• صارفین کی تعداد :
  • 2160
  • 1/18/2018 2:58:00 PM
  • تاريخ :

غلو اور غالیان ائمہ معصومین علیہم السلام کی نظر میں

غلو کا لغوی معنی حد سے تجاوز کرنا ہے، یعنی کسی فرد یا چیز کے بارے میں حد سے تجاوز کرتے ہوئے اس کی صفت بیان کرنا۔ حقیقت میں غلو کا لغوی معنی کسی فرد یا چیز کے بارے میں مبالغہ کرنا ہے، جبکہ شرعی اصطلاح میں غلو سے مراد انبیاء و اولیاء کے بارے میں حد سے تجاوز کرتے ہوئے ان کی ربوبیت اور الوہیت کا عقیدہ رکھنا ہے

 

غلو اور غالیان ائمہ معصومین علیہم السلام کی نظر میں

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

غلو کا لغوی معنی حد سے تجاوز کرنا ہے، یعنی کسی فرد یا چیز کے بارے میں حد سے تجاوز کرتے ہوئے اس کی صفت بیان کرنا۔ حقیقت میں غلو کا لغوی معنی کسی فرد یا چیز کے بارے میں مبالغہ کرنا ہے، جبکہ شرعی اصطلاح میں غلو سے مراد انبیاء و اولیاء کے بارے میں حد سے تجاوز کرتے ہوئے ان کی ربوبیت اور الوہیت کا عقیدہ رکھنا ہے۔ تاریخ میں بہت سارے افراد ایسے گزرے ہیں، جنہوں نے انبیاء و اولیاء کے بارے میں حد سے تجاوز کیا ہے، جنہیں غالی یا غالیان کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم اہل کتاب کو حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں غلو کرنے سے منع کرتا ہے، چنانچہ قرآن کریم اس بارے میں فرماتا ہے:{يَأَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُواْ فىِ دِينِكُمْ وَ لَا تَقُولُواْ عَلىَ اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسىَ ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَ كَلِمَتُه}۱"اے اہل کتاب! اپنے دین میں غلو سے کام نہ لو اور خدا کے بارے میں حق بات کے سوا کچھ نہ کہو، بے شک {مسیح} عیسٰی بن مریم صرف اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں۔" اہل کتاب {عیسائی} حضرت عیسٰی علیہ السلام کے حق میں غلو کرتے ہوئے ان کی الوہیت کا عقیدہ رکھتے تھے۔ قرآن کریم اس سلسلےمیں فرماتا ہے: {لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُواْ إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَم}۲"وہ لوگ یقیناً کافر ہوگئے جو کہتے ہیں کہ مسیح بن مریم ہی خدا ہیں۔" حالانکہ حضرت عیسٰی علیہ السلام بھی دوسرے انبیاء کی طرح نبی تھے، جو ہرگز مقام الوہیت پر فائز نہیں تھے۔ چنانچہ قرآن کریم اس سلسلے میں فرماتا ہے: {مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُل}۳"مسیح بن مریم تو صرف اللہ کے رسول ہیں، ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔"

