• صارفین کی تعداد :
  • 3222
  • 1/30/2018 8:04:00 PM
  • تاريخ :

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا علامہ اقبال کی نظر میں

انسانیت کے کمال کی معراج وہ مقام عصمت ہے جب انسان کی رضا و غضب خدا کی رضا و غضب کے تابع ہو جائے۔اگر عصمت کبری یہ ہے کہ انسان کامل اس مقام پر پہنچ جائے کہ مطلقا خدا کی رضا پر راضی ہو اور غضب الہی پر غضبناک ہو تو فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا وہ ہستی ہیں کہ خداوند متعال مطلقا آپ کی رضا پر راضی اور آپ کے غضب پر غضبناک ہوتا ہے ۔یہ وہ مقام ہے جو کامل ترین انسانوں کے لئے باعث حیرت ہے ۔ان کی ذات آسمان ولایت کے ستاروں کےانوار کا سر چشمہ ہے ،وہ کتاب ہدایت کے اسرار کے خزینہ کی حد ہیں ۔

 
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا علامہ اقبال کی نظر میں

تحریر : محمد لطیف مطہری کچوروی

مقدمہ:
حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کےبارے میں کچھ لکھنا عام انسانوں کی بس کی بات نہیں اس عظیم شخصیت کےبارے میں گفتگو کرنےکے لئے  صاحب عصمت اور عالی بصیرت کا حامل ہونا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر آپؑ کے وجود کو کوئی درک نہیں کر سکتا ۔آپ کے فضائل اور مناقب خدا وندمتعال،  رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلماورائمہ معصومین علیہم السلام ہی بیان کر سکتے ہیں  ۔

                                                           کتاب فضل تراآب بحر کافی نیست

                                                               کہ تر کنم سر انگشت و صفحہ بشمارم

سمندرسیاہی، درخت قلم اور جن و انس لکھنے والے بن جائے تب بھی آپ ؑ کے فضائل بیان نہیں کر سکتے۔ علامہ اقبال انہیں افراد میں سے تھے جنہیں خدا نےعالی بصیرت عطا کی انہوں نے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی شان میں ایک نظم کہہ کر  اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے یہاں ہم اسی نظم کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔

آپؑ کی والدہ ملیکۃ العرب تھی لیکن آپؑ نے کبھی آرام کی زندگی پسند نہیں کیا ۔آپ ؑہمیشہ اپنےکردار کو نمونہ عمل بنا کر رکھا۔والد مختار کائنات تھے لیکن کبھی آپ ؑنے اس رشتے سے فائدہ نہیں اٹھایا اور تمام زندگی ہر طرح کی مصیبت و زحمت  برداشت کرتی رہی۔شوہر مشکل کشاء تھے لیکن آپؑ نے تمام زندگی کسی طرح کی فرمائش نہیں کی اور ہمیشہ شوہر کی خدمت کرنے کے بعد وقت آخر معذرت طلب کی کہ اگر کوئی کوتاہی ہو گئی ہو تو معاف کر دے۔ آپؑ کے فرزند جنت کے جوانوں کےسردار تھے ۔آپؑ کائنات کی وہ بے مثال خاتون ہیں جنہیں دو اماموں کی ماں بننے کا شرف حاصل ہوا ۔آپؑ وہ ممدوحہ ہیں جس کی مدح سورۃ کوثر ،آیت تطہیر اور سورۃ دہر جیسی قرآنی آیتوں اور سوروں میں کی گئی۔آپؑ  وہ عبادت گزار ہیں جس کی نماز کے وقت زمین سے آسمان تک ایک نور کا سلسلہ قائم ہو جاتا تھا ۔آپؑ وہ  صاحب سخاوت ہیں جس نے فاقوں میں سائل کو محروم واپس نہیں جانے دیا ۔آپؑ وہ باعفت خاتون ہیں جس کا پردہ تمام زندگی برقرار رہا کہ باپ کے ساتھ نابینا صحابی بھی آیا تو اس سےبھی پردہ فرمایا۔آپؑ وہ صاحب نظر ہیں کہ جب رسول خدا ﷺکے سوال پر کہ عورت کے لئے سب سے بہتر کیا چیز ہے ؟تواس وقت آپؑ نے فرمایا: عورت کے حق میں سب سے بہتر شے یہ ہے کہ نامحرم مرد اسے نہ دیکھے اور وہ خود بھی  کسی نامحرم کو نہ دیکھے۔{خیر لهن ان لا یرین الرجال و لا یرو نهن}[1]

رسول خدا ﷺ آپ  ؑکے بارے میں فرماتے ہیں :{ان الله یغضب لغضبک و یرضی لرضاک}[2]بےشک خدا آپ کے غضبناک ہونے سے غصے میں آتا ہے اور آپ کی خوشنودی سےخوش ہوتا ہے ۔انسانیت کے کمال کی معراج وہ مقام عصمت ہے جب انسان کی رضا و غضب خدا کی رضا و غضب کے تابع ہو جائے۔اگر عصمت کبری یہ ہے کہ انسان کامل اس مقام پر پہنچ جائے کہ مطلقا خدا کی رضا پر راضی ہو اور غضب الہی پر غضبناک ہو تو فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا وہ ہستی ہیں کہ خداوند متعال مطلقا آپ کی رضا پر راضی اور آپ کے غضب پر غضبناک ہوتا ہے ۔یہ وہ مقام ہے جو کامل ترین انسانوں کے لئے باعث حیرت ہے ۔ان کی ذات آسمان ولایت کے ستاروں کےانوار کا سر چشمہ ہے ،وہ کتاب ہدایت کے اسرار کے خزینہ کی حد ہیں ۔

