امام خميني کي نگاہ ميں رہبري کي شرائط ( حصّہ دوّم )
جو چيز خلافت سے متعلق ہے اور رسول اکرم(ص) اور ہمارے آئمہ (ع) کے زمانے ميں اسکے بارے ميں بحث اور گفتگو ہوتي رہي ہے اور مسلمانوں کے درميان بھي مسلّم امر رہا ہے وہ يہ ہے کہ اوّلا حاکم اور خليفہ کو اسلام کے احکام کے بارے ميں معلومات ہوني چاہيے يعني اسے اسلامي قانون کا ماہر ہونا چاہيے دوسرے يہ کہ اسےعادل ہونا چاہيے اور اعتقادي اور اخلاقي کمال کا حامل ہونا چاہيے عقل کا تقاضا بھي يہي ہے کيونکہ اسلام کي حکومت قانون کي حکومت ہے نہ اس ميں جاہ طلبي و خود غرضي اور نہ ہي اشخاص کي عوام پر حکومت کي کوئي گنجائش ہے
جو رہبر اورحاکم قانوني مطالب سے آگاہ نہ ہو وہ حکومت کے لائق وسزاوار نہيں ہوسکتا کيونکہ اگر وہ تقليد کرے گا تواس سےحکومت کي طاقت وقدرت مضمحل اور کمزور ہو جائے گي اور اگر تقليد نہيں کرےگا تو اسلام کے قانون کاحاکم اور مجري نہيں بن سکتا اور يہ بات مسلّم ہے کہ (( الفقہاء حکام علي السلاطين )) " فقہاء سلاطين پر حاکم ہيں " (2) سلاطين اگر اسلام کے تابع ہيں تو انکے ليئے ضروري ہے کہ وہ فقہاء کي اطاعت اور پيروي کريں اور اسلامي قوانين اور احکام کو فقہاء سے معلوم کرکے جاري کريں اس صورت ميں حقيقي حکام وہي فقہاء ہيں لہذا ضروري ہے کے حاکميت سرکاري طور پر فقہاء کے ہاتھ ميں رہے نہ کہ ان لوگوں کے ہاتھ ميں رہني چاہيئے جو ناداني اور جہل کي بنا پر فقہاء کي پيروي کرنے پر مجبور ہيں
2- رہبر اور حاکم کو اخلاقي اقدار اور اعتقادي کمال کا حامل اور عادل ہونا چاہيے جو شخص حدود الہي يعني اسلامي سزاووں کوجاري کرے گا اور بيت المال ميں دخل اور تصرف کرنے کے امور کو سنبھالے گا اور حکومت کا نظام اپنےہاتھ ميں لے گا اورخداوندمتعال اسکو اپنے بندوں پرحکومت کا اختيار بخشےگا اسکو گناہکار اور بد کردار نہيں ہونا چاہيے (( و لا ينال عہدي الظالمين )) (3) خداوند ظالم اور گنہکار کو ايسا حق و اختيار عطا نہيں کرتا ہے۔
حاکم اگرعادل نہيں ہو گا تواس صورت ميں وہ مسلمانوں کے حقوق ادا کرنے ، ماليات وصول کرنے اور انکو صحيح طريقے سے مصرف کرنے اور قانون کو صحيح طور پر اجراء کرنے ميں عدل وانصاف کا لحاظ نہيں رکھےگا اور ممکن ہے وہ اپنے خاندان والوں ، قريبي ساتھيوں اور دوستوں کو معاشرے پر مسلط کر دے اور مسلمانوں کے بيت المال کو اپنے ذاتي اغراض و مقاصد کيلئے مصرف کرنے ميں مشغول ہو جائے (4) ( جاري ہے )