نظریہ مہدویت، اور ہماری ذمہ داریاں
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے زمانۂ غیبت میں امت اسلامیہ کا ایک بڑا فریضہ یہ ہے کہ وہ امام کی صحیح پہچان اور معرفت پیدا کرے ۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے زمانۂ غیبت میں امت اسلامیہ کا ایک بڑا فریضہ یہ ہے کہ وہ امام کی صحیح پہچان اور معرفت پیدا کرے ۔ کسی بھی حقیقت کی شناخت ، اس راہ حقیقت کے بغیر کسی بھی دوسری راہ سے ممکن نہیں ہے اگر کوئی اپنے امام کو صرف اس کے تعارف نامے کی حد تک جانتا ہے تو در حقیقت وہ امام کو نہیں پہچانتا!حدیث شریف ہے کہ جو شخص بھی مرگیا اور اپنے امام کو نہ پہچان سکا اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔اب یہ معرفت جس قدر گہری ہوگي اتنا ہی انسان جاہلیت سے دور ہوگا۔ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد جہاں دین اور اسلام کے حوالے سے بہت سے مفید اور ضروری کام انجام پائے، ایک نمایاں کام نظریہ مہدویت کو پروان چڑھانا تھا۔ چنانچہ اس سلسلے میں ایران میں متعدد تحقیقاتی اور علمی کانفرنسوں اور سیمناروں کا انعقاد کیا گیا جن میں ساری دنیا سے بلا تفریق مذہب ملت، مسلمان اسکالرز اور نظریہ مھدویت کے حامی غیر مسلمان دانشوروں کو دعوت دی گئی کہ جنہوں نے اس میدان میں بہت ہی مفید خدمات انجام دی ہیں۔اس میں دو رائے نہیں کہ نظریہ مہدویت اور منجی علم بشریت کا تصور کسی نہ کسی شکل میں قوموں میں موجود رہا ہے خاصطور پر عالم تشیع کا اس پر ایمان و یقین دیگر مکاتیب فکر کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اور اس سلسلے میں ایرانی علما اور دانشور حضرات نیز نظریہ مھدویت کے ماہرین کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اور اس یہ چیز بھی واضح ہوجاتی کہ انیبیا علیہم السلام کی زحمتوں اور محنتوں کا سارا نچوڑ یہی نظریہ ہے چنانچہ رہبرانقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ کا یہ فرمانا اگرمہدویت نہ ہوتی توانبیاء کی تمام کوششیں رائگاں چلی جاتیں اس موضوع اہمیت کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی دعوت ہے کہ مسلمان مفکرین اس پر مزید کام کریں لوگوں کو اس کی اہمیت اورر افادیت سے آشنا کرائیں۔ جیساکہ آپنے ابھی خبورں میں سنا حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نےآج تہران میں مہدویت کےماہرین اساتذہ، محققین اورمولفین سےاپنے خطاب میں فرمایاکہ تمام ادیان الہی میں مہدویت کی حقیقیت کےبارےميں کلی باتیں بیان کی گئي ہيں لیکن یہ موضوع اسلام کےمسلمہ اصولوں میں سے ہے اوراسلامی مذاہب نیز شیعہ مذہب میں مہدویت کےموضوع کوواضح مصادیق اورذاتی خصوصیات کوشیعہ اورغیرشیعہ منابع میں موجود مستند ومعتبر روایات کےذریعےواضح اندازمیں تفصیل کےساتھ بیان کیاگیاہے کہ جس کاانتظارکیاجارہاہے۔رہبرانقلاب اسلامی نےمہدویت کےموضوع کی اہمیت کوبیان کرتےہوئےفرمایاکہ انبیاکی تحریک اورانھیں بھیجےجانےکامقصد انسان کےاندرموجود تمام صلاحیتوں سےاستفادہ کرتےہوئےعدل وانصاف کی بنیاد پرتوحیدکےتناظرميں دنیا بنانا ہے اورامام زمانہ (عج) کےظہورکا دور انسان کی زندگی کےمختلف ذاتی اورسماجی پہلوؤں پرتوحید، معنویت، دین اورعدل وانصاف کی حقیقی حکمرانی کادور ہوگا۔مستند روایات کے مطابق9 ربیع الاول سنہ 260 ھ ق کو حضرت امام حسن عسکری (ع) کی شہادت کے بعد حضرت امام مہدی (عج) کی امامت کا آغاز ہوا ۔حضرت امام مہدی (عج) پروردگار عالم کے حکم سے لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئے ۔ آپ سنہ 328 ھ ق تک اپنے خاص نائبوں کے ذریعے لوگوں کے ساتھ رابطے میں تھے ۔ اس زمانے کو غیبت صغریٰ کہا جاتا ہے ۔اس کے بعد غیبت کبریٰ کا زمانہ شروع ہوگيا ۔ اس زمانے کے لئے آپ نے کسی خاص شخص کو اپنا نائب مقرر نہیں فرمایا بلکہ آپ کے فرمان کے مطابق اسلام شناس ، متقی اور اپنے زمانے سے آگاہ فقہا آپ کے جانشین ہیں ۔ متعدد روایات کے مطابق آپ اسلام کی عالمی حکومت کے لئے قیام کریں گے ۔ جب دنیا ظلم و جور سے پر ہوجائے گی اس وقت آپ ظہور فرمائیں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے پر کردیں گے ۔اپنے آج کے خطاب میں حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نےتاکیدکی کہ مہدویت کےبارےميں ایک اہم اورضروری نکتہ یہ ہےکہ اس موضوع کےحقیقی ماہرین کےہاتھوں عالمانہ ، دقیق اورمضبوط کام انجام پاناچاہئے اورعامیانہ ، جاہلانہ ،غیرمعتبر، اور اوہام وتخیلات پرمبنی کاموں سےپرہیزکرنا چاہئے۔
https://urduold.ws.irib.ir