ہم بچے نجی اسکولوں کے لیے ہی تو پیدا کرتے ہیں
کبھی بچوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لیے کہا جاتا تھا، ’پڑھوگے لِکھو گے بنو گے نواب۔‘ لیکن اب والدین اولاد سے صاف صاف کہہ دیتے ہیں، ’بنو گے نواب تو ہی پڑھوگے لکھو گے۔‘
کبھی بچوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لیے کہا جاتا تھا، ’پڑھوگے لِکھو گے بنو گے نواب۔‘ لیکن اب والدین اولاد سے صاف صاف کہہ دیتے ہیں، ’بنو گے نواب تو ہی پڑھوگے لکھو گے۔‘ دراصل تعلیم عام کرنے کے لیے قائم نجی اسکولوں نے اسے اتنا خاص کردیا ہے کہ مالی وسائل سے محروم طبقہ اِن اسکولوں کو دیکھ کر ہی اپنے بچوں سے کہہ دیتا ہے، ’پاس جانا نہیں، بس دور سے دیکھا کرنا۔‘ ایسا لوگ کہتے ہیں، ہمارا کہنا کچھ اور ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ نجی اسکولوں نے ہمارے ملک میں علم کی عزت بڑھائی ہے۔ اب آپ کہیں گے وہ کیسے؟ بھئی وہ ایسے کہ اِن اسکولوں نے ثابت کردیا ہے کہ تعلیم کوئی عام چیز نہیں جسے جذباتی نعرے پر عمل کرتے ہوئے عام کردیا جائے۔
علم کی قدر تب ہوگی جب اُسے اتنا خاص کردیا جائے کہ اُس کے حصول کے لیے قارون کا خزانہ بھی کم پڑجائے اور قارون کو بھی اپنے بچے پڑھانے کے لیے بینک یا بہنوئی سے قرضہ لینا پڑے۔ اس فکر و فلسفے پر عمل کرتے ہوئے نجی اسکول اپنی فیسیں مقرر کرتے ہیں اور پھر بڑھاتے چلے جاتے ہیں، جس کے ساتھ علم کی عظمت آپ ہی آپ اونچی ہوتی چلی جارہی ہے۔
یوں تو ہمارے ملک میں ادارے، شعبے، جماعتیں اور افراد آپس میں کم ہی متفق ہوتے ہیں اور باہمی تعاون کا مظاہرہ کرتے ہیں، یعنی آج کی لُغت میں ایک پیج پر ہوتے ہیں، وہ چیک بُک کا پیج ہو تو دوسری بات ہے، لیکن ہماری خوش نصیبی ہے کہ تعلیم کے معاملے پر حکومت اور سرکاری درس گاہیں، نِجی تعلیمی اداروں سے پورا پورا تعاون کررہی ہیں۔ حکومت نجی اسکولوں کے معاملات کو اُن کا نجی معاملہ سمجھتے ہوئے مداخلت سے گریز کرتی ہے۔
پھر ہمارے نیک نیت حکمران تعلیم کو خود سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں اس لیے ’چاند سی بَنّو میری تیرے حوالے‘ کہہ کر اور آنسو بہاتے ہوئے تعلیم بی بی کے سَر پر ہاتھ پھیر کر اسے کب کا نجی شعبے کی ڈولی میں بٹھا چکے ہیں۔ اب جہاں تک سرکاری اسکولوں کا تعلق ہے تو ان کی خدمات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس دائرے نے بڑھتے بڑھتے تعلیم کو پَرے کردیا ہے۔ یہ اسکول ان بے روزگاروں کو روزگار فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں جو عجوبہءِ روزگار کچھ نہ کرنے کے لیے دنیا میں آتے ہیں، یوں ان تعلیمی اداروں کے ذریعے سیاست دانوں کو اپنے حامیوں کو مطمئن کرنے کا موقع ملتا ہے، جسے کہتے ہیں جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچنا۔
ان اسکولوں میں سماج میں میل جول کے فروغ کے لیے اوطاق بنائی جاتی ہے، لوگوں کو خالص دودھ کی فراہمی کے لیے بھینسوں کے باڑے قائم کیے جاتے ہیں، یہ اسکول گودام بن کر ملک میں تجارتی اور معاشی سرگرمیاں بھی فروغ دے رہے ہیں اور پولنگ اسٹیشن بن کر جمہوریت کا تسلسل قائم رکھے ہوئے ہیں۔ اب اتنی ساری خدمات انجام دینے والے ان اسکولوں سے یہ تقاضا کہ پڑھائیں بھی، کہاں کا انصاف ہے۔
