• صارفین کی تعداد :
  • 18212
  • 8/12/2016
  • تاريخ :

مجلس وحدت مسلمين کے مرکزي ڈپٹي سيکريٹري جنرل علامہ سيد حسن ظفر نقوي کا خصوصي انٹرويو

سید حسن ظفر نقوی کا خصوصی انٹرویو


وحدت نيوز(مانٹرنگ ڈيسک) علامہ سيد حسن ظفر نقوي کا تعلق شہر قائد کراچي سے ہے۔ وہ ايران کي مقدس سرزمين قم المقدس کے فارغ التحصيل ہيں، دنيا بھر ميں انقلابي مجالس پڑھنے کے حوالے سے مشہور ہيں، کراچي سے خصوصي طور پر علامہ ناصر عباس جعفري کا ساتھ دينے کيلئے اسلام آباد ميں لگائے گئے ہڑتالي کيمپ ميں تقريباً 70دن تک موجود رہے، تاہم عارضہ قلب کي تکليف ہونے کے باعث تين دن اسلام آباد کے مقامي اسپتال ميں زيرعلاج رہے، جہاں ان کي انجيوگرافي کي گئي اور بعد ميں انہيں ڈاکٹرز کي ہدايت پر کراچي منتقل کر ديا گيا۔ علامہ حسن ظفر نقوي نے 70 دن تک مظلومين کي آواز بلند کرنے ميں کوئي کسر نہيں چھوڑي۔

 

سوال: 13 مئي سے شروع ہونيوالي اس بھوک ہڑتال سے ابتک کيا اہداف حاصل ہوئے ہيں؟
علامہ سيد حسن ظفر نقوي: مختصراً يہ بتاتا ہوں کہ ہميں يہ کاميابي ضرور ملي ہے کہ لوہے کے کانوں پر لوہے برسانہ شروع کر ديئے ہيں، پوري دنيا ميں ہماري جدوجہد کي بات ہو رہي ہے، عالمي سطح پر اس معاملے کو پذيرائي ملي ہے، مظلوموں کي بات کو اب سنا جا رہا ہے، يہ اسي طويل جدوجہد کا نتيجہ ہے، ابھي نامعلوم کہ کتنے دن اور بيٹھنا پڑے، يہ صبر آزما تحريک ہوتي ہے، ديکھئے کہ کاميابي کے رمز کيا ہيں؟ جب سيلاب آتا ہے تو بڑي بڑي چيزيں بہا کر ساتھ لے جاتا ہے، ليکن پتھر اپنے مقام پر باقي رہتا ہے، ليکن جب اسي بڑے پتھر پر مسلسل تين چار مہينے پاني کا قطرہ ايک مقام پر گرتا رہے تو اس جگہ پر ايک سوراخ بن جاتا ہے۔ يہ پھوک ہڑتال بھي اس قطرے کي ماند ہے، سمندر کا پاني تو ايک بار آ کر چلے جائيگا، ليکن اس بڑے پتھر کا کچھ نہيں بگاڑ سکے گا، ليکن قطرہ اس پر ضرور اثر ڈالے گا، يہ بھوک ہڑتال کا خيمہ بھي اس قطرے کي ماند ہے، اس پتھر ميں سوراخ پڑ چکا ہے، ان کے اندر دو حصے ہو گئے ہيں، يہ دو دھڑوں ميں تقسيم ہو چکے ہيں، ان کي نينديں اڑ چکي ہيں، ہم پوري دنيا ميں اپني مظلوميت منوانے ميں کامياب ہوئے ہيں۔

