مہدی موعود{عج} کا عقیدہ
مہدی موعود{عج} کا عقیدہ تمام مذاہب اسلامی کے نزدیک مسلم ہے ۔اس عقیدے کی بنیاد پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمسے منقول متواتر احادیث ہیں جن کے مطابق قیامت سے پہلے پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان سے ایک فردقیام کرے گا جو آپ ؐکا ہم نام ہوگا اوراوراس کا لقب مہدی ہو گا جو اسلامی قوانین کے مطابق عالمی سطح پر عدل و انصاف کی حکومت قائم کریں گے {یملاء الارض قسطاوعدلا کماملئت ظلماوجورا}آپ{عج}زمین کوعدل و انصاف سےاس طرح بھر دیں گےجس طرح وہ ظلم و جور سے پرہو چکی ہوگی”۔
مہدی موعود{عج} کا عقیدہ
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
مہدی موعود{عج} کا عقیدہ تمام مذاہب اسلامی کے نزدیک مسلم ہے ۔اس عقیدے کی بنیاد پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمسے منقول متواتر احادیث ہیں جن کے مطابق قیامت سے پہلے پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان سے ایک فردقیام کرے گا جو آپ ؐکا ہم نام ہوگا اوراوراس کا لقب مہدی ہو گا جو اسلامی قوانین کے مطابق عالمی سطح پر عدل و انصاف کی حکومت قائم کریں گے {یملاء الارض قسطاوعدلا کماملئت ظلماوجورا}آپ{عج}زمین کوعدل و انصاف سےاس طرح بھر دیں گےجس طرح وہ ظلم و جور سے پرہو چکی ہوگی”۔[1]
شیعہ امامیہ عقائد کے مطابق مہدی موعود{عج} ان کے بارھویں امام ہیں جو 15 شعبان 255 ھ ق کو سامراء میں پیدا ہوئے۔ آپ{عج}نےپانچ سال تک اپنے والد بزرگوار امام حسن عسکری علیہ السلام کے ساتھ زندگی بسر کی اور سنہ 260ھ ق میں اپنے والد بزرگوار کی شہادت کے بعد لوگوں کی نظروں سے غائب ہو گئے اورسال 329ھ ق تک آپ {عج}کی طرف سے چار وکیل اور نائب شیعوں کے مسائل حل کرتے رہے ۔اس عرصے کو غیبت صغری کہا جاتا ہے۔اس کے بعد غیبت کبری کا مرحلہ شروع ہوا اور اس عرصے میں شیعوں کے مسائل کاحل و فصل کی ذمہ داری آپ {عج} کی طرف سے شیعہ عادل فقہاء کے سپرد ہوگئی ۔پس آپ {عج} کی ولادت باسعادت ہوئی اور آپ {عج}اس دنیا میں تشریف لائے اور آج تک زندہ ہے لیکن آپ{عج} لوگوں کی نظروں سے غائب ہے ۔
امام مہدی {عج}کی ولادت باسعادت کا عقیدہ صرف شیعہ حضرات ہی نہیں رکھتے ہیں بلکہ اہل سنت کےبہت سےمشہور علماء نے بھی اپنی کتابوں میں آپ{عج} کی ولادت باسعادت سےمتعلق تفصیلات تحریر فرمائی ہیں جیسے: ابن حجر ہیثمی { الصواعق المحرقہ}سید جمال الدین{روضۃ الاحباب}ابن صباغ مالکی {الفصول المہمۃ}سبط ابن جوزی{تذکرۃ الخواص } عبد الرحمن جامی حنفی {شواہد النبوۃ}حافظ ابو عبد اللہ گنجی شافعی{البیان فی اخبار صاحب الزمان} اور{کفایۃ الطالب فی مناقب امیر المومنین{ع}}ابوبکربیہقی {شعب الایمان}کمال الدین محمد بن طلحۃ شافعی {مطالب السووٴل فی مناقب آل الرسول}حافظ ابو محمد البلاذری {الحدیث المتسلسل}ابو محمد عبداللہ بن الخشاب {تاریخ موالید الائمۃ و و فیاتھم} شیخ محی الدین بن عربی {الفتوحات المکیۃ}شیخ عبد الوہاب شعرانی {الیواقیت و الجواہر}حافظ محمد بخاری حنفی {فصل الخطاب}حافظ ابو الفتح محمد بن ابی الفوارس {الاربعین }عبد الحق دہلوی {مناقب و احوال الائمۃ}حافظ سلیمان قندوزی حنفی{ینابیع المودۃ}عبد اللہ بن محمد المطیری {الریاض الزاہرۃ} ابوالمعالی سراج الدین الرفاعی{صاح الاخبار فی نسب السادۃ الفاطمیۃ الاخیار}محمد بن خاوند شاہ {روضۃ الصفا}وغیرہ۔علاوہ ازیں کتاب منتخب الاثرمیں بہت سارے علماء کا نام جن کی تعداد ساٹھ سےبھی زیادہ ہے ذکر ہوا ہے۔ البتہ اہل سنت کے نزدیک مشہور قول یہ ہے کہ آپ {عج}کی ولادت ابھی تک نہیں ہوئی ہے ۔ آپ {عج}کی ولادت آخر الزمان میں ہوگی اور آپ {عج} اس وقت قیام فرمائیں گے لیکن شیعوں نے آپ {عج}کی ولادت باسعادت اور آپ {عج}کی حیات پرعقلی و نقلی دلائل پیش کئے ہیں۔
بعض محققین کی تحقیق کے مطابق مہدی موعود{عج} کے بارے میں اہل سنت کے60 سے زیادہ معتبر منابع جن میں صحاح ستۃ بھی شامل ہیں نیز اہل تشیع کے کتب اربعہ سمیت 90 سے زیادہ معتبرمنابع میں احادیث بیان ہوئی ہیں ۔مسلمانوں نے اس مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر اسے نہ فقط حدیثی اور کلامی کتابوں میں ذکر کیا ہے بلکہ اس موضوع پر جداگانہ کتابیں بھی لکھی ہے۔محمد بن اسحاق بن ابرہیم کوفی {متوفی 275ھ}پہلا شخص ہے جس نے پہلی مرتبہ اس موضوع پر ایک مستقل کتاب{صاحب الزمان }کے عنوان سے لکھا ۔[2]
مہدی موعود {عج}کےبارے میں موجود احادیث اس حد تک قطعی ہیں کہ ابن تیمیہ اوراس کے پیروکار بھی{جوعام طور سے شیعوں کے عقائد کو باطل قرار دیتے ہیں }ان احادیث کے صحیح ہونےکاعقیدہ رکھتےتھے ۔ ابن تیمیہ نے مسند احمد،صحیح ترمذی اور سنن ابو داوو سےاستناد کرتاہوامہدی موعود {عج}کے بارے میں نقل شدہ احادیث کو صحیح السند قرار دیا ہے[3] تعجب کی بات یہ ہے کہ ابن خلدون ان احادیث کے بارے میں اعتراض کرتےہوئے لکھتےہیں: ان میں سے بعض احادیث کے علاوہ تمام احادیث قابل مناقشہ ہیں ۔[4]
اسلامی محققین{شیعہ و سنی}نے ابن خلدون کے کلام پر اعتراض کرتےہوئے اسے بے بنیاد قرار دیا ہے ۔اہل سنت کے محقق ڈاکٹر عبد الباقی لکھتےہیں:مہدی موعود {عج} کے بارے میں تقریبا اسی{۸۰}روایتوں پر مشتمل ایک عظیم مجموعہ موجود ہےجن کے راویوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ جاتی ہے۔علاوہ ازیں صحاح و مسانید کے مصنفین نے بھی ان احادیث کوذکر کیا ہے۔بنابریں کیا اس عظیم مجموعے کو باطل قرار دے سکتے ہیں؟ اگر ان احادیث کےبارے میں شک کرنا صحیح ہوں تو تمام روایات شک کے دائرے میں ہوں گی جس کے نتیجے میں سنت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمپر حرف آجائے گا جبکہ علمائے سلف کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی اس مسئلے پر خدشہ وارد نہیں کیا ہے بلکہ گذشہ علماء اس مسئلہ کی تفسیر اور تحلیل کیا کرتے تھے ۔[5]علاوہ ازیں ابن خلدون نےبہت سارے اعتراضات کرنے کےبعد ان احادیث میں سے بعض کے صحیح ہونے کا اقرار بھی کیا ہے ۔واضح ہے کہ اس عقیدے کے بارے میں اگر ایک حدیث بھی موجود ہوں تب بھی اسے چھوڑ نہیں سکتے بلکہ اسے قبول کرتے ہوئے دوسری متواتراحادیث کو اس کے لئے موٴیدقرار دینا چاہیے اگرچہ یہ احادیث سند کے اعتبار سے کامل نہ بھی ہو ں۔
ابن خلدون کے کلام سےبھی زیادہ مضحکہ خیز احمد امین کا کلام ہے۔ اس کے خیال کےمطابق شیعوں نےبنی امیہ کے عکس العمل میں{کیونکہ انہوں نے عثمان اور دوسرے اصحاب کے فضائل میں احادیث گھڑلیاتھا}بہت ساری احادیث حضرت علیعلیہ السلام کے فضائل اور مہدی موعود کے بارے میں گھڑ لئےہیں لیکن چونکہ یہ روایات علمائے اسلام کے نزدیک مورد قبول تھیں اس لئے انہوں نے بھی اس جعلی احادیث کو قبول کیا ۔[6]
{احمد امین کے اس من گھڑت کلام کا جواب }پہلی بات یہ کہ حضرت علیعلیہ السلام کے فضائل صرف شیعوں کی کتابوں میں موجود نہیں ہیں بلکہ آپ ؑکےوہ تمام فضائل جوشیعہ کتب میں موجود ہیں اہل سنت کی کتابوں میں بھی موجود ہیں ۔بنابریں شیعوں کے لئے کیا ضرورت تھی کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کے فضائل میں احادیث جعل کریں ؟
دوسری بات یہ کہ شیعہ بنی امیہ کی حکومت کے زمانے میں بدترین اجتماعی و سیاسی شرائط کے حامل تھے یہاں تک کہ حضرت علیعلیہ السلام کے مسلم فضائل کو بھی نقل نہیں کر سکتے تھے۔ ایسی صورتحال میں شیعہ کس طرح بنی امیہ کےردعمل میں احادیث جعل کرسکتے ہیں ؟
تیسری بات یہ کہ اہل سنت کے محدثین اور مولفین نے کس طرح شیعوں سے مہدی موعود {عج}کے بارے میں جعلی احادیث قبول کئے حالانکہ ان کے نزدیک کسی روایت کے ضعیف ہونے کے لئے کافی ہے کہ اس کا روای شیعہ ہو ۔[7]
مہدی موعود{عج} کے نسب کے بارے میں متعدد روایات نقل ہوئی ہیں جن میں حسب ذیل نکات کی تاکیدہوئی ہے:
1۔ مہدی موعود امت اسلامی سے ہے ۔یہ مطلب بعض روایات میں خاص طریقے سےبیان ہواہے ۔علاوہ ازیں آپ {عج} کےنسب کے بارے میں موجوداحادیث سے بھی یہ مطلب ثابت ہو جاتا ہے ۔بنابریں مہدی موعود {عج} کا امت اسلامی سے ہونے میں کوئی شک و تردید نہیں ہےالبتہ صرف ایک روایت اس طرح سے نقل ہوا ہے {لا مهدی الا عیسی بن مریم}عیسی بن مریم کے علاوہ کوئی اور مہدی نہیں ہے ۔ اسلامی محدثین نے اس حدیث کو یا جعلی قرار دی ہے یا دوسری متواتر روایات کے ساتھ مطابقت نہ رکھنے کی بنا پر اسے غیر معتبر قرار دی ہے یا اس حدیث کی تاویل کی ہے ۔[8]
2۔مہدی موعود {عج}اہلبیت پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ہے ۔ اس سلسلے میں389 احادیث موجود ہیں ۔
3۔مہدی موعود {عج} حضرت علیعلیہ السلام کی اولادوں میں سے ہے ۔اس سلسلے میں 214احادیث موجود ہیں ۔
4۔مہدی موعود {عج}حضرت فاطمہ علیہا السلام کی اولاد میں سے ہے ۔اس سلسلے میں 192احادیث موجود ہیں ۔