ایسا نہیں کہ ان میں تعلیم نہیں دی جاتی، ان میں اساتذہ کے بات بات پر پڑنے والے ڈنڈے، ٹوٹا پھوٹا فرنیچر، خستہ حال دیواروں اور چھتیں، صرف تنخواہ کے لیے نظر آنے والے گھوسٹ یا بھوت اساتذہ اور ایسی ہی دیگر ’سہولتوں‘ کے ذریعے طلبہ کو یہ گراں قدر سبق دیا جاتا ہے کہ ’علموں بس کریں او یار، اِکو الف تیرے درکار۔‘ اور یہ درکار ’الف‘ الوداع کا ہوتا ہے، سو طلبہ تعلیم کو الوداع کہہ کر کسی کام پر لگ جاتے ہیں۔
سرکاری اسکولوں سے ملنے والا یہ سبق والدین کو ازبر ہوچکا ہے، اس لیے سرکاری اسکولوں کی پیلی عمارتوں کے تصور سے ہی ان کا رنگ پیلا پڑجاتا ہے۔ یوں پڑھانے کا سارا ٹھیکا نجی تعلیم کے شعبے کو مل چکا ہے۔
تعلیم کو خاص بنا دینے والے نجی اسکولوں کے بارے میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ وہ صرف علم بانٹ کر ملک و قوم کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ نہیں صاحب، والدین کے نوٹ اور دل جلا کر وہ علم کی روشنی تو پھیلا ہی رہے ہیں، اس کے ساتھ وہ دیگر خدمات بھی اپنے سر لیے ہوئے ہیں۔
یہ اسکول والدین کو مصروف رکھنے کا فریضہ بحسن خوبی نبھا رہے ہیں۔ خالی دماغ شیطان کا گھر ہے اور فرصت انسان کو بے راہ روی پر مائل کرتی ہے۔ چنانچہ ان اسکولوں کے مالکان نے ٹھانی ہے کہ والدین کو مسلسل کام میں لگائے رکھیں۔ بچے کے داخلے سے پہلے اور بعد میں اس کے تعلیمی اخراجات کی فکر والدین کے دماغ پر اس طرح سوار رہتی ہے کہ شیطان کو بہت ڈھونڈنے کے باوجود وہاں کوئی خالی پلاٹ نہیں ملتا اور وہ مایوس ہوکر کسی اسکول کے مالک کے بھیجے میں قیام کرلیتا ہے۔
اِدھر کسی کے بچے کا اسکول میں داخلہ ہوتا ہے اور اُدھر وہ زیادہ سے زیادہ کمانے کی تگ و دو کرنے لگتا ہے تاکہ فیس جاتی رہے۔ کوئی 2 نوکریاں کرتا ہے تو کوئی پارٹ ٹائم۔ مائیں بھی گھر بیٹھ کر مارننگ شوز اور ڈراموں میں وقت برباد کرنے کے بجائے ملازمت کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ اس طرح لوگوں کو فراغت سے نجات مل جاتی ہے۔
یہ اسکول سماجی رابطوں کو بھی فروغ دیتے ہیں۔ بچے کے داخلے کے لیے پہلے ماں باپ اثر و رسوخ والے رشتے داروں اور دوستوں سے جا جاکر ملتے ہیں، پھر فیس دینے کے لیے کبھی بچے کی پھوپھی کے گھر کا چکر لگتا ہے کبھی ماموں کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے۔
ہر سال فیسیں بڑھا کر اور نِت نئے اخراجات والدین پر ڈال کر انہیں امراضِ قلب، بلند فشار خون اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار کردیا جاتا ہے، اور فیسوں سے بچنے والی رقم وہ اسپتالوں کو سونپ دیتے ہیں۔ یوں یہ اسکول ’طبی صنعت‘ کی ترقی میں بے مثال کردار ادا کر رہے ہیں۔
تو بھئی کُل ملا کر بات اتنی ہے کہ ہم پاکستانی نجی اسکولوں ہی کے لیے بچے پیدا کرتے ہیں، اور اسی لیے شادی کرتے ہیں تاکہ بچے ہوں جنہیں نجی اسکولوں میں داخل کرواکے ان کے مالکان کی روٹی روزی کا اہتمام کیا جائے، اور شاید ان ہی کی خاطر ’بچے دو ہی اچھے‘ کے نعرے کے بجائے ’بچے سو بھی اچھے‘ کی سوچ پر یقین رکھتے ہیں، کیونکہ نجی اسکولوں کے مالکان کو زیادہ سے زیادہ بچے چاہئیں کہ ان کے لیے تو ہر بچہ ایک اے ٹی ایم ہے۔
(عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی ایک کتاب ’کہے بغیر‘ بھی شائع ہوچکی ہے۔ آپ اِس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔)