پیغمبر نے خدا سے اپنی امت کے کونسے گناہ کی شکایت کی؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی شکایت آج بھی جاری ہے، آج بھی آپ(ص) نے اللہ کی بارگاہ میں مسلمانوں کی عظیم جماعت کی شکایت کررہے ہیں کہ انھوں نے قرآں کو فراموشی کے سپرد کردیا ہے، قرآن جو رمز حیات ہے اور وسیلہ نجات، فتح و نصرت اور حرکت و ترقی کا سرمایہ، خوبصورت کپڑوں میں بالائے طاق رکھا گیا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی شکایت آج بھی جاری ہے، آج بھی آپ(ص) نے اللہ کی بارگاہ میں مسلمانوں کی عظیم جماعت کی شکایت کررہے ہیں کہ انھوں نے قرآں کو فراموشی کے سپرد کردیا ہے، قرآن جو رمز حیات ہے اور وسیلہ نجات، فتح و نصرت اور حرکت و ترقی کا سرمایہ، خوبصورت کپڑوں میں بالائے طاق رکھا گیا ہے؛ مسلمانوں نے قرآن کو ـ جو فردی اور سماجی حیات کا پورا منصوبہ اور کامل پروگرام ہے ـ اپنی زندگی سے الگ کررکھا ہے اور حتی کہ اپنے مدنی اور فوجداری قوانین کے لئے قرآن کے دشمنوں کے سامنے کاسۂ گدائی لے کر کھڑے نظر آرہے ہیں۔
ہم جب تاریخ کی کچھ اقوام کے حالات میں غور کرتے ہیں تو ان کی سماجی اور فردی حیات میں بھی ایک گمشدہ شیئے کا سراغ ملتا ہے کہ گویا ان ہی پوری سعادت و خوشبختی اسی گمشدہ شیئے کے مرہون تھی جو کہ مفقود ہوچکی ہے۔ وہ گمشدہ شیئے جس کو انبیاء کی دعوت پر لبیک کہنے والوں نے پا لیا اور آب حیات کے اس سرچشمے سے فیضیاب ہوتے رہے۔
جی ہاں! جو کچھ خداوند متعال نے اپنے انبیاء کے توسط سے لوگوں پر نازل کیا اور انہیں راہ ہدایت کی طرف بلایا وہی ہمارا گمشدہ ہے جسے راہ حق میں دعوت رب کے سامنے سرجھکانے والوں نے پالیا ہے لیکن ہم اسے کھو چکے ہیں، تو کیا ہم اللہ کے سامنے سرتسلیم کرنے والوں میں شامل نہیں ہیں، اگر ہیں تو ایسا کیوں ہے؟
قرآن کریم تمام ہدایتوں کا جامع اور تمام حکمتوں کا مستجمع، اللہ کا عظيم عطیہ ہے جسے اس سے افضل الانبیاء اور سید المرسلین کے توسط سے نازل کرکے ہم پر احسان فرمایا اور ائمہ کے الہی تقرر و انتصاب کے ذریعے ہمارے لئے دین کے بہترین والی اور قرآن کے حقیقی مفسرین بھیجے ہیں اور یوں اکمال دین اور اتمام نعمت کا اعلان ہؤا ہے۔
قرآن اپنے اعلان اور معصومین علیہم السلام کی احادیث کے مطابق ان تمام منصوبوں اور پروگراموں کا جامع ترین مجموعہ ہے جو فردی اور سماجی سعادت و کامیابی کے لئے انسان کی تمام ضرورتیں پوری کرتا ہے جیسا کہ اللہ نے سورہ نحل کی آیت 89 میں ارشاد فرمایا:
وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَاناً لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ؛ اور ہم نے آپ پر وہ کتاب نازل کی ہے جو ہر بات کو کھول کر بیان کرتی ہے اور سرِ تسلیم خم کرنے والوں کے لئے سراسر ہدایت، رحمت اور بشارت ہے۔
قرآن انسان کی ابدی لا جواب سوالات کا جواب ہے اور انسانی حیات ے تمام شعبوں کےلئے پروگرام رکھتا ہے زندہ جاوید ہے رجوع کرو اور جواب پاؤ لیکن رجوع نہیں کیا جاتا اور جواب کہیں ڈھونڈنے کی کوششیں کی جاتی ہیں، متروک اور مہجور ہے قرآن ہمارے درمیان۔
