امام خميني کي نگاہ ميں رہبري کي شرائط ( حصّہ ششم )
ايک اہم امر جسکي ولايت عہديدار ہے حدود الہي کا جاري کرنا ہے ( يعني اسلام کے جزائي قوانين کا اجراء ) کيا حدود کے اجراء ميں پيغمبر اسلام (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) امام(عليہ السلام) اور فقيہ کے درميان کوئي امتياز ہے يا چونکہ فقيہ کا رتبہ بہت ہي کم ہے لہذا اسکو کمتر سزا تجويز کرنا چاہيے زاني کي حد100 کوڑے ہے اگر رسول خدا (ص) يہ حد جاري کريں گے تو150 کوڑے ماريں گے اور حضرت علي (عليہ السلام) جاري کريں گے تو 100 کوڑے ماريں گے اور فقيہ جاري کرےگا تو50 کوڑے مارے گا يا يہ کہ حاکم اجرائي امور کا ذمہ داراور عہديدار ہے اور اسے خداوند متعال کے حکم کے مطابق حد جاري کرنا چاہيے، چاہيے حاکم رسول خدا (ص) ہوں ، حضرت علي (عليہ السلام) ہوں يا حضرت علي (ع) کے بصرہ يا کوفہ ميں نمايندے يا قاضي ہوں يا موجودہ دور ميں فقيہ
رسول اکرم (ص)اور حضرت علي (عليہ السلام) کے اہم وظائف ميں سے ماليات ،خمس و زکوات ، جزيہ اور خراجيہ زمين کا ٹيکس وصول کرنا ہے رسول خدا (ص) زکوات کتني وصول کريں گے کيا ايک جگہ سے ايک دسواں حصہ ( 10/1 ) اور دوسري جگہ سے ايک بيسواں حصہ (20/1) وصول کريں گے
حضرت علي (عليہ السلام) خليفہ ہوگئے تووہ کيا کريں گے آپ موجودہ دور ميں فقيہ اور نافذ الکلمہ ہوگئے تو آپ کيا کريں گے کيا ان امور ميں رسول اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) کي ولايت کا حضرت علي (عليہ السلام) کي ولايت او رعادل فقيہ کي ولايت کے درميان کوئي فرق ہے
خداوند متعال نے رسول اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) کو تمام مسلمانوں کا ولي قرار ديا ہے اور جب تک وہ حضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) موجود ہيں انکي ولايت حضرت علي (عليہ السلام) پر بھي جاري ہے آنحضور(صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) کي رحلت کے بعد امام (ع) کي ولايت تمام مسلمانوں حتي اپنے بعد والے امام (ع) پر بھي نافذ ہے يعني اسکے حکومتي احکامات اور اوامر سب پر نافذ و جاري ہيں اور وہ گورنروں کو منصوب اور معزول کر سکتا ہے
جيسا کے پيغمبر اسلام (ص) احکام الہي کے اجراء کرنے اور اسلام کے نظم و نسق کو برقرار رکھنے پر مامور تھے اور خداوند متعال نے انکو مسلمانوں کا ہادي ، ولي اور راہنما قرار ديا اور انکي اطاعت کو واجب قرار ديا ہے اسي طرح فقہاء عادل بھي حاکم وولي و راہنما ہيں اور معاشرے ميں احکام کے اجراء کرنےاور اسلام کے اجتماعي نظام کو برقرار کرنے اور چلانے پر مامور ہيں ( جاري ہے )