دین میں غلو کرنے سے ایک طرف انسان مقام ربوبیت اور الوہیت کی حد تک پہنچ جاتا ہے تو دوسری طرف سے مقام الوہیت اور ربوبیت کا معیار اس حد تک نیچے آجاتا ہے کہ انسان خدا کے بارے میں جسمانی صفات کا قائل ہو جاتا ہے۔ اسی لئے قرآن کریم پہلے اہل کتاب کو خدا کے بارے میں ناحق کہنے سے منع کرتا ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: {لا تقولوا علی الله الا الحق}"خدا کے بارے میں حق بات کے سوا کچھ نہ کہو۔" اس کے بعد حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں ان کے عقیدے کو مردود قرار دیتا ہے اور اس کے بعد فرماتا ہے: {انما المسیح عیسی بن مریم رسول الله و کلمته}"بے شک {مسیح} عیسٰی بن مریم صرف اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں۔" بنابریں دین میں غلو کرنا تشبیہ اور تجسیم کا بھی باعث بنتا ہے، لیکن اس کے برعکس تشبیہ اور تجسیم کے قائل ہونے کا لازمہ ہمیشہ غلو کرنا نہیں، یعنی تشبیہ اور تجسیم کا قائل ہونا غلو کا سبب نہیں بنتا ہے۔ البتہ خدا کے بارے میں حلول کا عقیدہ رکھنا دین میں غلو کا باعث بنتا ہے، کیونکہ خدا کا کسی انسانی جسم میں حلول کرنے یا کسی کے جسم میں سما جانے کا لازمہ یہ ہے کہ وہ شخص بھی الوہیت کے مقام پر فائز ہے۔{جبکہ یہ خلاف توحید ہے}۔ دین اسلام کے اعتقادی مسائل میں جتنے انحرافات ظاہر ہوئے ہیں، ان میں سے ایک غلو اور غالیوں کا ظہور ہے۔ غالی وہ لوگ ہیں جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت علی علیہ السلام اور دوسرے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی الوہیت اور خداوند متعال کا ان کے جسم میں حلول کرنے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ تاریخی واقعات کے مطابق دین اسلام میں سب سے زیادہ غلو حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں واقع ہوا ہے۔ شیخ مفید غالیوں کے بارے میں لکھتے ہیں: غلاۃ دین اسلام کا دکھاوا کرنے والے لوگ ہیں، جنہوں نے امیر المومنین علیہ السلام اور ان کی اولاد پاک کے سلسلے میں الوہیت اور نبوت کی نسبت دی۔ یہ افراد گمراہ اور کافر تھے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے ان کے قتل کا حکم دیا تھا، جبکہ دوسرے ائمہ اہلبیت علیہم السلام نے بھی انہیں کافر اور دین سے خارج قرار دیا تھا۔۴

غالیوں کے کچھ عقائد جو غلو شمار ہوتے ہیں حسب ذیل ہیں:
1۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، امیرالمومنین علیہ السلام یا ائمہ اہل بیت علیہم السلام میں سے کسی ایک کی الوہیت اور ربوبیت کا عقیدہ رکھنا۔
2۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، امیرالمومنین علیہ السلام یا ائمہ اہل بیت علیہم السلام کو کائنات کی تدبیر اور چلانے کا اختیار حاصل ہے۔{یعنی خلقت اور رزق کو ان سے متعلق جاننا}
3۔ امیر المومنین علیہ السلام، ائمہ اہل بیت علیہم السلام اور امت اسلامی میں سے کسی ایک کی نبوت کا اعتقاد رکھنا۔
4۔ کسی کے بارے میں وحی اور الہام کے بغیر علم غیب جاننے کا عقیدہ رکھنا۔
5۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی شناخت، معرفت اور ان کی محبت، انسان کو خدا کی عبادت سے بے نیاز کرکے ہر قسم کے شرعی فرائض سے مستغنی کر دیتی ہے۔5
شیخ مفید  غلو کے علائم کے بارے میں لکھتےہیں: غلو ثابت ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ کوئی ائمہ معصومین علیہم السلام کے حدوث کی نفی کرے اور ان کی الوہیت نیز ان کے قدیم ہونے کا عقیدہ رکھے۔ وہ مفوضہ اور غالیوں کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: مفوضہ بھی غالیوں کا ایک گروہ ہے اور ان دونوں فرقوں میں فرق صرف یہ ہے کہ مفوضہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کو حادث اور مخلوق قرار دیتے ہیں، لیکن ان کا عقیدہ یہ ہے کہ خداوند متعال نے انہیں خلق فرمانے کے بعد کائنات کو چلانے اور موت و حیات نیز رزق تقسیم کرنے کا اختیار انہیں کے سپرد کر دیا ہے۔6

ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے ہمیشہ سختی سے غالیوں کی مخالفت کی ہے، چنانچہ اس سلسلے میں بے شمار احادیث نقل ہوئی ہیں، علامہ مجلسی  نے بحار الانوار کی پچیسویں جلد میں اس بارے میں ایک سو{100} احادیث کو نقل کیا ہے۔ جن میں سے بعض احادیث بطور نمونہ پیش کرتے ہیں:
1۔ امام جعفر صادق علیہ السلام{اپنے پیروکاروں کو نصیحت کرتے ہوئے} فرماتے ہیں: {احذرواعلی شبابکم الغلاة لا یفسدوهم فان الغلاةشرخلق الله ،یصغرون عظمة الله و یدعون الربوبیة لعباد الله ...}۷ "اپنے جوانوں کو غالیوں سےبچاو، ایسا نہ ہو کہ وہ ان کے دینی اعتقادات کو فاسد کر دیں، حقیقت میں غالی بدترین لوگ ہیں، یہ عظمت خدا کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور خدا کے بندوں کے لئے ربوبیت اور الوہیت کے دعویدار ہیں۔"
2۔ حضرت علی علیہ السلام خدا کی بارگاہ میں غالیوں سے برائت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: {اللهم إنی بریء من الغلاة کبرائة عیسی بن مریم من النصاری،اللهم اخذلهم أبدا و لا تنصر منهم أحدا}۸"خدایا میں غلو کرنے والوں سے ایسے ہی بیزار ہوں، جس طرح حضرت عیسٰی علیہ السلام نصاریٰ سے بیزار تھے۔ خدایا ان کو ہمیشہ ذلیل و خوار کر اور ان میں سے کسی کی بھی نصرت نہ فرما۔"
3۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:{لعن الله عبدالله بن سباء انه ادعی الربوبیة فی امیرالمومنین و کان و الله امیرالمومنین عبدا لله طائعا،الویل لمن کذب علینا،وان قوما یقولون فینا مالا نقول فی انفسنا، نبرءالی الله منهم، نبرء الی الله منهم}۹"خدا عبد اللہ بن سباء پر لعنت کرے، وہ امیرالمومنین علیہ السلام کی ربوبیت کا قائل تھا، جبکہ خدا کی قسم آپ ؑخدا کے عبادت گزار اور خالص بندے تھے، ہم پر بہتان باندھنے والوں پر وائے ہو، ایک گروہ ہمارے بارے میں وہ کہتا ہے، جو خود ہم اپنے بارے میں نہیں کہتے۔ ہم ان سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، ہم ان سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔"
4۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس جب غالیوں کے بارے میں گفتگو ہوئی تو آپ ؑنے فرمایا: "ان کے ساتھ ہر قسم کی نشست و برخاست سے پرہیز کرو۔"
5۔ آپ ؑدوسرے مقام پر فرماتے ہیں:"خدا کی لعنت ہو اس شخص پر، جو ہمیں پیغمبر اور نبی سمجھتا ہے۔"۱۰
6۔ امام رضا علیہ السلام فرماتےہیں: "غلاۃ کافر اور مفوضہ مشرک ہیں، جو کوئی بھی ان کے ساتھ رفت و آمد رکھے، کھائے پیئے، صلہ رحمی کرے، شادی کرے یا ان کے مال کو اپنے پاس امانت رکھے یا ان کی باتوں کی تصدیق کرے یا صرف کسی ایک کلمے سے ہی ان کی مدد کرے، وہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ہم اہل بیت علیہم السلام کی ولایت سے خارج ہو جائے گا۔"۱۱

شیعہ متکلمین نے بھی ہمیشہ غالیوں کو کافر اور مشرک قرار دیتے ہوئے ان سے برائت کا اظہار کیا ہے۔ یہاں ہم بعض شیعہ متکلمین کے نظریات بیان کرتے ہیں:
الف: ابو اسحاق ابراہیم بن نوبخت غالیوں کے عقائد کو رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: {وقول الغلاة یبطل اصله، استحالته کون الباری تعالی جسما،ومعجزات امیرالمومنین معارضة بمعجزات موسی وعیسیعلیهم السلام}۱۲"خداوند متعال کے لئے جسم ہونا محال ہے، اس لئے غالیوں کا نظریہ سرے سے باطل ہو جاتا ہے۔ ان لوگوں نے امیر المومنین علیہ السلام کے معجزات کو آپ کی الوہیت اور ربوبیت کے لئے دلیل قرار دیا ہے جبکہ یہ دلیل باطل ہے، کیونکہ حضرت موسٰی علیہ السلام اور حضرت عیسٰی علیہ السلام بھی صاحب معجزہ تھے، لیکن وہ مقام الوہیت اور ربوبیت پر فائز نہیں تھے۔"
ب: شیخ صدوق لکھتے ہیں: "غلاۃ اور مفوضہ کے بارے میں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ وہ کافر باللہ ہیں۔"۱۳
ج: شیخ مفید غالیوں کے بارے میں لکھتے ہیں: "غلاۃ دین اسلام کا دکھاوا کرنے والے لوگ ہیں، جنہوں نے امیرالمومنین علیہ السلام اور ان کی اولاد پاک کی طرف الوہیت اور نبوت کی نسبت دی تھی۔ یہ افراد گمراہ اور کافر تھے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے ان کے قتل کا حکم دیا تھا اور دوسرے ائمہ اہلبیت علیہم السلام نے بھی انہیں کافر اور دین سے خارج قرار دیا تھا۔"۱۴
د: علامہ حلی اس سلسلے میں تحریر فرماتے ہیں: "غالیوں کا ایک گروہ امیر المومنین علیہ السلام کی الوہیت اور دوسرا گروہ آپ ؑکی نبوت کا قائل تھا، حالانکہ یہ عقیدہ باطل ہے، کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الرسل ہیں، اسی طرح یہ بھی ثابت ہے کہ خدا صاحب جسم نہیں ہے اور خدا کا کسی شئی میں حلول کرنا اور کسی کے جسم میں سما جانا محال ہے۔"۱۵

ھ: علامہ مجلسی غلو کے مصادیق ذکر کرنے کے بعد لکھتےہیں: "مذکورہ موارد میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی عقیدہ رکھنا کفر اور دین سے خارج ہونے کا باعث بنتا ہے۔ دلائل عقلی اور آیات و روایات بھی اس بات پر دلالت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے بھی غالیوں سے برائت کا اظہار کرتے ہوئے ان کے کافر ہونے اور ان کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔ بنابریں اگر کسی حدیث میں اس کے خلاف کوئی مطلب موجود ہو تو اسے تاویل کرنا چاہیے اور اگر وہ قابل تاویل نہ ہو تو حتماً وہ غالیوں کی من گھڑت باتیں ہیں۔"۱۶
علامہ مجلسی  لکھتے ہیں: "پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں غلو کا مطلب یہ ہے کہ انہیں خدا کے نام سے پکارا جائے یا عبادت و پرستش میں انہیں خدا کا شریک قرار دیا جائے یا خلقت اور رزق کو ان سے متعلق جانیں، یا یہ اعتقاد پیدا کریں کہ خدا ان میں حلول کر گیا ہے یا کہیں کہ وہ خدا کی طرف سے الہام کے بغیر علم غیب سے آگاہ ہیں، یا ائمہ اہل بیت علیہم السلام کو پیغمبر جانیں، یا تصور کریں کہ ان کی شناخت اور معرفت ہمیں خدا کی عبادت سے بےنیاز کرکے ہر قسم کے فرائض الٰہی سے مستغنی کر دیتی ہے۔ علاوہ ازیں شیعوں کی کلامی اور فقہی کتابوں میں بھی اس سلسلے میں صراحت کے ساتھ مطالب موجود ہیں، جن کو ذکر کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔"

حوالہ جات:
۱۔ نساء،171
۲۔ مائدۃ،72
۳۔ مائدۃ،75
۴۔ التبصیر فی الدین،ص147
5۔ بحار الانوار، ج25، ص346
6۔ تصحیح الاعتقاد، ص109
۷۔ بحار الانوار ج25، ص265۔ امالی شیخ طوسی
۸۔ ایضاً
۹۔بحار الانوار، ص 286۔ رجال کشی، ج6، ص324، شمارہ 174
۱۰۔ ایضاً 296
۱۱۔ بحار الانوار ج25، ص273۔ عیون اخبارالرضا{ع}
۱۲۔ انوار الملکوت فی شرح الیاقوت، ص201
۱۳۔ الاعتقادات، ص71
۱۴۔ تصحیح الاعتقاد، ص 109
۱۵۔ انوار الملکوت، ص202
۱۶۔ بحار الانوار، ج25، ص