گوکہ محض تلاوت بھی اس مہجوریت کا علاج نہیں ہے اور ممکن ہے پھر بھی قرآن خوبصورت صوت و لحن میں ڈوب کر ہمارے ہاتھ سے نکل جائے لیکن راستہ ہے یاد رکھنے کا، یاددہانی کرانے کا، قرآن کے مفاہیم کی فہم کا اور اس کی تاریخ سے درس سماج و سیاست و جنگ و امن سیکھنے کا اور اس کے احکام سے راہ حیات سنوارنے کا۔
یہ اس راقم کا دعوی نہیں ہے بلکہ اور حدیث کا اعلان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے شکایت کی ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اس قرآن کو مہجور چھوڑا ہے اور عجب یہ کہ جنہوں نے مہجور چھوڑا ہے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کا دشمن قرار دیا ہے جو کہ مجرمین کی جماعت سے ہیں۔۔۔۔ یا اللہ تیری پناہ ۔۔۔ غور و تدبر تو کریں سورہ فرقان کی آیات 30 اور 31 میں:
وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً ٭ وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوّاً مِّنَ الْمُجْرِمِينَ وَكَفَى بِرَبِّكَ هَادِياً وَنَصِيراً؛ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ نے عرض کیا اے میرے پروردگار! میری قوم (امت) نے اس قرآن کو بالکل چھوڑ دیا ہے ٭ اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کیلئے مجرموں میں سے بعض کو دشمن بنایا اور آپ کا پروردگار راہنمائی اور مدد کیلئے کافی ہے۔
اس آیت کریمہ کے گہرے معانی میں غور و تدبر ـ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے امت کی طرف سے قرآن کو تنہا چھوڑے جانے کی شکایت واضح و آشکار طور پر بیان کی ہے ـ بہت باعث برکت ہوگا۔
تفسيرنمونہ:
بار خدايا، میری قوم نے قرآن کو ترک کردیا ہے!
چونکہ سابقہ آیات کریمہ میں ہٹ دھرم مشرکوں اور بےایمان افراد کی بہانہ جوئیوں کی طرف اشارہ ہؤا ہے۔ یہاں پہلی زیر بحث آیت کریمہ بارگاہ رب متعال میں ـ قرآن کے ساتھ امت کے طرز سلوک کی نسبت ـ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی سخت ناراضگی اور شکایت ہے جہاں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے خداوند متعال سے عرض کیا:
وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً؛ اے میرے پروردگار! میری قوم (امت) نے اس قرآن کو بالکل چھوڑ دیا ہے۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کا یہ کلام اور یہ شکایات آج بھی باقی اور جاری ہے، جو اللہ کی بارگاہ میں مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت کی شکایت کررہے ہیں کہ انھوں نے قرآن کو تنہا اور مہجور چھوڑا ہؤا ہے۔ وہ قرآن جو رمز حیات ہے اور وسیلۂ نجات، قرآن جو حرکت اور ترقی کا سبب ہے، قرآن جو زندگی کے پروگراموں کا مجموعہ ہے، میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ دیا ہے اور اپنے مدنی اور فوجداری قوانین وضع کرنے کے لئے اجنبیوں کے سامنہ کاسہ گدائی لے کر جاتی ہے۔
اسی وقت اگر ہم بہت سے اسلامی ممالک ـ بالخصوص وہ جو مشرق و مغرب کے ثقافتی تسلط کے سائے میں جی رہے ہیں ـ کی موجودہ صورت حال پر غور کریں تو دیکھ لیں گے کہ قرآن ان کی زندگی میں ایک نمائشی کتاب کی شکل اختیار کرچکا ہے، وہ صرف قرآن کے خوبصورت کو خوبصورت آوازوں میں اپنے ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر کرتے ہیں یا یہ الفاظ اور آیات مساجد کی دیواروں پر لگی کاشیوں پر ـ فن تعمیر کی خوبصورتیوں کے طور پر ـ نظر آتی ہیں؛ نئے گھر کے افتتاح، مسافر کی حفاظت، بیماروں کی شفا [مرحومین کے ایصال ثواب کی خاطر] یا زيادہ سے زیادہ ثواب کے لئے قرآن سے استفادہ کرتے ہیں۔