جناب فاطمہسلام اللہ علیہا وہ ہستی ہیں جو نسل اسماعیل میں اول امام کی شریک حیات اور گیارہ ائمہ کی ماں ہیں ۔جن کے متعلق توریت کے سفر تکوین کے سترہوں باب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اطلاع دی ۔جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا وہ ہیں جو یوحنا کے مکاشفات میں ایک عظیم علامت کے طور پر آسمان پر ظاہر ہوئیں ۔آپؑ لیلۃ مبارکۃ کی تاویل ہیں ۔ آپ ؑشب قدر ہیں ۔ آپ ؑنسائنا کی تنہا مصداق ہیں۔ آپ ؑ زمانے میں تنہا خاتون ہیں جن کی دعا کو خداوند متعال نے مباہلہ کے دن خاتم النبین کے ہم رتبہ قرار دیا ۔آپؑ کائنات میں واحد خاتون ہیں جن کے سر پر{انما نطعمکم لوجه الله}[3]  کا تاج مزین ہے ۔وہ ایسا گوہر یگانہ ہیں کہ خداوند متعال نے رسول خدا ﷺکی بعثت کے ذریعے مومنین پر منت رکھی اور فرمایا:{ لقد من الله علی المومنین اذ بعث فیهم رسولا من انفسهم.. }[4] اور اس گوہر یگانہ کے ذریعے سرور کائنات پر منت رکھی اور فرمایا:{انا اعطیناک الکوثر فصل لربک و انحر ،ان شانئک هو الابتر}بے شک ہم نے ہی آپ کو کوثر عطا فرمایا۔لہذا آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی دیں۔یقینا آپ کا دشمن ہی بے اولاد رہے گا۔

حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام  علامہ اقبال کے کلام میں:

 علامہ اقبال نے حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام  کو بطور اسوہ پیش کیاہے یہ  اقبال کی بصیرت کی علامت ہے یعنی اقبال کی نظر میں حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی شخصیت بشریت کے لئے اسوہ ہے۔خداوند تبارک وتعالیٰ نے انبیاء کرام اور ائمہ اطہار علیہم السلام کو واسطہ فیض قراردیا ہے اور تمام فیوضاتِ ظاہری اور معنوی اُنہی ہستیوں کے ذریعے مخلوق تک پہنچ جاتےہیں کیونکہ یہ وسائطِ فیضِ خدا ہیں ان کی ذات سے مخلوق تک جو فیض پہنچتے ہیں ان میں سے ہدایت، معرفت اور علم ہےجو مقصدِ بعثت اور مقصدِ خلقتِ معصومین ہے۔ قرآن مجید میں رسول اللہ  ﷺکو خداوند تبارک وتعالیٰ نے بطورِ اسوہ پیش کیا ہے{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ الله اُسْوَة حَسَنَة[5] حضرت ابراہیم اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کو بھی  خدا ٰ نے بعنوانِ اسوہ پیش کیا ۔ علامہ اقبال نے بھی حضرت زہراسلام اللہ علیہا  کو پوری انسانیت مخصوصا خواتین کے لئےایک بہترین نمونہ عمل کے طور پیش کیا ۔ علامہ اقبال سے پہلے ائمہ معصومین علیہم السلام نے انسانوں کی ہدایت  کے لئے  پہلے ہی فرمایا تھا چنانچہ امام زمان عجل اللہ تعالی الشریف فرماتے ہیں :{ في إبنَةِ رسُولِ اللهِ (ص) لِي أسوَهٌ حَسَنَهٌ }[6] بے شک رسول خداﷺکی بیٹی میرے لئے نمونہ عمل ہے۔

اقبال کی نظر میں بھی پنجتن پاک کا گھرانہ مقدس و مطہر ہےاس لئےاس گھر کی چوکھٹ پر اپنی جبینِ نیاز جھکانے کو باعثِ افتخار سمجھتے ہیں ۔ علامہ اقبال پر خدانے یہ لطف کیا ہے کہ اُنہیں غیر معمولی بصیرت عطا کی ہے یہ بصیرتیں خدا نے سب کیلئے رکھی ہوئی ہیں لیکن خدا اُن کو دیتاہے جو اس کےقدردان ہوں، جو اپنی ابتدائی بصیرت کو دُنیاکے چھوٹے اُمور میں صرف کردیں تو خدا  عالی بصیرت ان کو نہیں دیتا لیکن جو اپنے اندر اس گوہر کے قدردان ہوتے ہیں، خدا اُنہیں بصیرتِ عظیم عطا کرتاہے۔ تاریخ بشریت میں انگشت شمار لوگ ہیں جو بصیرتِ برتر کے مالک ہیں۔ علامہ اقبال حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام  کی بارگاہ میں عقیدت کااظہارکرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔

مریم از یک نسبتِ عیسیٰ  عزیز

از سہ نسبت حضرت زہرا  عزیز

جنابِ مریمؑ بہت باعظمت اورپاکیزہ خاتون ہیں۔علامہ اقبال کی نظر میں حضرت مریم سلام اللہ علیہا  اسوۂ ہے، خدا نے جناب مریم سلام اللہ علیہا کو بعنوانِ اسوہ متعارف کروایا ہے۔ حضرت مریم سلام اللہ علیہا ابھی پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں کہ خداوند تبارک وتعالیٰ نے قصہ مریم بتانا شروع کردیا کہ مریم پیدا کیسے ہوئی، دُنیا میں کیسے آئی؟ انسانیت کے درجات ہیں اگرایک شخصیت اعلیٰ درجے فائز ہو تو اس کے معانی یہ نہیں ہیں کہ چھوٹے یا نچلے درجے پر جو ہے وہ ناقص ہو۔ حضرت مریم سلام اللہ علیہا  اسوۂ کاملہ ہیں۔ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا  کا اسوہ ہونا حضرت مریم سلام اللہ علیہا سے برتر ہونے کی وجہ سے ہےنہ یہ کہ حضرت مریم  سلام اللہ علیہا میں کوئی نقص ہے،بلکہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا  میں فراوان کمالات ہیں، لہٰذا پہلے اقبال اسے بطور اسوۃ  پیش کرتا ہےجسےقرآن نے پیش کیا ہے۔حضرت زہراء سلام اللہ علیہا  کی عظمت اور مقام بیان کرنے کیلئے اقبال نے ایک مسلم قرآنی والٰہی اسوہ پہلے چنا ہے اور ان کو پیش کرکے کہا کہ مریم  کے بارے میں کسی کو شک وشبہ نہیں ہے کہ اسوہ ہےکیونکہ  جناب مریم سلام اللہ علیہا  وہ ہستی ہیں جن کی عصمت پر قرآن میں اور آسمانی کتابوں میں گواہی دی گئی ہے ۔ حضرت زکریا  علیہ السلام جن کو خدا نے حضرت مریم سلام اللہ علیہا  کا کفیل بنایا۔  جناب مریم سلام اللہ علیہا نوجوانی میں اس قدر پاکیزہ اور باکمال ہیں کہ حضرت زکریا  علیہ السلام مریم  سےمتاثر ہیں اور مریم  سے الہام لیتے ہیں،رسول خدا جناب مریم  سلام اللہ علیہا سے الہام لیتے ہیں۔قرآن کا مشہور واقعہ ہے کہ جب حضرت زکریا علیہ السلام محراب میں داخل ہوئے اگرچہ کفیل اور ذمہ دار تھے، دیکھتے ہیں کہ حضرت مریم سلام اللہ علیہا  کے پاس بہت ساری چیزیں موجود ہے۔حضرت زکریاعلیہ السلام  حضرت مریم سلام اللہ علیہا سے سوال کرتا ہےکہ یہ سب کہاں سے آیاہے؟ حضرت مریم سلام اللہ علیہا   نے فرمایا کہ یہ سب خدا کی طرف سے آیا ہے خدا جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ {كلُّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًا  قَالَ يَامَرْيَمُ أَنىَ‏ لَكِ هَاذَا  قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ  إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيرْ حِسَاب}[7]جب زکریا اس کے حجرہ عبادت میں جاتے تو اس کے پاس طعام موجود پاتے ، پوچھا:اے مریم!یہ {کھانا}تمہارے پاس کہاں سےآتا ہے؟ وہ کہتی ہے : اللہ کے ہاں سے، بے شک خدا جسے چاہتا ہے بےحساب رزق دیتا ہے ۔

پس مریم  ایک اسوۂ کاملہ ہیں لیکن حضرت زہرا ء  برتر اسوہ ہیں یعنی مقاماتِ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا مقاماتِ حضرت مریم سلام اللہ علیہا  سےبرتر ہیں۔ جناب مریم اپنے زمانے کے عورتوں کی سردار تھیں لیکن حضرت زہراء سلام اللہ علیہا   تمام عورتوں کی سردار ہیں ۔ رسول خدا فرماتے ہیں :{ کانت مریم سیدة نساء زمانها اما ابنتی فاطمه فهی سیدة نساء العالمین من الاولین و الاخرین} [8]جابر بن عبد اللہ انصاری نقل کرتے ہیں: ایک دفعہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سخت بھوکے تھے اور آپؐ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے گھر تشریف لائے اور کھانے کا سوال کیا ۔حضرت زہراء سلام اللہ علیہا نے جواب دیا کہ گھر میں کچھ بھی نہیں یہاں تک کہ حسنین بھی بھوکےہیں۔رسول خدا واپس چلے گئےاتنے میں ایک عورت نے دو روٹی اور ایک گوشت کا ٹکڑا جناب حضرت زہراءسلام اللہ علیہا کی خدمت میں لے کر آیا۔آپؑ نے اسے پکایا اور رسول خدا ﷺکو کھانے پر دعوت دی درحالیکہ حسنین علیہم السلام  اور حضرت علی علیہ السلام بھی بھوکے تھے۔آپ ؑنے غذا کے برتن کو رسول خدا ﷺکے سامنے رکھ دیا ۔رسول خداﷺ نے جب برتن کو کھولا تو برتن گوشت اور روٹی سے بھرے ہوئے تھے۔پیغمبر اکرم ﷺنے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا سےسوال کیا بیٹی اسے کہاں سے لائے ہو ؟آپؑ نے فرمایا:{هو من عند الله ان الله یرزق من یشاء بغیر حساب} یہ اللہ کی طرف سےہے اور خدا جسے چاہتا ہے بےحساب رزق عطا کرتا ہے۔رسول خدا نے فرمایا:{الحمد لله الذی جعلک شبیهة سیدة نساء بنی اسرائیل}تمام تعرفین اللہ کے لئے جس نے تجھے مریم جیسا قرار دیا ۔ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ اس غذا کو تمام ہمسائیوں نےبھی تناول کیا اورخدا نے اس میں برکت عطا کی ۔ [9]

