• صارفین کی تعداد :
  • 11639
  • 6/21/2016
  • تاريخ :

امام خميني اور اسلامي انقلاب کي جمہوري بنياديں ( حصّہ پنجم )

ایران کا اسلامی انقلاب امید کی کرن


اس کے بعد 1950 کے لگ بھگ ايک تحريک اٹھي جس کي قيادت ڈاکٹرمصدق کررہے تھے اس ميں علماءکي طرف سے آية اللہ کاشاني پيش پيش تھے يہ تحريک بھي غير ملکي مداخلت کو ختم کرنے،بادشاہ کو آئين کا پابند بنانے اور عوام کي نمائندہ اسمبلي کوبااختيار کرنے کے لئے تھي اس ميں بھي پہلے پہل کاميابي ملي ڈاکٹر مصدق نے بطور وزيراعظم اپنے انتظامي اختيارات کا استعمال کيا اور پارليمان کي تائيد سے ايراني تيل کي صنعت کو قومي تحويل ميںلے ليا اس وقت بھي بادشاہ کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا تھا بعد ميں بڑي طاقتوں بالخصوص امريکہ کي مدد سے بادشاہ واپس آ کر مطلق العنان فرماں روا کے طور پر حکومت کرنے لگا سي آئي اے کي سرپرستي ميں فوج نے عوامي انقلابي قوتوں کو کچل کر رکھ ديا اس واقعے کے تقريباً 25سال بعد وہ عظيم اور مکمل انقلاب امام روح اللہ خميني کي قيادت ميں آيا جس نے عالمي استعماري طاقتوں اور ان کے گماشتوں کي طرح کام کرنے والے خطے کے شاہي اوراستبدادي حکمرانوں کي نينديں حرام کر ديں۔
جيسے کہ بيان ہو چکا ہے يہ چودہ سو سالہ اسلامي تاريخ کا پہلا عوامي انقلاب تھا ۔جس طرح انقلاب فرانس دنيا کا پہلا عوامي انقلاب تھا ۔ انقلاب کے بعد ايک نئے نظام کي تشکيل وتعميرکے عمل کا آغاز ہوا ۔ يہ نظام نہ صرف جمہوري بلکہ مثالي جمہوري نظام ہے جو کاميابي کے ساتھ گذشتہ تيس سالوں سے چل رہا ہے۔

انقلاب کے بعد ايک آئين مرتب کيا گيا اول اپريل 1979 کے دن يہ دستور عوام کے سامنے منظوري کے لئے پيش کيا گيا ايراني عوام کي بھاري اکثريت (قريب بہ اتفاق) نے اس کي منظوري دے دي جمہوري نظاموں ميں آئين عوام يا عوام کے نمائندے منظور کرتے ہيںاور ايران ميں بھي عوام نے اسلامي جمہوري آئين کا انتخاب کيا۔

ايران کے آئين کي رو سے رہبر کا منصب سب سے اعلي اور برتر ہے پہلے رہبر کے منصب پر فائز ہونے کے لئے ايران کي اکثريت کا مرجع تقليد ہونا شرط تھا چونکہ تقليد عام مسلمان اپني آزاد مرضي سے کرتے ہيں اس لئے يہ طريقہ بھي عين جمہوري تھااس وقت مجلس خبرگان کا رہبر کے انتخاب ميں يہ کام تھا کہ وہ اس بات کا تعين کرے کہ کس مجتہد کي ايراني عوام کي اکثريت تقليد کرتي ہے بعد ميں مرجعيت کي شرط کو حذف کيا گيا اور اب مجلس خبرگان بوقت ضرورت رہبر کا انتخاب کرنے کي مجاز ہے اس کے علاوہ اس مجلس کا کام رہبر پر کڑي نظر رکھنا ہے تاکہ اس بات کو يقيني بنايا جائے کہ رہبر ميں کوئي ايسا عيب توپيدانہيں ہوا ہے جس کي وجہ سے اسے منصب رہبري سے ہٹانا ضروري ہوگيا ہو علاوہ ازيں آئين ميں ترميم کے عمل ميں بھي مجلس خبرگان کا کردار ہے( جاري ہے )