امام خميني کي نگاہ ميں رہبري کي شرائط
دو بنيادي شرطيں: وہ شرائط جو زعامت اور رہبري کيلئے ضروري ہيں انکا سرچشمہ براہ راست حکومت اسلامي کے انداز طبيعت سے ظاہر ہوتا ہے عقل و تدبيرجيسي عام شرائط کے علاوہ دو بنيادي شرطيں ہيں جو مندرجہ ذيل ہيں
1: قانون کے بارے ميں علم و آگاہي کا ہونا
2: عدالت کا ہونا
جيسا کے رسول اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) کي رحلت کے بعد اس بات ميں اختلاف پيدا ہوگيا تھا کہ منصب خلافت کس کو سنبھالنا چاہيے ليکن اس کے با وجود مسلمان اس بات پر متفق تھےکہ منصب خلافت پر فائز ہونے والے شخص کو عالم وفاضل اور آگاہ ہونا چاہيے اختلاف صرف دو موضوعات ميں تھا:
1- چونکہ اسلام کي حکومت قانون کي حکومت ہے لہذا رہبر و زعيم اور حاکم کيلئے قانون کے بارے ميں علم و آگاہي ضروري ہے جيسا کے روايات ميں بھي وارد ہوا ہے صرف رہبر و حاکم کيلئے ہي نہيں بلکہ تمام افراد کيلئے ضروري ہے کہ وہ جس کام اور مقام پر فائز ہوں اس کے بارے ميں علم و آگاہي رکھتے ہوں البتہ حاکم و رہبر کيلئے ضروري ہے کہ وہ علمي ميدان ميں سب سے افضل و اعلي ہو ہمارے آئمہ (ع) اپني امامت کيلئے اسي مطلب کو استدلال کے طور پر پيش کرتے تھے کہ امام کو دوسروں سے افضل ہونا چاہيے شيعہ علماء نے دوسروں پر جو اعتراضات وارد کئے ہيں وہ بھي اسي امر سے متعلق ہيں کہ جب فلاں حکم کے بارے ميں خليفہ سے معلوم کيا گيا تو خليفہ اسکا جواب نہ دے سکے پس وہ امامت اور خلافت کے لائق و سزاوار نہيں ہے فلاں کام کو اسلامي احکام کے خلاف انجام ديا لہذا خلافت و امامت کےلائق نہيں ہے(1)
مسلمانوں کي نظر ميں رہبر کے لئے قانون سے واقفيت اور عدالت دو بنيادي رکن اور شرائط ہيں اور اسميں دوسرے امور کا موجود ہونا ضروري نہيں ہے مثلا ملائکہ کے علم کي کيفيت کے بارے ميں ، صانع تبارک و تعالي کے علم کے بارے ميں کہ وہ کن اوصاف کا حامل ہے ، ايسے علوم کا امامت کے موضوع ميں کوئي دخل نہيں ہے چنانچہ اگر کوئي تمام طبيعي علوم کے بارے ميں معلومات فراہم کرلے اور طبيعت کي تمام قوتوں کو کشف کرلے يا ميوزک کے بارے ميں خوب جان لے پھر بھي اس ميں خلافت کے منصب پر فائز ہونےکي صلاحيت و لياقت پيدا نہيں ہوسکتي اور نہ ہي اس کو ان لوگوں پر افضليت اور برتري حاصل ہو سکتي ہے جو اسلام کے قانون کو جانتے ہيں اور عادل ہيں اور حکومتي امور کو سنبھالنے کي صلاحيت رکھتے ہيں ( جاري ہے )