جيسے گلگت بلتستان ميں زمينوں کا مسئلہ تھا وہ رک گيا ہے، اسي طرح پارا چنار کا مسئلہ تھا، وہ 90 فيصد حل ہو گيا ہے، جيسے پاراچنار کے مومنين چاہتے تھے ويسے ہي حل ہوا ہے۔ مومنين خود کہہ رہے ہيں کہ ہم مطمئن ہيں، جس طرح ہم چاہتے تھے اسي طرح جرگہ بيٹھا ہے اور مسئلہ حل کيا ہے۔  ان کي تفصيلات جلد قوم کو بتائيں گے۔ باقي جگہوں پر نوٹيفيکيشن جلد جاري ہوں گے، کاميابي اور ناکامي اللہ کے ہاتھ ميں ہے، ہم يہاں بيٹھے ہيں۔ ہم اپني استقامت کے ساتھ مطمئن ہيں۔ ہماري تحريک سے قوم مضبوط ہوئي ہے، اس سے اتحاد پيدا ہوا ہے، ہم جو دنيا کو عدم تشدد کي تحريک پيش کرنا چاہتے تھے، اس ميں 100 فيصد کامياب ہوئے ہيں۔  ہم نے باور کرايا ہے کہ تشدد کے ذريعہ تشدد کو ختم نہيں کيا جا سکتا۔ کربلا نے بھي ہميں يہي سکھايا ہے، تلوار کے اوپر خون کي فتح تھي، ہاں دفاع واجب ہے۔ جہاں پر دشمن حملہ آور ہو جائے، اس کا دفاع کريں۔ سيد سجاد اور حضرت زينيب کي تحريک نے يزيديت کو گالي بنا ديا۔ يہ خيمہ ان ظالموں پر قطرے کي ماند سوراخ کرتا رہے گا۔ ابراھہ کے لشکر کو ابابيل کي کنکيريوں نے ختم کيا تھا، اس حکومت کو مظلموم وہ سبق سکھائيں گے کہ يہ ياد رکھيں گے۔

 

سوال: علامہ ناصر عباس جعفري کا کہنا ہے کہ اب شہداء کے ورثاء بيٹھيں گے، کيا کوئي حکمت عملي ميں تبديلي لائي جا رہي ہے؟

علامہ سيد حسن ظفر نقوي: ديکھيں! حکمت عملي پہلے نہيں بتائي جاتي، پہلے سے طے کردہ چيزيں ايک ايک کرکے سامنے آ رہي ہيں، اب دوسري حکمت عملي سامنے آئي ہے، ميں آپ کو بتاتا چلوں کہ شہداء کے خانوادوں کي طرف سے بہت دباؤ ہے۔ آپ کے سامنے ہے کہ سينکڑوں شہداء کے ورثاء يہاں اظہار يکجہتي کيلئے آ چکے ہيں۔ يہ شہداء کے خانوادوں کي طرف سے دباو  ہے کہ اب ايک ہي بندہ فقط بھوک ہڑتال پر نہيں بيٹھے گا، اب شہداء کے ورثاء ايک ايک کرکے بھوک ہڑتال پر بيٹھيں گے۔ ابھي پاکستان مارچ سميت کئي آپشن موجود ہيں۔ ديکھيں آگے کيا ہوتا ہے۔


سوال: حکومت کيساتھ رابطوں کي کيا صورتحال ہے؟

علامہ سيد حسن ظفر نقوي: جي ديکھيں رابطے کيوں نہيں ہوئے، رابطے تو ہوئے ہيں اور مسلسل ہوتے چلے جا رہے ہيں۔ وزير داخلہ چوہدري نثار سے ملاقاتيں ہو چکي ہيں، اسي طرح ڈاکٹر طارق فضل چوہدري سے ملاقات ہوئي ہے، اس کے علاوہ ہوم سيکرٹريز، چيف سيکرٹري سب آتے ہيں اور رابطے ميں ہيں، ليکن مسئلہ وہيں اٹکا ہوا ہے کہ ہم آپ کے مطالبات تسليم کرتے ہيں، بس آپ بھوک ہڑتال ختم کر ديں۔ بھائي مسئلہ ماننے يا تسليم کرنے کا تھوڑا ہي ہے، مسئلہ يہ ہے کہ عملي طور پر کچھ چيزيں تو جاري کريں ناکہ کوئي چيز لکھنے ميں سامنے تو آئيں ناں، کوئي نوٹيفکيشن جاري ہوئے، کچھ تو عملي ہو، ہم کوئي ضد پر تھوڑا اڑے ہوئے ہيں، بھائي آپ خود کہتے ہيں کہ آپ کے مطالبات آئيني اور قانوني ہيں، بس اس پر عمل کريں اتني سي بات ہے۔ ہم بار بار کہہ رہے ہيں کہ کسي حکومت گرانے کي تحريک کا حصہ نہيں بن رہے۔ اس کو ہم نے بار بار کہا ہے اور زور ديکر کہا ہے۔ ہماري تحريک فقط اہل تشيع کے حقوق کيلئے ہے۔ اس کو مان لو، ہم اٹھ کر چلے جائيں گے۔ ہم صاف کہہ رہے ہيں کہ ہم کسي ايجنڈے کے تحت نہيں بيٹھے ہيں۔