 خداوند متعال حدیث قدسی میں پیغمبر اکرمﷺ اور امام علی علیہ السلام  کے وجود مبارک کو جناب فاطمہ زہراء علیہا السلام  کے وجود  کی مرہون منت قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے :{ لولاک لما خلقت الافلاک ولو لا علی لما خلقتک و لو لا فاطمه لما خلقتکما}[10] اےرسول آپ کو خلق کرنا مقصود نہ ہوتا تو کائنات کو خلق نہ کرتا اور  علی کو خلق کرنا مقصود نہ ہوتا تو آپ کو خلق نہ کرتا اور فاطمہ کو خلق کرنا مقصود نہ ہوتاتو آپ دونوں کو خلق نہ کرتا۔جب فرشتوں نے کساء کے اندر موجود افراد کے بارے میں سوال کیا تو خالق کائنات نے جناب فاطمہ زہراء علیہا السلام  کو مرکزیت قرار دیتے ہوئے آپ کے ذریعے تعارف کرایا:{هم فاطمة وأبوها و بعلها وبنوها}[11] جناب فاطمہ زہراء علیہا السلام  کائنات کی واحد شخصیت ہے جس کاوجود جنت کے پھل کے ذریعے تیار ہوا اسی لئے رسول خداﷺ بار بار آپ کو بوسہ دیتے اور جنت کے پھل  کی خوشبو آپ سے سونگھتے۔ رسول خدا ﷺ فرماتےہیں:{فاذا اشتقت لتلک الثمار قبلت فاطمة فاصبت من رائحتهاجمیع تلک الثمار التی اکلتها}[12] جناب مریم علیہا السلام کے بارے میں ایسا ذکر  نہیں ہواہے لیکن جناب فاطمہ زہراء علیہا السلام   کی ولادت کے بارے میں فرماتے ہیں :{فولدت فاطمة{ع}فوقعت علی الارض ساجدة}[13] جناب فاطمہ زہراء علیہا السلام ولادت کے وقت ہی خداکے حضورسجدہ ریز ہوئیں۔

علامہ اقبال نے حضرت مریم   سلام اللہ علیہا کی ایک نسبت جبکہ حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام  کے لئے تین نسبتیں بیان فرمائی ہیں۔ علماء جب فضائل کو تقسیم کرتے ہیں تو فضائل کی کئی قسمیں بیان کرتے ہیں، ایک فضائل نفسی اور دوسری فضائل نسبی ۔ فضائل نفسی وہ سے مراد وہ فضائل ہیں جو کسی شخصیت کے اندر ذاتی طور پر موجودہوتاہے ۔ فضائل نسبی وہ صفات ہیں جو دوسری چیز کے ساتھ نسبت دینے سے اس کے اندرلحاظ ہوتی ہیں۔ حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام  اور حضرت مریم سلام اللہ علیہا  میں دونوں طرح کی صفات اور فضائل ہیں۔ وہ فضائل جو کسی اور سے منسوب ہونے کی وجہ سے ان میں پائے جاتے ہیں یہ بھی حقیقی فضائل ہیں اور وہ فضائل بھی پائے جاتے ہیں جو کسی سے منسوب ہوئے بغیر خود ان کی ذات کے اندر موجود ہیں۔جناب مریم سلام اللہ علیہا کو اگر ایک  حضرت عیسیٰ  علیہ السلام سے نسبت دے کر دیکھیں تو مریم  بہت باعظمت ہے۔ اس لئے کہ نبی خدا کی ماں ہونا ایک صفت ہے جو حضرت عیسیٰ  علیہ السلام کے ساتھ منسوب کرنےسے حضرت مریم سلام اللہ علیہا  میں آئی ہے۔ درحقیقت  حضرت مریم سلام اللہ علیہا جناب  عیسیٰ علیہ السلام  کی ماں بنے کی وجہ  سے باکمال خاتون نہیں بنی بلکہ پہلے مریم   میں کمالات رکھےتاکہ جناب عیسیٰ کی ماں بننے کے قابل ہوجائے، پہلے کمالاتِ نفسی اورکمالاتِ ذاتی مریم  میں آئے، ان کمالات کے نتیجے میں نسبی کمالات پیدا ہوئے، یعنی ہرخاتون عیسیٰ  کی ماں بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی حضرت مریم سلام اللہ علیہا  کے اندر موجود کمالاتِ نفسیہ نے حضرت مریم   کو اس قابل بنایا کہ وہ عیسیٰ  کی ماں بنے۔ جناب حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام  کی عظمت کا یہ عالم تھا کہ ایک طرف سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحیثیت والدِ گرامی، دوسری جانب بحیثیت ماں ملیکتہ العرب حضرت خدیجتہ الکبریٰ تیسری اور چوتھی جانب مولائے کائنات علی مرتضیٰ بحیثیت شوہر اور سردارانِ جنت بحیثیت اولاد تھے۔ علامہ اقبال نے جناب سیدہ کی ان نسبتوں کا ذکر کرکے یہ ثابت کر دکھایاکہ آپ کائنات کی سب سے اعلیٰ و ارفع بیٹی، بہترین زوجہ اور عظیم ترین ماں ہیں۔ وہ ماں جس کی آغوش میں ایسے فرزند پروان چڑھے جو سرمایۂ دین اور حاصلِ پیغمبر اسلام تھے۔