حتی کہ کبھی وہ قرآنی آیات پڑھ کر ان سے استدلال و استناد کرتے ہیں تا کہ اپنی غلط باتوں اور غلط فیصلوں کو انحرافی تفسیر ـ تفسیر بالرأے ـ کے ذریعے درست ثابت کرکے جتائیں۔
بعض ممالک میں تحفیظ القرآن کے نام پر وسیع اور عریض مدارس دکھائی دیتے ہیں جہاں بےشمار لڑکے اور لڑکیاں حفظ قرآن میں مصرف ہیں؛ حالانکہ اسی اثناء میں ان کے افکار یا تو مغرب سے یا مشرق سے اخذ کرتے ہیں اور اپنے قوانین اور ضوابط و قواعد اسلام کے بیگانوں سے سے مستعار لئے ہوئے ہیں اور قرآن صرف ایک آڑ ہے ان کی خلاف ورزیوں اور جرائم کے لئے۔
بے شک آج بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اللہ سے فریاد کررہے ہیں کہ "میری قوم نے اس قرآن کو ترک کردیا ہے، مہجور چھوڑا ہے، مہجور مغز و متن کے لحاظ سے، متروک فکر تدبرے کے لحاظ سے اور اس کے تعمیری افکار اور پروگراموں اور منصوبوں کے لحاظ سے۔
اگلی آیت میں خداوند متعال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کو دلاسہ دے رہا ہے جنہیں اپنے دشمنوں کی طرف سے اس صورت حال کا سامنا تھا؛ اور ارشاد فرماتا ہے:
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوّاً مِّنَ الْمُجْرِمِينَ؛ اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کیلئے مجرموں میں سے بعض کو دشمن بنایا۔
ارشاد ہوتا ہے: صرف آپ ہی نہیں ہے کہ اس جماعت کی شدید دشمنی کا سامنا کررہے ہیں، بلکہ تمام انبیاء کو ایسی ہی صورت حال کا سامنا تھا کہ مجرموں کی ایک جماعت ان کی مخالفت پر اتر آتی تھی لیکن جان لیجئے کہ آپ تنہا اور بے یار و یاور نہیں ہیں اور آپ کے لئے یہی کافی ہے کہ خدا آپ کا ہادی و راہنما ہے: وَكَفَى بِرَبِّكَ هَادِياً وَنَصِيراً۔
اے میرے حبیب! نہ تو ان کے وسوسے آپ کو گمراہ کرسکتے ہیں ـ کیونکہ خدا ہی آپ کا ہادی و راہنما ہے ـ اور نہ ہی ان کی سازشیں آپ کو توڑ سکتی ہیں ـ کیونکہ آپ کا حامی و ناصر و مددگار آپ کا پروردگار ہے جس کا علم تمام علموں سے برتر و بالاتر اور اس کی قدرت تمام طاقتوں پر فوقیت رکھتی ہے۔
اتفاق سے قرآن کی مہجوریت و تنہائی کا اہم اور افسوسناک مسئلہ حال حاضر تک ہی محدود نہیں ہے اور اسلام کے بعض ادوار میں حتی یہ کیفیت اس سے بھی زیادہ افسوسناک تھی اور قرآن اس سے کہیں زیادہ مہجور و تنہا تھا۔
حالیہ چند صدیوں میں جمال الدین اسد آبادی (افغانی)، شیخ محمد عبدہ وغیرہ جیسے علماء نے امت مسلمہ میں قرآن کی مہجوریت کے المیے کو سمجھ لیا اور اس کے مقابلے میں جدوجہد کے لئے کمربستہ ہوئے۔
انھوں نے اس حقیقت پر زور دیا کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں منصوبہ سازی کے سلسلے میں قرآن کی قوت بےمثل ہے، قرآن کے ساتھ انسیت اور دوستی کس قدر لذت آفریں ہے، اور خواص کے درمیان قرآن ان غلط افکار کے خلاف جدوجہد کی جو قرآن کو مہجور اور تنہا کردیتے ہیں اور ان افکار و نظریات کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے جو قرآن کی افادیت کو کم کردیتے ہیں اور اگر ان افکار و نظریات کی پیروی کرے تو قرآن سے کم از کم فیض اٹھانے کے قابل ہونگے۔