سوال: اہم مطالبات کيا ہيں، جن پر عمل درآمد شروع ہو جائے تو  آپ لوگ اٹھ جائيں گے؟
علامہ سيد حسن ظفر نقوي: پنجاب اور کے پي کے ميں اور بالخصوص ڈيرہ اسماعيل خان ميں دہشتگردوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپريشن ہونا چاہيے۔ بلآخر کراچي ميں آپريشن ہوا يا نہيں۔ آخر فاٹا ميں آپريشن ہوا يا نہيں ہوا، چھوٹو گينگ کو پکڑنے کيلئےآرمي جاتي ہے يا نہيں؟ ہمارا سوال يہي ہے کہ جب فاٹا ميں آپريشن  ہو سکتا ہے تو ڈيرہ ميں کيوں  آپريشن نہيں کيا جاتا، وہاں  آرمي کو کيوں نہيں اختيارات ديئے جاتے۔ ايپکس کميٹي کا اجلاس تو وزيراعلي نے بلانا ہوتا ہے، ابتک اجلاس کيوں نہيں بلايا جاتا۔  پنجاب ميں ہزاروں عزاداروں کے خلاف ايف آرز درج ہيں، ان کو واپس ليا جائے ۔گلگت بلتستان کي زمينيوں پر کيوں قبضہ کيا جا رہا ہے۔  سي پيک پر کام کرو گے تو کيا زمينوں پر قبضے کرو گے، جن لوگوں نے اپنے زور بازو سے ڈوگرا راج سے خطے کو آزاد کرايا اور اپنے آپ کو پاکستان کے حوالے کر ديا، تم ان کي زمينيں چھين رہے ہو، بالش خيل کي زمينيں چھين رہے ہو، جنہوں نے طالبان کے خلاف جنگ لڑي۔ آج تم انہي دہشتگردوں کو لا کر آباد کر رہے ہو۔ جو لوگ پاکستان سے محبت کرتے ہيں، ان کے دلوں ميں نفرت ڈال رہے ہو۔  ہمارے سيدھے سيدھے مطالبات ہيں، ان عمل کرو، ہم چلے جائيں گے۔ دو تين مطالبات مان لئے ہيں، باقي بھي مان لو، ہم چلے جائيں گے۔

 

سوال: کشمير کے معاملے پر ملت جعفريہ کا کيا موقف ہے؟عجب ہے کہ تشيع کشمير کے معاملے پر وہ جذبہ جو قدس کے معاملے پر دکھاتي ہے وہ نہيں دکھاتي، جبکہ ديوبند اور اہل سنت حضرات جتنا جذبہ کشمير کے معاملے پر دکھاتے ہيں، وہ قدس کيلئے نہيں دکھاتے، جبکہ دونوں اطراف ميں مر مسلمان ہي رہے ہيں۔  اسکي وجہ بھي بيان فرما ديں؟

علامہ سيد حسن ظفر نقوي: ہمارا کشمير پر اٹل فيصلہ ہے۔  بدقسمتي سے معاملہ کو شيعہ سني بنا ديا گيا ہے اور تفريق ڈال دي گئي ہے، 65ء کي جنگ کے بعد سے پوري ملت جس ميں بلاتخصيص مذہب و فرقہ سب نے کشمير کے معاملے پر ايک ہي موقف اپنايا ہے۔  ہم مسلمانوں ہونے کے ناطے اور پاکستاني ہونے کے ناطے کشميريوں کے ساتھ ہيں۔ مجلس وحدت مسلمين اپني ذاتي حيثيت ميں کشميريوں کے معاملے پر جو کر سکتي تھي وہ کيا ہے، ہم نے مظاہرے بھي کئے ہيں، مشعل بردار ريلياں بھي نکالي ہيں۔  تيسري بات کہ ہميں حکمت کے ساتھ چلنا پڑتا ہے، گذشتہ کچھ عرصے سے جس طرح ملک کو شدت پسندي کي طرف لے جايا گيا، کشمير افغانستان کے معاملے پر ہم نہيں چاہتے کہ ہمارے جوان اس ميں اس طرح شامل ہوں اور ان کي لسٹيں عالمي سطح پر جائيں، بدقسمتي کے ساتھ اس طرح ماضي ميں رہا ہے۔ بعد ميں وہي جہادي دہشتگرد بن گئے۔

جن لوگوں نے افغانستان اور ديگر جگہوں پر جہاد کيا، اس پر ان کو بھي، ان کے خاندان کو بھي بھگتنا پڑا ہے۔ مسئلہ ملت کا نہيں ہے، پوري ملت کشميريوں کے ساتھ کھڑي ہے، مسئلہ حکومت کا ہے کہ جس کي پاليسياں صبح شام قلابازياں کھاتي ہيں، اس کا مسئلہ ہے۔ ہم ان قلابازيوں کي وجہ سے اس ايکسٹريم ليول پر نہيں جانا چاہتے۔ کل ان کي پاليسي بدلے گي، يہ ان کے ساتھ تجارت شروع کر ديں گے۔ يہ وہ حکمران ہيں، جو کہتے ہيں کہ ايک لکير کھچ گئي ورنہ ہم تو ايک ہيں آب  بتائيں کہ ہم ان سے کشمير کے حوالے سے کيا توقع رکھيں، يہ کيا آواز اٹھائيں گے ۔جس کے حکمران بھارت ميں جا کر کہتے ہوں کہ يہ ايک لکھير کھچ گئي تھي، ورنہ تو ہم تو ايک ہيں۔ ميں کہتا ہوں کہ يہ کمزوري شيعہ سني ميں نہيں ہے بلکہ يہ کمزوري حکمرانوں ميں ہے۔ کشمير کے معاملے پر پوري ملت کي آواز سب کو سنائي ديتي ہے، ليکن حکمرانوں کي آواز اتني نحيف پڑ چکي ہے کہ کسي کو سنائي ہي نہيں ديتي۔


سوال : پاکستان 34 ملکي اتحاد کا حصہ بنا، ساتھ کھڑا ہو گيا ليکن ہم نے ديکھا ہے کہ ان ممالک ميں سے کسي ايک نے بھي کشمير کے معاملے پر پاکستان کے موقف کي تائيد نہيں کيا۔ يہ خارجہ پاليسي کي ايک اور ناکامي نہيں ہے؟
علامہ سيد حسن ظفر نقوي: اس وقت بھي ہم نے يہ سوال اٹھايا تھا کہ  آپ جو يہ معاہدے کر رہے ہيں، فلاں ملک پر حملہ ہوا تو آپ جائيں گے، فلاں ملک پر يہ ہوا تو ہم يہ کر ديں گے، کيا کسي ايک معاہدے کي شق ميں يہ بات ڈلوائي ہے کہ اگر ہندوستان پاکستان پر حملہ آور ہوا تو يہ  آپ کا ساتھ ديں گے۔ کشمير کے معاملے پر ہمارے ساتھ جنگ ہوئي تو کوئي ہماري امداد کو آۓگا ۔ ابھي جو کشمير ميں ہوا ہے اور ہو رہا ہے کہ ان 34 ملکوں ميں سے کسي ايک ملک کا نام لے ليں اور بتائيں کہ کسي ايک ملک نے آپ کي حمايت کي ہو اور بھارت کي مذمت کي ہو۔ کوئي ايک ملک بھي آپ کے ساتھ نہيں کھڑا ہوا ہے۔ ان کي خارجہ پاليسي کا کچھ پتہ نہيں، ہميں نہيں پتہ کہ کب يہ کہاں پھينک ديں۔ اس لئے ہميں تدبر سے کام لينا پڑتا ہے۔ ہم دانشمندي کے ساتھ آگے چلتے ہيں۔ پاکستان کي پوري قوم کشميريوں کے ساتھ کھڑي ہے، حکمرانوں کا کچھ پتہ نہيں کہ کب اپني پاليسي تبديل کر ديں۔  جس طرح ان کي سشما سوراج اور ديگر بيان ديتے ہيں، ان کا جواب تک يہ لوگ نہيں ديتے۔  يہاں تک وہ کہہ گئے ہيں کہ ہم پاکستان پر بمباري کريں گے، کيا يہاں سے کوئي جواب ديا گيا۔ کيا سارا ملبہ پاکستان پر ہي ڈالنا ہے۔ اگر فوج نے ہي سب کچھ کرنا ہے تو پھر آپ اپنا بوريا بستر اٹھائيں اور چلے جائيں۔ نہ خارجہ پاليسي ہے اور نہ داخلہ پاليسي ہے، کشمير کے معاملے پر حکومت کي کوئي پاليسي ہي واضح نہيں ہے۔ قوم کو پتہ نہي نہں کہ پاليسي ہے کيا۔