انقلاب اسلامی ایران کا سفر
آج سے اکتیس سال پہلے آج ہی کے دن یعنی یکم فروری انیس سو اناسی کو ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی حضرت امام خمینی رہ پندرہ سالہ جلد وطنی کے بعد اسوقت کے ایران کے ڈکٹیٹر رضا شاہ اور اسکی حکومت کی شدید مخالفت کے باوجود عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی موجودگی میں انتہائی فاتحانہ انداز میں تہران پہنچے۔
آج سے اکتیس سال پہلے آج ہی کے دن یعنی یکم فروری انیس سو اناسی کو ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی حضرت امام خمینی رہ پندرہ سالہ جلد وطنی کے بعد اسوقت کے ایران کے ڈکٹیٹر رضا شاہ اور اسکی حکومت کی شدید مخالفت کے باوجود عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی موجودگی میں انتہائی فاتحانہ انداز میں تہران پہنچے۔ایران میں ہر سال امام خمینی رہ کی اس تاریخی آمد کی مناسبت سے جشن انقلاب کی دس روزہ تقریبات کا آغاز ہوتا ہے۔ہر سال کی طرح اس سال بھی جشن انقلاب کی دس روزہ تقریبات کا آغاز آج صبح نو بجکر تینتیس منٹ پر ہوا۔
چودہ سال اور چند ماہ کی جلا وطنی گذار کر بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ انتہائی فاتحانہ انداز میں جس وقت سرزمین ایران پر قدم فرما ہوئے اس وقت ایران کے معیاری وقت کی مطابق صبح کے نوبجکر تینتیس منٹ ہو رہے تھے۔چنانچہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگره سے مختص عشرہ فجر کا آغاز ہر سال دارالحکومت تہران کے جنوب میں واقع شہدائے انقلاب کی آرام گاہ بہشت زہرا میں اللہ اکبر کے نعروں کے ساتھ اسی مقام سے ہوتا ہے،جہاں امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے ایران پہچنے کی بعد پہلا تاریخی خطاب کیا تھا۔اس دن اور وقت کی مناسبت سے پورے ایران میں بیک وقت اسکولوں میں گھنٹیاں بجا کر انقلاب کی نئی نسل کو اس تاریخی موقع کی یاد آوری کرائی جاتی ہے۔ریل انجنوں،ساحلی علاقوں میں بندر گاہوں پر لنگر انداز بحری جہازوں اور کشتیوں کے ہارن اور کلیساؤں کے ناقوس اور گھنٹیاں بجا کر اس تاریخی موقع کی مناسبت سے جشن انقلاب کی تقریبات میں اپنی شرکت کا اظہار کیا جاتا ہے ۔اس سال بھی اسکول کے ہزاروں طلباء نے بہشت زہرا میں امام خمینی رہ کی آمد سے مخصوص یادگار ترانہ پڑھ کر ان تقریبات کا آغاز کیا۔
کسی بھی انقلاب،تبدیلی یا نئے نظام کے لئے تین بنیادوں کا ہونا اشد ضروری ہے منشور،قیادت اور عوام کی حمایت۔اگر ان تین چیزوں میں سے ایک بھی کمزور یا عدم موجود ہو تو اوّل تو یہ انقلاب کامیاب نہیں ہوتا اور اگر حادثاتی طور پر کامیاب ہو بھی جائے تو اس میں پائیداری اور تسلسل نہیں ہوتا۔ ایران کے اسلامی انقلاب کا اگر اس تین نکاتی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اس انقلاب کا منشور قران اور اسکی تعلیمات تھیں قیادت امام خمینی رہ جیسے صالح مومن اور قرآن شناس فقیہ کے پاس تھی جبکہ عوام کی حمایت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قیادت کے بیرون ملک ہونے اور وقت کی حکومت کے شدید دباؤ اور جبر کے باوجود ایرانی عوام نے کرفیو،فوج کی موجودگی اور
گولیوں اور توپوں کی گھن کرج میں امام خمینی زندہ باد اور آزادی،استقلال اور جمہوری اسلامی کا نعرہ لگاتے ہوئے اپنے قائد کا والہانہ استقبال کیا۔
ایران کا اسلامی انقلاب دنیا کے تمام انقلابوں سے اس لئے بھی منفرد ہے کہ یہ انقلاب فوج کی مدد کے بغیر اور کسی اقتصادی نعرے کے ساتھ کامیاب نہیں ہوا بلکہ اس انقلاب کا منشور اور آئین،قران اور اسلامی حکومت کا قیام تھا۔امام خمینی (رح) اس انقلاب کے محرکات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں میرے عزیز بھائیو! جو چیز ملت ایران اور ہم سب کے لئے بے حد اہم ہے وہ یہ ہے کہ ہم خدائے تبارک و تعالی سے لو لگائے رکھیں اور اس سے ایک لمحہ کے لئے بھی غافل نہ ہوں۔آپ فرماتے ہیں اس نکتے کی طرف متوجہ رہیں کہ ہم نے خدا کے لئے قیام کیا،ہماری تحریک و انقلاب کا مقصد اللہ تھا اور ہم اسی کے لئے آگے بڑھیں گے۔ایران کے اسلامی انقلاب کے الہی اور قرانی ہونے کے ساتھ دوسری بڑی خصوصیت اس کا شرق و مغرب کے رائج بلاکوں سے بے نیاز ہونا ہے۔دنیا میں اب تک جہاں بھی کوئی انقلاب برپا ہوا اس کے پیچھے دو بڑی طاقتوں امریکہ اور روس میں سے کسی ایک کا ہاتھ تھا امام خمینی رہ اس حوالے سے فرماتے ہیں۔ہمارا نہ شرقی نہ غربی کا نعرہ محروموں اور مستضعفوں کی دنیا میں اسلامی انقلاب کا اصولی نعرہ ہے یہ نعرہ اسلامی ممالک اور ان تمام ممالک کی ناوابستہ سیاست کو واضح کرتا ہے۔جو انشاء اللہ مستقبل قریب میں اسلام کو بشریت کے تنہا نجات دہندہ مکتب کے طور پر اپنائیں گے۔آپ فرماتے تھے جب تک میں ہوں،نہ شرقی نہ غربی کے اصول سے ہرگز انحراف نہیں کروں گا۔جب تک میں ہوں امریکہ اور روس کے ہاتھوں کو ہر میدان میں قلم کرتا رہوں گا۔انقلابات کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے ایک مشترک خصوصیت جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ تمام انقلابات کم و بیش فوج کی مدد سے آئے ہیں چاہے اس کی نوعیت کچھ بھی کیوں نہ رہی ہو۔ جدید تاریخ میں فرانس کا انقلاب برپا کرنے میں سپاہیوں کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ انگلستان میں اولیور کرامویل کی قیادت میں بادشاہیت کے خلاف جو انقلاب برپا ہوا تھا اس میں بھی فوج کا حصہ نمایاں ہے۔امریکہ نے انگلستان کے خلاف جو جنگ آزادی لڑی تھی وہ فوج ہی کی مدد سے لڑی تھی۔دور جدید کا سب سے بڑا انقلاب روس کا انقلاب ہے اس میں اگر فوج لینن کا ساتھ نہ دیتی تو اس کی کامیابی ناممکن تھی۔چین کا سرخ انقلاب بھی فوجی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔یوں کہیئے کہ جب کبھی انقلاب برپا ہوتا ہے فوج اس کے ساتھ ہو تو کامیاب ہو جاتا ہے ورنہ ناکامی اس کا مقدر ہوتی ہے۔لیکن ایرانی انقلاب تاریخ انسانیت کا وہ پہلا انقلاب ہے جس میں ڈھائی ہزار سال پرانی شہنشاہیت کا تختہ الٹ دیا گیا۔لیکن اس میں فوج نے کوئی حصہ نہیں لیا بلکہ واقعات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ فوج پوری طرح اس انقلاب کے خلاف تھی اور اس نے عوام کو قتل و غارت کے سیلاب
میں غرق کر دینے کی پوری کوشش کی۔ہزاروں غیر مسلح ایرانی مرد،عورتیں،بچے،اپنے ہی ملک کے فوج کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرنے پر مجبور ہوئے اور ہزاروں افراد آج بھی فوج کی چیرہ دستیوں کے زندہ گواہ ہیں۔لیکن عوامی طاقت کے سیلاب نے نہ صرف شاہ کی فوج کو شکست دی بلکہ اس کے پس پشت کارفرما مغربی طاقتوں کو بھی ڈبکیاں دیں۔ایرانی ایئرفورس انقلاب کے آخری مرحلے میں عوام کی صف میں شامل ہوئی ہے اور اس کو انقلاب کی کامیابی کا سبب نہیں بلکہ نتیجہ کہنا زیادہ مناسب ہے۔اس انقلاب کی ایک اور خصوصیت جو اسے تمام انقلابوں اور حکومتی تبدیلیوں سے ممتاز کرتا ہے اس کا حکومتی نظام ہے جس نے شرق و غرب کے نظاموں میں ہلچل پیدا کر دی۔امام خمینی رہ اور آپ کی علماء اور دانشوروں پر مشتمل ٹیم نے قرآنی اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں " ولایت فقیہ" کا حکومتی نظام رائج کر کے دنیا پر ثابت کر دیا ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس کے پاس نظام حکومت سمیت زندگی کے تمام شعبوں کے لئے پروگرام موجود ہے۔ایران کی اسلامی حکومت کا طرز حکومت ولایت فقیہ یعنی ایک عادل عالم اور اسلام و قران شناس فقیہ کی سربراہی میں حکومتی نظام کی تشکیل ہے جسے عرف عام میں اسلامی جمہوریہ کی حقیقی تصویر قرار دیا جا سکتا ہے۔اس نظام کے تحت خود ولی فقیہ بھی عوام کا منتخب کیا ہوا ہے اور صدر مملکت اور پارلیمنٹ بھی عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں۔ولی فقیہ کو ماہرین کی کونسل خبرگان انتخاب کرتی ہے جبکہ خبرگان کا انتخاب عوام کرتے ہیں۔آج اکتیس برس کے بعد بھی ایران کا اسلامی انقلاب شرق و غرب کے دشمنوں اور تمام تر سامراجی مخالفتوں کے باوجود،حق و حقیقت اور ترقی و پیشرفت کے راستے پر گامزن ہے تو اسکی بنیادی وجہ اسکا اسلامی جمہوری اور ولایت فقیہ کا الہی نظام ہے۔جس نے ہر مشکل اور بحران میں ایران کے نظام کو کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کیا۔آج بھی امریکہ،برطانیہ اور سامراجی اداروں کی دشمنی اور شدید مخالف کے باوجود،امام خمینی (رح) کے جانشین ولی فقیہ قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای،امام خمینی (رح) کے راستے اور تعلیمات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں اور ولایت فقیہ کے نظام کی کامیابی کی اس سے بڑی دلیل کیا ہو گی کہ عالمی سامراج تمام تر کوششوں کے باوجود ایران کے اسلامی نظام کو تبدیل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
news.aqr.ir