نورِ چشم رحمة للعالمین
آن امام اولین وآخرین
حضرت زہراء سلام اللہ علیہا  رسول خداؐ  کی نورِ چشم ہیں، نہ صرف بیٹی ہیں بلکہ قرة العین ہیں، نورِ چشم ِ رسول اللہؐ ہیں.یہ بہت خوبصورت تعبیر ہےکہ آپؐ نے فرمایا:{فاطمة بضعة منی و هی نور عینی و ثمرة فوادی و روحی التی بین جنبی و هی الحورا ء الانسیة}[14]فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے ، میری آنکحوں کی ٹھنڈک ہے اور میری روح کا حصہ ہے ،وہ انسانی شکل میں ایک فرشتہ ہے ۔ رسول اللہﷺ کا نفس کوئی احساساتی نفس نہیں ہے بلکہ آپ ؐانسانِ کامل ہیں یعنی وہ ذات جس پر احساسات غلبہ نہیں کرتے۔ رسول خدا جب بیٹی کو دیکھتاہے تو آنکھوں میں ٹھنڈک آجاتی ہے، ظاہر سی بات ہے کہ یہ احساساتِ پدرانہ نہیں ہیں۔
آنکہ جان درپیکر گیتی دمید
روزگارِ تازہ آئین فرید

وہ رسول اللہﷺ ؐجس نے اس جہان کے اندر ایک تازہ روح پھونک دی، مردہ عالم کے اندرآکر ایک روح پھونک دی، اس جہان کے اندر ایک نیا اور تازہ آئین اور دین لے کر آئے اور اس کے ذریعے بشریت کو زندہ کیا۔
                                                           بانوئے آن تاجدارِ ہل أتیٰ
                                                           مرتضیٰ  مشکل کشاء  شیرِ خدا

دوسری نسبت یہ ہے کہ حضرت زہرا   اس تاجدار کی زوجہ ہے جس کے سر پر تاجِ ہل أتیٰ رکھا ہوا ہے، یعنی جس کے سر پر سورۂ دہر کا تاج رکھا ہوا ہے۔ہمسری یعنی ہم پلہ ہونا،ہم پلہ ہونے سے مراد صرف جسمانیت نہیں ہے بلکہ ہم پلہ یعنی کمالات اور فضائل جو امیرالمومنین علیہ السلام کی ذات میں ہیں ان کا ایک نمونہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا  میں ہونا ضروری ہے ورنہ ہم پلہ، ہمسر اور کفو نہیں بن سکتے۔
                                                               پادشاہ  و کلبہ ایوان او
                                                             یک حسام ویک زرہ سامان او

اس تاجدار کا قصرِ بادشاہی ایک کلبہ اور جھونپڑا ہےاور تمام سامانِ زندگی ایک شمشیر اور ایک زرہ ہے۔ علامہ اقبال یہ بتانا چاہتے ہیں کہ فضیلتِ انسانی ان اُمور سے حاصل نہیں ہوتی ۔ایک مصنف کاجملہ ہے کہ کائنات کی عظیم ترین شخصیات مادّی دُنیا کے لحاظ سے غریب ترین گھر یعنی جھونپڑے میں پیدا ہوئے اور آج دُنیا کی عظیم ترین عمارتوں کے اندر گھٹیا ترین لوگ پیدا ہورہے ہیں۔
                                                                 مادرِآن مرکزِ پرکارِ عشق
                                                               مادرِ آن کاروانِ سالارِ عشق
 جناب حضرت زہراء سلام اللہ علیہا  پرکارِ عشق کے مرکز کی ماں ہے، عشق کا مرکز  امام حسین علیہ السلام ہیں اور  امام حسین کی ماں حضرت زہراء سلام اللہ علیہا ہیں یعنی اس کاروانِ عشق کے سالار کی ماں ہے۔ کربلا میدانِ عشق ہے، حسین ـ امامِ عشق ہے بہت چیدہ چیدہ اور انگشت شمار لوگوں کوہی کربلا اور امام حسین علیہ السلام سمجھ میں آیا ہے۔

