حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا، قرآن کے آئینے میں
"اے (پیغمبر (ص) کے) اھل بیت، خدا چاھتا ہے کہ تم سے ناپاکی (کا میل کچیل) دور کر دے اور تمھیں بالکل پاک صاف کر دے"۔
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کا شمار چودہ معصومین اور اولیاء الھی میں ھوتا ہے۔ قرآن کریم میں خداوند متعال نے اھلبیت اطھار علیھم السلام کی شان میں بھت سی آیات نازل فرمائی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
1)۔ آیت تطھیر:
إِنَّمٰا يُرِيدُ اَللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ اَلرِّجْسَ أَهْلَ اَلْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً "(سورہ احزاب، آیت 33)۔
ترجمہ: "اے (پیغمبر (ص) کے) اھل بیت، خدا چاھتا ہے کہ تم سے ناپاکی (کا میل کچیل) دور کر دے اور تمھیں بالکل پاک صاف کر دے"۔
اس آیہ شریفہ کے شان نزول میں کئی متواتر احادیث موجود ہیں جن سے ظاھر ھوتا ہے کہ یہ آیت حضرت ام سلمہ کے گھر میں نازل ھوئی۔ جب یہ آیت نازل ھوئی اس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا اور حضرت حسن اور حسین علیھما السلام ایک جگہ جمع تھے۔
حضرت ام سلمہ نبی اکرم (ص) سے درخواست کرتی ہیں کہ مجھے بھی اپنے درمیان آنے اور چادر کی نیچے جمع ھونے کی اجازت فرمائیں جس پر آپ (ص) انھیں منع کرتے ھوئے فرماتے ہیں: "آپ داخل نہ ھوں، اگرچہ آپ بھی اچھائی پر گامزن ہیں لیکن یہ آیت ھم پنجتن سے مخصوص ہے"۔
جن اصحاب نے اس آیت کے شان نزول اور اس کا پنجتن سے مخصوص ھونے کو بیان کیا ہے اور ان کی احادیث متواتر ہیں ان کے نام یہ ہیں: سعد بن ابی وقاص، ابو حمراء ھلال، ام سلمہ، حضرت عائشہ، ابوھریرہ، معقل بن یسار، ابو الطفیل، جابر بن عبداللہ، ابو برزہ اسلمی اور مقداد بن اسود۔ اس میں کوئی شک نھیں کہ حضرت فاطمہ (س) بھی "اھلبیت" میں شامل ھونے کے ناطے آیت تطھیر کی مخاطب قرار پائی ہیں، پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی زندگی میں اھلبیت کا مصداق واضح کیا ہے۔ 9 اصحاب نے نقل کیا ہے کہ اس آیہ شریفہ کے نازل ھونے کے بعد رسول اکرم (ص) ھر روز نماز فجر کیلئے بیدار ھونے کے بعد جب مسجد کی جانب تشریف لے جاتے تو راستے میں حضرت فاطمہ (س) کے خانہ مبارک پر رکتے اور اونچی آواز میں فرماتے: "السلام علیک یا اھل البیت، إِنَّمٰا يُرِيدُ اَللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ اَلرِّجْسَ أَهْلَ اَلْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً"۔
مسند احمد، جلد 2، صفحہ 259 – 285 اور شواھد التنزیل، جلد 2، حدیث 637، 638، 639، 644 اور 773 میں راوی کھتا ہے: "میں 6 ماہ تک مدینہ میں تھا اور میں نے دیکھا کہ نبی اکرم (ص) ھر روز یہ کام انجام دیتے تھے"۔
2) آیت مباہلہ:
"فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مٰا جٰاءَكَ مِنَ اَلْعِلْمِ فَقُلْ تَعٰالَوْا نَدْعُ أَبْنٰاءَنٰا وَ أَبْنٰاءَكُمْ وَ نِسٰاءَنٰا وَ نِسٰاءَكُمْ وَ أَنْفُسَنٰا وَ أَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اَللّٰهِ عَلَى اَلْكٰاذِبِينَ "(سورہ آل عمران، آیت 61)۔
ترجمہ: "پھر اگر یہ لوگ عیسیٰ کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں اور تم کو حقیقت الحال تو معلوم ھو ھی چلی ہے تو ان سے کھنا کہ آؤ ھم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلاؤ اور ھم خود بھی آئیں اور تم خود بھی آؤ پھر دونوں فریق (خدا سے) دعا و التجا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت بھیجیں"۔
یہ آیہ شریفہ واضح طور پر اس بات کی جانب اشارہ کر رھی ہے کہ جب پیغمبر اکرم (ص) نے نجران کے مسیحی علماء سے مباھلہ کیا تو حضرت فاطمہ (س) بھی آپ (ص) کے ھمراہ موجود تھیں۔ حضرت فاطمہ (س) کے مقدس وجود کا ذکر دیگر چار معصومین کے ساتھ اس آیت میں آیا ہے۔ اس بات کے پیش نظر کہ مباھلہ (ایک دوسرے پر نفرین بھیجنا) کوئی معمولی امر نھیں اور معمولی انسان مباھلہ میں شریک نھیں ھو سکتے لھذا صرف پاک اور مقدس ھستیاں ھی مدمقابل کو جھوٹا ثابت کرنے کیلئے اس پر لعنت اور نفرین کر سکتی ہیں۔ چونکہ جب تک ایک انسان بارگاہ خداوند میں مقرب اور چنا ھوا نھیں ھوتا اس کی نفرین موثر ثابت نھیں ھو سکتی۔ حضرت فاطمہ (س) کی شخصیت بھی ایسی ھی تھی لھذا وہ بھی اس آیہ شریفہ کا مصداق قرار پائیں۔
3)۔"فَتَلَقّٰى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمٰاتٍ فَتٰابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ اَلتَّوّٰابُ اَلرَّحِيمُ "( سورہ بقرہ، آیت 37)۔
ترجمہ: "پھر آدم (ع) نے اپنے پروردگار سے کچھ کلمات سیکھے (اور معافی مانگی) تو اس نے ان کا قصور معاف کر دیا، بے شک وہ معاف کرنے والا (اور) صاحبِ رحم ہے"۔
اس آیہ شریفہ کی تفسیر میں بعض ایسی احادیث موجود ہیں جن میں انتھائی گھرے حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے اور ان سے معلوم ھوتا ہے کہ حضرت فاطمہ (س) کا مقدس وجود اس کائنات کی خلقت کا باعث بنا ہے۔ جس طرح پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی (ص)، حضرت امام علی (ع)، حضرت امام حسن (ع) اور حضرت امام حسین (ع) خلقت کائنات کا باعث اور سبب ہیں اسی طرح حضرت فاطمہ (س) بھی کائنات کی خلقت کا سبب ہیں۔
ابن عباس پیغمبر اکرم (ص) سے روایت نقل کرتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے: "خداوند متعال کی جانب سے حضرت آدم (ع) کو خلق کئے جانے اور فرشتوں کا آپ کو سجدہ کرنے کے بعد آپ اپنے اوپر فخر محسوس کرنے لگے اور خدا سے کھنے لگے: خدایا، کیا تو نے ایسی مخلوق پیدا کی ہے جو تیرے نزدیک مجھ سے زیادہ محبوب ھو؟ خداوند متعال نے حضرت آدم (ع) کو جواب دیا: ھاں۔ اس کے بعد امر خداوندی سے پردے ھٹے اور پانچ نور ظاھر ھوئے جو خداوند متعال کے حضور عرش پر کھڑے تھے۔
حضرت آدم (ع) نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ خداوند متعال نے جواب دیا: یہ میرا نبی، یہ علی امیرالمومنین نبی کا چچازاد، یہ فاطمہ نبی کی بیٹی اور یہ دو حسن اور حسین علی کے بیٹے اور پیغمبر کی اولاد ہیں۔ انھیں پھلا مقام حاصل ہے، ان کے درجات بھت بلند ہیں اور تیرا درجہ ان سے نیچے ہے۔ بعد میں جب حضرت آدم (ع) ترک اولی کے مرتکب ھوئے تو انھوں نے خداوند متعال سے عرض کی: خدایا، میں تجھ سے بحق محمد و علی و فاطمہ و حسن و حسین دعا کرتا ھوں کہ میری خطا معاف فرما۔ حضرت آدم (ع) کی دعا مستجاب ھوئی اور وہ غفران و عفو پروردگار کے حقدار پائے۔
یہ اسی آیت کا معنی ہے جس میں خدا فرماتا ہے: پس آدم (ع) نے خدا سے کلمات سیکھے اور ان کلمات کے ذریعے اس کی توبہ قبول ھوئی"۔ (الخصائص العلویہ، ابو الفتح محمد بن علی نطنزی؛ الغدیر، جلد 7، صفحہ 301)۔
4)۔ آیت مودت:
قُلْ لاٰ أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ اَلْمَوَدَّةَ فِي اَلْقُرْبىٰ "(سورہ شوری، آیت ۲۳)۔
ترجمہ: "(اے پیغمبر ص) کھہ دو کہ میں اس کا تم سے صلہ نھیں مانگتا مگر اپنے عزیزوں سے محبت"۔
پ
یغمبر اکرم (ص) نے خداوند متعال کی جانب سے اپنی رسالت کا اجر اپنے عزیز و اقارب سے محبت کی صورت میں بیان کیا ہے۔ یعنی صرف اھلبیت رسول اللہ (ص) کی محبت ھی آپ (ص) کی عظیم رسالت کا اجر قرار پا سکتی ہے۔ یہ قیمتی محبت پیغبر اکرم (ص) کی رسالت کی ھم پلہ ہے اور تمام شیعہ اور سنی علماء دین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت اھلبیت عصمت و طھارت یعنی علی، فاطمہ، حسن و حسین علیھم السلام کی شان میں نازل ھوئی ہے۔
احمد ابن حنبل مناقب میں، حافظ ابن منذر، حافظ ابن ابی حاتم، حافظ طبرانی، حافظ ابن مردویہ، واحدی مفسر، ثعلبی مفسر، حافظ ابو نعیم، بغوی مفسر اور ابن مغازلی فقیہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں: "یہ آیہ نازل ھونے کے بعد ھم نے پیغمبر اکرم (ص) سے سوال کیا: یا رسول اللہ (ص)، آپ کے عزیز و اقارب جن سے محبت ھم پر واجب قرار پائی ہے کون ہیں؟ آپ (ص) نے جواب میں فرمایا: علی، فاطمہ، ان کے دو فرزند (حسن و حسین)"۔
محب الدین طبری ذخائر میں، زمخشری کشاف میں، حموینی فرائد میں، نیشاپوری اپنی تفسیر میں، ابن طلحہ شافعی مطالب السوول میں، رازی اپنی تفسیر میں، ابو السعود اپنی تفسیر میں، ابو حیان اپنی تفسیر میں، نسفی اپنی تفسیر میں، حافظ ھیثمی مجمع میں، ابن صباغ مالکی وغیرہ نے مذکورہ بالا روایت کو نقل کیا ہے۔ قسطلانی المواھب اللدنیہ میں کھتا ہے: "خداوند متعال نے پیغمبر اکرم (ص) کے عزیز و اقارب کی محبت کو واجب قرار دیا ہے اور آیہ شریفہ" قُلْ لاٰ أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ اَلْمَوَدَّةَ فِي اَلْقُرْبىٰ "اھلبیت اطھار علیھم السلام کی محبت واجب کرنے کیلئے نازل ھوئی ہے۔
تحریر: حبیب چاپچیان