں ہیں لھذا ان کا کوئی وجود نھیں ہے، اسی طرح سے ''ماورائے طبیعت'' کے بارے میں یہ نظریہ نھیں دے سکتے کہ اس کا کوئی وجود نھیں ہے، لھذا اس غلط راستہ کو چھوڑنا ھوگا اور خدا پرستوں کے دلائل کا بغور مطالعہ کرنا ھوگا اس کے بعد اپنی رائے کے اظھار کا حق ھوگا اس لئے کہ اس صورت میں واقعی طور پر اس کا نتیجہ مثبت ھوگا۔(۳﴾
حوالہ جات
١۔ منجملہ ان چیزوں کے جو محسوس نھیں ھوتی لیکن کسی بھی دانشور نے ان کا انکار نھیں کیا ہے زمین کی حرکت ہے یعنی کرۂ زمین گھومتا ہے، اور یہ وھی ''مدو جزر''(پھیلنا اورسکڑنا ) ہے جو اس زمین پر رونما ھوتا ہے، اور اس کا اثر یہ ھوتا ہے کہ ھمارے پاوں تلے کی زمین دن میں دو بار ٣٠ سینٹی میٹر اوپر آتی ہے ، جس کو نہ کبھی ھم نے دیکھا، اور نہ کبھی اس کااحساس کیا، یہ زمین دن میں دو بار ٣٠cmاوپر آتی ہے.
۲۔ مذکورہ بالا مطلب کی تصدیق کے لئے ''کامیل فلامارین'' کی کتاب ''اسرار موت'' سے ایک اقتباس آپ حضرات کی خدمت میں پیش کر تے ہیں:
''لوگ جھالت ونادانی کی وادی میں زندگی بسر کررھے ہیں اور انسان یہ نھیں جانتا کہ اس کی یہ جسمانی ترکیب اس کو حقائق کی طرف رھنمائی نھیں کرسکتی ہے، اور اس کویہ حواس خمسہ ،کسی بھی چیز میں دھوکہ دے سکتے ہیں، صرف انسان کی عقل و فکر اور علمی غور و فکر ھی حقائق کی طرف رھنمائی کرسکتی ہیں''! اس کے بعد ان چیزوں کو بیان کرنا شروع کرتا ہے جن کو انسانی حواس درک نھیں کرسکتے، اوراس کے بعد مؤلف کتاب ایک ایک کرکے بیان کرتا ہے اور پھر ھر ایک حس کی محدودیت کو ثابت کرتا ہے یھاں تک کہ کھتا ہے:''لھذا نتیجہ یہ ھوا کہ ھماری عقل اور سائنس کا یہ قطعی فیصلہ ہے کہ بھت سی حرکات ، ذرات، ھوا ، طاقتیں اور دیگر چیزیں ایسی ہیں جن کو ھم نھیں دیکھتے، اور ان حواس میں سے کسی ایک سے بھی ان کو درک نھیں کیا جاسکتا، لھذا یہ بھی ممکن ہے کہ ھمارے اطراف میں بھت سی ایسی چیزیں ھوں جن کا ھم احساس نھیں کرتے ، بھت سے ایسے جاندار ھوں جن کو ھم نھیں دیکھتے، جن کا احساس نھیں کرتے، ھم یہ نھیں کھتے ہیں کہ ''ہیں'' بلکہ ھم یہ کھیں : ''ممکن ہے کہ ھوں'' کیونکہ گزشتہ باتوں کا نتیجہ یھی ہے کہ ھمارے حواس تمام موجودات کو ھمارے لئے کشف کرنے کی صلاحیت نھیں رکھتے کہ بلکہ یھی حواس بعض اوقات تو ھمیں فریب دیتے ہیں ،اور بھت سی چیزوں کو حقیقت کے بر خلاف دکھاتے ہیں، لھذا ھمیں یہ تصور نھیں کرنا چاھئے کہ تمام موجودات کی حقیقت صرف وھی ہے جس کو ھم اپنے حواس کے ذریعہ درک کرلیں، بلکہ ھمیں اس کے برخلاف عقیدہ رکھنا چاھئے اور کھنا چاھئے کہ ممکن ہے کہ بھت سی موجودات ھوں جن کو ھم درک نھیں کرسکتے، جیسا کہ ''جراثیم'' کے کشف سے پھلے کوئی یہ سوچ بھی نھیں سکتا تھا کہ ''لاکھوں جراثیم'' ھر چیزکے چاروں طرف موجود ھوں گے، اور ان جراثیم کے لئے ھر جاندار کی زندگی ایک میدان کی صورت رکھتی ھوگی.
نتیجہ یہ ھوا کہ ھمارے یہ ظاھری حواس اس بات کی صلاحیت نھیں رکھتے کہ موجودات کی حقیقت اور ان کی واقعیت کا صحیح پتہ لگاسکیں، مکمل طور پر حقائق کو بیان کرنے والی شئے ھماری عقل اور فکر ھوتی ہے'' (نقل از علی اطلال المذھب المادی، تالیف فرید وجدی ، جلد ٤﴾
۔۳۔آفریدگار جھان، آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی کی بحثوں کا مجموعہ، صفحہ ٢٤٨.