علامہ اقبال ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :

                                                        حدیث عشق دوباب است کربلا و دمشق

                                                              یکی حسین  رقم  کرد  و  دیگری   زینب

 علامہ اقبال حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فرزند اکبر امام حسن مجتبیعلیہ السلام کی طرف اشارہ کرتےہوئے  کہتےہیں :
                                                               آن یکی شمع شبستان حرم
                                                                حافظ جمعیت خیر الامم
ایک بیٹا مرکزِ پرکارِ عشق اور سالارِ کاروانِ عشق ہے اور دوسرا شمعِ شبستانِ حرم ہے۔ اسلامی تاریخ کی یہ وہ درخشاں ترین شخصیت ہے جنہوں نے ملتِ اسلامیہ کا شیرازہ ایک نازک دور میں بکھرنے سے بچایا اور یہ ثابت کر دیا کہ امت کی شیرازہ بندی میں امام کی حیثیت، نظامِ کائنات میں سورج کی مانند ہوتی ہے۔ 
                                                              تانشیند آتشِ پیکارو کین
                                                              پشتِ پازد برسرِتاجِ ونگین
امام حسن مجتبی علیہ السلام  نے تاج ونگین اور اقتدارکو ٹھکرادیاتاکہ یہ خیر الامم اور یہ اسلامی جمعیت و اُمت مسلمہ باقی رہے۔
                                                        آن دگر مولائے ابرارِ جہان
                                                        قوتِ بازوئے احرارِ جہان
تمام عالم کے ابراروں کے مولا سید الشہداء امام حسین علیہ السلام ہیں، دُنیا میں جتنے بھی حریت پسند لوگ ہیں ان سب کی قوتِ بازو، ان سب کے حوصلہ، جوش، ولولہ کے اندر جس زور اور توانائی آجاتی ہے اور جس کے تذکرے سے عزم ملتا ہے جس کے
ذکر سے ان کے اندر قوت آتی ہے وہ بھی جناب فاطمہسلام اللہ علیہا  کا بیٹا ہے۔ ابرارِ جہاں اور احرارِ جہاں حسین علیہ السلام کی ذات ہے، جتنے بھی دُنیا میں حریت پسند ہیں انہوں نےحریت کا سبق حسین  سے سیکھا ہےاسی لئے شاعرکہتاہے :

                                                                      انسان کو بیدار تو ہو لینے  دو

                                                                ہرقوم پکاری گی ہمارےہیں حسین

علامہ اقبال امام حسین علیہ السلام کے بارےمیں مزید فرماتے ہیں:

                                                     در نوائے زندگی سوز از حسین
                                                    اہلِ حق حریت آموز از حسین
آغوشِ فاطمہ کے دوسرے پروردہ امام حسین علیہ السلام نے بھی اپنی ماں کی تربیت کا مظاہرہ میدان کربلا میں کیا۔ دلبندِ زہراء امام حسین علیہ السلام نے میدانِ کربلا میں جو تین دن انتہائی گرسنگی اور تشنگی کے عالم میں گزارے۔ اس کی مشق حضرت زہراء سلام اللہ علیہا  نے انہیں بچپن میں کروائی تھی۔ جس ہستی نے بچپن ہی میں ایک سائل کی خاطر بارہا بھوک برداشت کی ہو اس کے لیے یہ امر کافی آسان ہے کہ اسلام کی بقاء کی خاطر مع اہل و عیال اور احباب و اصحاب مصائب و آلام کا پہاڑ دوش صبر پر اٹھائے۔

                                         این حسین کیست که عالم همه دیوانه ی اوست

                                        این چه شمعی است که جانها همه پروانه ی اوست

علامہ اقبال حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کو بطور ماں پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

                                                       سیرتِ فرزندھا از اُمّھات
                                                       جوہرِ صدق وصفا از اُمّھات
ایک حکیم کا قول ہے کہ ’’کسی قوم کی تہذیب کو جانچنے کا صحیح معیار یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ اس میں عورت کا کیا مقام ہے۔[15] اگر عورت ذلیل ہے تو سمجھ لیجئے کہ قوم بھی ذلیل اور تہذیب سے عاری ہے۔ مائیں جس قدر بالغ نظر، پاکدامن اور تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ ہوں گیں اُسی قدر قوم میں دور اندیش، صالح خصلت اور صاحبِ فراست افراد پیدا ہوں گے۔[16]
                                                   مزرع تسلیم را حاصل بتول
                                                    مادران را اسوۂ کامل بتول
 عظیم ماؤں سے محروم قوم عظیم فرزندوں سے بھی تہی دست ہوتی ہیں۔ نتیجتاً یہ قومیں زوال آمادہ ہو جاتی ہیں اور آہستہ آہستہ فنا کے گھاٹ اترتی جاتیں ہیں۔ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا  ماوٴں کیلئے اسوۂ کاملہ ہیں، مائیں اتنی پاکیزہ ہوں، ان کا وجود اتنا آمادہ ہو تاکہ اس جیسا پھل ماوٴں کے شجرۂ وجود پر لگے۔
                                                  بہر محتاجی دلش آن گونہ سوخت
                                                   بہ یہودی چادرِ خود را فروخت
ایک ضرورت مند کی خاطر اتنا حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا دل جلتا ہےکہ اپنی شادی کے لباس کو بھی بخش دیتی ہے۔اسی طرح ایک سائل کی مشکل کوحل کرنے کی خاطر حضرت زہر اءسلام اللہ علیہا نے اپنی چادر حضرت سلمان کو یہ کہہ کر دے دی اسے گروی رکھ کر سائل کی شکم سیری کا اہتمام کر دو۔
                                                   نوری وہم آتشی فرمانبرش
                                                گم رضائش دررضائش شوہراش
 حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا  کی رِضا اپنے شوہر کی رِضا میں فانی ہے،حضرت علیعلیہ السلام کی بات کے آگے ان کی کوئی بات نہیں ہے، حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام  اس چیز پر راضی ہیں جس پر  حضرت علیعلیہ السلامراضی ہو۔

                                                آن ادب پروردۂ صبر ورضا
                                                    آسیا گردان و لب قرآن سرا
حضرت زہراء سلام اللہ علیہا  ادب پروردۂ رسول خداﷺہیں یعنی رسول اللہﷺنے آپ  کی تربیت کی اور صبر ورِضا کے ادب سے مؤدب کیا، اس لئے تو آپ  مقامِ رِضا پر فائز تھیں۔ اپنے ہاتھ سے چکی چلاتی تھیں یہ باعظمت بی بی اپنے ہاتھ سے چکی چلاتی ہے اور چکی کےدوران زبان پر شکوہ بھی نہیں ہے کہ چکیاں چلا چلا کر ہاتھوں پہ چھالے پڑ گئے ہیں بلکہ چکی چلاتی ہے اور ہمیشہ زبان پر قرآن کا ورد ہے۔

ابو نعیم اصفہانی نقل کرتے ہیں :{لقد طحنت فاطمة بنت رسول الله حتی مجلت یدها ،وربا،و اثر قطب الرحی فی یدها}[17] آپ ؑفرماتی ہیں :{حبب الی من دنیاکم ثلاث: تلاوة کتاب الله و النظر فی وجه رسول و الانفاق فی سبیل الله}[18]تمہاری دنیا میں میری پسندیدہ چیزیں تین ہیں :
1- تلاوت قرآن
2- رسول خدا (ص) کیے چہرہ مبارک کی طرف دیکھنا
3- خدا کی راہ میں انفاق و خیرات کرنا.
حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام  اپنے گھر کے کام اپنے ہاتھ سے کرتی ہیں، اس وقت گھر کا سخت ترین کام چکی چلانا ہوتا تھا، لوگ غلاموں سے چکی چلواتے تھے اور تاجدارِ ھل اتیٰ کے گھر میں ملکہ قصر حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام  خود چکی چلارہی ہیں اور ساتھ قرآن پڑھ رہی ہیں ۔
                                                        گریہ ہائے او زبالین بے نیاز
                                                        گوہر افشاندی بہ دامانِ نماز
حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام  نماز میں روتی تھیں. عبادت و ریاضت کا یہ عالم تھا سیدۂ کونین شب و روز اس قدر عبادتِ الہٰی میں مشغول رہتیں کہ کہ والدِگرامی کی مانند آپ کے پائے مبارک متوّرم ہو جاتے۔امام خمینی ؒ فرماتے ہیں: میں نے حضرت مریمؑ  کے بارے میں نہیں دیکھا کہ آپؑ کے پائے مبارک عبادت الہی میں مشغول رہنے کی وجہ سے متورم ہو گئے ہوں لیکن حضرت زہراءسلام اللہ علیہا  کے قدم مبارک  کثرت عبادت الہی کی وجہ سے متورم ہو جاتے تھے ۔ [19]عبادت میں ہمیشہ دوسروں کو دعا کرتے یہاں تک کہ حسنین علیہم السلام کے سوال کے جواب میں فرمایا: {الجار ثم الدار} پہلے ہمسایے اس کے بعد گھر والے۔
                                                           اشک او پرچید جبرئیل  از زمیں
                                                           ہمچو شبنم ریخت برعرشِ بریں
جبرئیل امین آسمان سے زمین پر آتے تھے اور حضرت زہراء سلام اللہ علیہا     کے آنسو اکٹھے کرتے اور عرشِ بریں پر جاکر ان کو شبنم کی طرح بکھیرتے تھے لہٰذا  علامہ اقبال کے نزدیک عرشِ بریں کا معطر ہونا حضرت زہراء سلام اللہ علیہا  کے آنسووٴں سے تھا ۔ عرشِ بریں جناب زہراء سلام اللہ علیہا کے آنسووٴں سے معطر اور منور ہے۔امام خمینی ؒ فرماتے ہیں : حضرت زہراء علیہا السلام کی  سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ پیغمبر اکرم ﷺ کی رحلت کے بعد جبرئیل امین آپ ؑکے پاس تشریف لاتے اور آپؑ کو تسلیت پیش کرتے اور آئند رونما ہونے والے واقعات سے آپ کو آگاہ کرتے۔[20]

 آخر میں علامہ اقبال کی اس والہانہ عقیدت کا اندازہ ذیل کے دو اشعار کے ذریعے کر سکتا ہے:
                                                             رشتہ آئین حق زنجیر پاست
                                                         پاس فرمان جنابِ مصطفےٰ  است
                                                             ورنہ گرد تربتش گر دید مے
                                                           سجدہ ھا بر خاک او پاشید مے
آئینِ حق میرے پاوٴں کی زنجیر بنا ہوا ہے اور مجھے اسلام اجازت نہیں دیتا اوراسی طرح جنابِ رسول خداﷺکے فرمان کا مجھے پاس ہے اور فرمانِ مصطفےٰ ﷺاگر مانع نہ ہوتا تو میں ساری عمر آپؑ کی قبر کے گرد طواف کرتا اور میراایک ہی کام ہوتا کہ میں تربتِ پاکِ حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام  پر فقط سجدہ کرتا۔

کاش علامہ اقبال اپنے  اس خوبصورت اشعار میں نام نہاد مسلمانوں  کے   اس کردارکی  بھی عکاسی کرتا جو انہوں  نے بعد از رحلت رسول خدا ﷺ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا   کے ساتھ انجام دئے۔ ان مشکلات اور مصیبتوں کا تذکرہ  جناب حضرت  فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا  اپنے اشعار میں  یوں بیان کرتی ہیں :

                     ما ذا علی من شم تربة احمد                   الا یشم مدی الزمان غوالیا

   صبت علی مصائب لو انها                     صبت علی ایام صرن لیالیا

 اے بابا!آپ کے بعدمجھ پر اتنے ستم ڈھائے گئےکہ اگر  یہ روشن دنوں پر پڑتے تو وہ سیاہ راتوں میں بدل جاتے۔

آیۃ اللہ اصفہانی کمپانی کے چند اشعار کے ذریعے اس مقالہ کو ختم کرناچاہتا ہوں تاکہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا  پر ڈھائی گئی مصیبت کا کچھ اندازہ ہو۔

              ماأجهل القوم فان النار                       لا تطفی نور الله جل و علا

             یہ لوگ کس قدر جاہل اور ناداں تھے جو یہ نہیں جانتے تھے کہ نور خدا  کوآتش کے ذریعے خاموش نہیں کر سکتے۔

                  الباب و الدماء و الجدار                                شهود صدق ما بها خفاء

                               دروازہ ،خون اور دیوار یہ سب گواہ ہیں ان چیزوں پر جسے دنیاچھپانا چاہتے ہیں۔

                    و لست أدری خبر المسمار                  سل صدرها خزانة الاسرار[21]

         دراوزے میں موجود کیل کا مجھے کوئی علم نہیں  اگر جاننا چاہتے ہو تو جناب حضرت زہراء سلام اللہ علیہا   کے سینہ اطہر سے       پوچھ لو جو اسرار الہی کا خزانہ ہے ۔
خداوند و متعال ہمیں  مقام حضرت زہراء سلام اللہ علیہا   کو سمجھنے اور انہیں  اپنی زندگی میں اسوہ قرار دینے کی توفیق دے ۔       
{السّلام علیک أیّتها الصدّیقة الشهیدة الممنوعة إرثُها، المکسور ضلعها، المظلوم بعلها، المقتولِ وَلَدُها}

حوالہ جات:
[1]  حلیۃ الاولیاء ج2ص40۔
[2]  المستدرک علی الصحیحین ، ج3 ص154
[3]  انسان،9۔
[4]   آل عمران،164۔
[5]  احزاب، آیت ٢١۔
[6] بحار الانوار، ج53، ص178، باب31  ۔
[7]  آل عمران ،37۔
[8]  زہراء برترین بانوی جہان،آیۃ اللہ مکارم شیرازی۔
[9]  زمحشری نے کشاف میں اور سیوطی نے در المنثور میں سورۃ آل عمران کی آیت 37 کی تفسیر میں اس واقعے کو نقل کئے ہیں ۔
[10]  احمد رحماني همداني ، فاطمة بهجة قلب المصطفي ، ص 9، به نقل از كشف اللئالي ، صاحب بن عبدالوهاب بن العرندس .
[11] مفاتيح الجنان ، ص 1211.               
[12]  ذخائر العقبی ،ص36۔
 [13] ذخائر العقبی ،ص44۔
[14]  ریاحیین الشریعۃ ،ج1ص31۔زہراء برترین بانوی جہان،آیۃ اللہ مکارم شیرازی۔
[15]  فکر اقبال، خلیفہ عبدالحکیم۔
[16]  مشرب ناب ،ش 5۔
[17]  حلیۃ الاولیاءج2ص41۔
[18]وقایع الایام خیابانی، جلد صیام، ص295   
[19]  سخنرانی امام خمینی ؒ ،تلویزن ایران،شبکہ یک۔
[20]  صحيفه نور، ج‏19، ص 278.
[21]  زندگانی حضرت زہراء سلام اللہ علیہا   ،سید ہاشم محلاتی۔