سید جمال الدین اسد آبادی نے اپنی ایک تقریر کے ضمن میں کہا:
بار خدایا! تیرا ارشاد ہے کہ:
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ؛ اور جنہوں نے ہماری راہ میں جدوجہد کی، انہیں ہم اپنی راہوں پر لگاتے ہیں اور یقینا اللہ اچھے کردار والوں کے ساتھ ہے۔ (سورہ عنکبوت، 69)
۔۔۔ صاحبو! انسانی مثالی شہر (یا مثالی معاشرہ Utopia) اور سعادت انسانی کی صراط مستقیم قرآن ہے، مقدس اور گرامی دستور جو تمام عالمی ادیان حقہ کی شرافت کا ثمرہ اور دین اسلام کی خاتمیت مطلقہ کا برہان ہے روز قیامت تک، اور دونوں جہانوں کی سعادت اور دونوں حیاتوں کی کامیابی۔
آہ و افسوس، کہ کس قدر فرط غفلت کا شکار ہوکر مہجور و مترو ہوچکا ہے، مقدس اور گرامی دستور جس کے ضیاء بخش انوار کی ایک مختصر سی جھلک نے عالم قدیم اور دنیائے جدید کو اُس حقارت و خفت سے اس تہذیب و تمدن تک پہنچایا ہے۔
آہ آہ! کس طرح آج قرآن کریم کے تمام فوائد اور افادیتوں کو جہل و غفلت کی وجہ سے ذیل کے امور تک محدود کیا گیا ہے:
شب جمعہ مرحومین کی قبروں کے اوپر تلاوت؛ روزہ داروں کی مصروفیت؛ مساجد میں پرانے اور نئے نسخوں کا ڈھیر بنانا (الفاظ جمال الدین اسد آبادی یا افغانی صاحب کے ہیں مترجم کو معاف کیا جائے)؛ گناہوں کا کفارہ؛ مکتب و مدرسے میں وسیلہ معاش برائے استاد؛ نظر بد کا علاج؛ نذر و تعویذ؛ جھوٹی قسم؛ گداگری کا وسیلہ؛ بچوں کے لنگوٹ کی زینت؛ زنانہ صدری کی زینت؛ نانبائی کا بازوبند؛ بچوں کی مالا؛ مسافرین کی حمائل؛ جن زدہ اور آسیب زدہ افراد کا اسلحہ؛ چراغان کی زینت؛ طاق نصرت (محراب فتح) کی نمائش؛ گھر کا سامان منتقل کرنے کا مقدمہ (سب سے پہلے قرآن مجید لے جایا جاتا ہے)؛ زورخانہ کے کارکن کی تعویذ برائے حفاظت، روس و ہند کا مال التجارہ، کتب فروشوں کا سرمایہ، راستوں اور گذرگاہوں میں بےتقی عورتوں اور بےحیثیت مردوں کا سرمایۂ گدائی۔
آہ، وا اسفا! ایک سورہ والعصر ـ جو صرف تین آیتوں پر مشتمل ہے ـ اصحاب صفہ کی تحریک کی بنیاد ٹہری، جنہوں نے اسی مختصر سورہ مبارکہ کے مقدس فیض مکی بت خانے کا شرکستان ـ ہجرت سے قبل تک ـ بستان وحدت اور یزدان خانۂ بطحا میں بدل دیا۔
آہ و افسوس! یہ مقدس آسمانی کتاب، یہ حضرت سبحانی کی تصنیف گرامی، یہ انسانوں کی تمام سعادتوں کا سرمایہ، آج دیوان سعدی، دیوان حافظ، مثنوی رومی اور دیوان فارض سے بھی کم ہی قابل اعتناء و اہتمام ہے اور ہر معنی اور موعظے میں ان کے حوالے دیئے جاتے ہیں قرآن کو چھوڑ کر۔
نہ صرف ایسا نہیں ہے بلکہ جب ایک اجتماع میں اشعار پڑھے جاتے ہیں، سانسیں تہہ دل سے لی جاتی ہیں، آنکھیں، منہ اور کان کھلے کے کھلے۔۔۔ اور کس قدر قرآن اس کے برعکس کہیں بھی کسی کی قیل و قال و فکر اور کام میں آڑے نہیں آتا (اور ان تمام امور کے سامنے قرآن کو وقت نہیں دیا جاتا)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واحد راہ علاج و نجات اس حقیقت میں منحصر ہے کہ:
