امام خميني اور اسلامي انقلاب کي جمہوري بنياديں ( حصّہ ششم )
چونکہ مجلس خبر گان کا انتخاب بالغ رائے دہي کي بنياد پر مسلمان عوام کرتے ہيں اس لئے رہبر کا انتخاب بھي جمہوري ہے۔ کيا پارليماني جمہوريت ميں وزيراعظم کا انتخاب عوام کے منتخب نمائندے نہيں کرتے۔
بھارتي وزيراعظم من موہن سنگھ بھارت کے ايوان بالا کے ممبر تھے اور بھارت کے ايوان نمائندگان نے انھيں وزيراعظم کے منصب کے لئے چنا جبکہ اس سے پہلے بھي انھوں نے کبھي برا ہ راست عوام کي نمائندگي کسي بھي حيثيت ميں نہيں کي تھي ۔اس کے باوجود مغرب زدہ ذہنوں کے مطابق من موہن سنگھ کي وزارت عظمي عين جمہوري ہے۔
ايران کے موجودہ رہبر جناب آية اللہ سيد علي خامنہ اي عوام کي منتخب مجلس خبرگان سے منصب رہبري کے لئے چنے جانے سے پہلے دو مرتبہ ايران کے صدارتي منصب پر براہ راست انتخابات کے ذريعے بھاري اکثريت سے منتخب ہوئے تھے۔ ايران ميں مقننہ يعني مجلس شوري کا انتخاب وقفے وقفے سے عوام بالغ رائے دہي کے اصول پر کرتے ہيں انقلاب کي کاميابي سے لے کر آج تک ہميشہ مجلس کا انتخاب آئيني تقاضوں کے مطابق وقت مقررہ پر ہوتا رہا ہے، چاہے جنگ ہويا امن
ايران ميں انتظاميہ کا سربراہ صدر ہوتا ہے صدر کا انتخاب بھي عوام براہ راست بالغ رائے دہي کے اصول پر وقفے وقفے سے کرتے ہيں۔ انقلاب سے لے کر آج تک ہميشہ صدارتي انتخابات آئيني تقاضوں کے مطابق وقت مقررہ پر ہوتے رہے ہيں صدر کابينہ کے وزراء کو نامزد کرتا ہے اورعوام کي منتخب مجلس کے سامنے منظوري کے لئے پيش کرتا ہے۔
انقلابي ايران ايک فلاحي رياست ہے اور ہر ترقي يافتہ جمہوري معاشرے اورملک کي طرح ايران ميں بھي لوگوں کو بنيادي حقوق حاصل ہيں ۔عدليہ بالکل انتظاميہ کے اثر سے آزاد ہے قانوني مساوات بھي ہے اور قانون وآئين کي بالادستي بھي نيچے سے لے کر صدر اور رہبر تک ہر کوئي دستور کا پابند ہے ہر کسي حکومتي عہدہ دار کا کڑا احتساب ہوتا ہے وزرا صدر اور پارليمان کے سامنے جوابدہ ہيں صدر پارليمان اوررہبر کے سامنے جوابدہ ہے اور رہبر منتخب مجلس خبرگان کے سامنے جوابدہ ہےکوئي شخص آئين وقانون سے برتر نہيں اور اعلي سے اعلي منصب پر فائز ہر شخص آئين وقانون کا زيردست ہے چاہے وزرا ہوں صدر ہو يا رہبر ( ختم شد)