5۔مہدی موعود {عج}امام حسین علیہ السلام کی نسل سےنویں فرزند ہیں ۔اس سلسلے میں 148احادیث موجود ہیں ۔
6۔مہدی موعود {عج}امام حسن عسکری علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے ۔اس سلسلے میں 146 احادیث موجودہیں ۔
مہدی موعود {عج}کا حضرت علیعلیہ السلام اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی اولاد ہونے میں شیعہ ا و راہل سنت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن آپ{عج} کے امام حسن علیہ السلام کی اولاد ہونے یا امام حسین علیہ السلام کی اولاد ہونےکے بارے میں دو نظریے موجود ہیں ۔شیعہ اس بات پرمتفق ہے کہ آپ {عج}امام حسین علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور یہ نظریہ اہلسنت کے یہاں بھی مشہور ہے۔دوسرا نظریہ یہ ہےکہ آپ {عج}امام حسن مجتبی علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں ۔بعض روایات کے مطابق آپ {عج}امام حسن اور امام حسین علیہم السلام دونوں کے فرزندہیں ۔ مہدی موعود {عج} کے امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کی طرف نسبت قابل توجیہ ہے یعنی آپ {عج}کا نسب باپ کی طرف سے امام حسین علیہ السلام اور ماں کی طرف سے امام حسن علیہ السلام پر ختم ہوتا ہےکیونکہ امام محمد باقر علیہ السلام کی مادر گرامی جناب فاطمہ امام حسن مجتبی علیہ السلام کی بیٹی تھیں ۔ بنابریں امام باقر علیہ السلام اور آپؑ کے بعد امام زمانہ{عج} تک تمام ائمہ اہلبیت علیہم السلام امام حسن علیہ السلام کی نسل سے بھی ہیں اور امام حسین علیہ السلامکی نسل سےبھی۔ لہذا امام مہدی {عج }حسینی بھی ہیں اور حسنی بھی لیکن جن روایات میں آپ{عج} کے نسب کو صرف حسنی قرار دیا گیا ہے وہ قابل استناد نہیں ہیں کیونکہ ابو داودسے جو روایت نقل ہوئی ہے اس میں آپ{عج} کو امام حسن علیہ السلام کا فرزند قرار دیا گیاہے جبکہ ترمذی ،نسائی اور بیہقی سے جو روایت نقل ہوئی ہیں اس میں آپ {عج} کو امام حسینعلیہ السلام کا فرزند قرار دیا گیاہے۔ بنابریں ابو داود کے نقل میں سہوا کلمہ {حسین}کی جگہ پر {حسن}لکھے جانے کا احتمال موجود ہے کیونکہ ان روایتوں کی تعدادجن میں آپ {عج}کو امام حسینعلیہ السلام کا فرزند قرار دیا گیا ہے بہت ہی زیادہ ہے اورسند کے لحاظ سےبھی یہ روایات دوسری روایات کی نسبت صحیح تر ہیں ۔بنابریں ان تمام روایات کو چھوڑ کر مذکورہ حدیث{جس میں جناب عیسی{ع} کو مہدی موعود قرار دیا گیاہے}پر استناد نہیں کیاجا سکتا ہے ۔[9]
حوالہ جات:
[1] ۔مسند احمد بن حنبل، ج1،ص99 ۔
[2] منتخب الاثر، آیۃ اللہ صافی گلپایگانی ،ص 322 – 340۔
[3] فہرست ،ابن ندیم،ص223۔
[4] نظریۃ الامۃ،احمد محمود صبحی ،ص405۔
[5] مقدمہ ابن خلدون ،ص391 – 322۔
[6] بین یدی الساعۃ،ص125۔
[7] فجر الاسلام ،ص337۔
[8] اعیان الشیعۃ ،ج1،ص55۔
[9] المہدی ،ص46۔