مسلمانوں میں سے ہر فرد کو چاہئے کہ قرآن کے مطابق ـ قرآن کے قدم پر قدم رکھ کر اور اطاعت کاملہ کرتے ہوئے ـ عمل کرے، سب اسلام کے صدر اول میں اپنے صالح اور نیک اسلام کی پیروی کریں اور خلوص نیت، باطنی طہارت اور ایثار و قربانی، نفرت، بخل، لالچ، حماقت و سادگی، عیاشی اور عشرت پرستی، واجبات کی پابندی اور محرمات سے پرہیز ـ جو ہمارے اسلاف کی سعادت و سیادت کا سبب تھا ـ کو رو بہ عمل لائیں اور لوگوں کو اس کی طرف بلائیں۔
دوسری طرف سے قرآن کریم مسلمانوں کو قرآن میں غور و تدبر کرنے اور اس کے ساتھ مانوس ہونے کی دعوت دیتا اور فرماتا ہے:
"كِتابٌ أَنْزَلْناهُ إِلَيْكَ مُبارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آياتِهِ وَ لِيَتَذَكَّرَ أُولُوا الْأَلْبابِ؛ اور جنہوں نے ہماری راہ میں جدوجہد کی، انہیں ہم اپنی راہوں پر لگاتے ہیں اور یقینا اللہ اچھے کردار والوں کے ساتھ ہے"۔ (سورہ عنکبوت، آیت 7)
تلاوت، قرآن کے ساتھ قربت اور انسیت کے اسباب فراہم کرتی ہے اور یہ عمل قرآن میں غور و تدبر، اس سے سبق لینے اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کا سبب ہوسکتا ہے۔
"فَاقْرَؤُا ما تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ؛ اب جتنا قرآن تم آسانی سے پڑھ سکتے ہو اتنا ہی پڑھ لیا کرو"۔ (سورہ مزمل، آیت 20)
اور امام جعفر صادق علیہ السلام مسلمانوں کو روزانہ کم از کم 50 آیات قرآنی کی تلاوت کی دعوت دیتے ہیں اور فرماتے ہیں:
"اَلقُرْآنُ عَهْدُاللّهِ اِلى خَلْقِهِ، فَقَدْ يَنْبَغي لِلْمَرْءِ المُسْلِمِ اَنْ يَنْظُرَ فِى عَهْدِهِ، وَاَنْ يَقْرَأ مِنْهُ فى كُلِّ يَوْمٍ خَمْسينَ آيةً؛ قرآن خدا کا عہد ہے جو اس نے اپنے بندوں سے لیا ہے؛ ایک مسلمان پر فرض ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے اس عہدنامے پر غور کرے اور ہر روز اس کی پچاس آیتوں کی تلاوت کرے"۔ (وسائل الشیعۃ، ج4، ص849)
ہمارے دینی منابع میں تسلسل کے ساتھ قرآن کی جاری و ساری تلاوت کی ترغیب دلائی گئی ہے کیونکہ یہ عمل قرآن کے ساتھ انسیت کا سبب ہے اور مسلسل تلاوت اور قرآن کے ساتھ مؤانست آیات الہیہ میں غور و تدبر کے اسباب فراہم کرتی ہے اور مہم قرآنی معارف و تعلیمات کے بحر بےکراں سے درس آموزی اور ان معارف و تعلیمات پر عمل کرنے کی طرف بڑا قدم ہوگی۔
قرآن کی تلاوت، قرآن کے ساتھ مؤانست، معارف قرآن کی فہم اور اس میں غور و تدبر اور اس پر عملدرآمد، فردی اور اجتماعی سوالات اس کے سامنے پیش کرنا اور جواب حاصل کرنا اور قرآنی معارف کی بنیاد پر فردی اور معاشرتی زندگی کا بنیادی ڈھانچہ تعمیر کرنا، قرآن کے آگے ایک مسلمان شخص اور اسلامی معاشرے کے فرائض کا کچھ ہی حصہ ہے جس تک پہنچنے کے لئے ہمیں طویل مسافت طے کرنا پڑ رہی ہے کیونکہ ہم نے اس کی قربت کو ضروری نہیں سمجھا ہے، اور بےحاصل ظواہر اور بےجا رونمائیوں سے عبور نہیں کرسکے ہیں اور قرآن کو مسلمانوں کی فردی اور معاشرتی حیات کے متن و مرکز میں نہیں لاسکے ہیں۔ یہ قرآن کی مہجوریت کے معنی ہیں گوکہ ممکن ہے ـ اور عمل میں بھی ایسا ہی ہے ـ کہ گلی کوچوں میں آرائشی قرآنوں کی رونمائی کی جائے اور اس کے معانی کو چھوڑ کر اس کے ظواہر کو بازیچہ بنایا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی