قرآن کریم میں ائمہ (ع) کے نام ( حصّہ دوّم )
بعض اوقات شخص کے اوصاف و صفات قرآن کریم میں ذکر کئے ہیں جیسے حضرت سلیمان (ع) کا واقعہ جس میں فرمایا ہے : ”قالَ الَّذی عِنْدَہُ عِلْمٌ مِنَ الْکِتابِ․․․“ اور ایک شخص نے کہا جس کے پاس کتاب کے ایک حصہّ کا علم تھا(۶) ۔ (۷) ۔
عام لوگوں میں بھی کسی کو پہچنوانے کے یہ دو طریقہ رائج ہیں اور دوسرے طریقہ سے زیادہ استفادہ کیا جاتا ہے ۔
حضرت آیة اللہ مکارم شیرازی (دام ظلہ) فرماتے ہیں : کبھی کبھی فضائل اور خصوصیات کو ذکر کرنے کے ذریعہ افراد کا تعارف اچھے طریقہ سے ہوجاتا ہے کیونکہ افراد کے نام مخصوص نہیں ہیں اوراس میں یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ دوسرے لوگ اس سے سوء استفادہ کریں ، جیسا کہ حضرت مہدی (ع) کے بارے میں بعض لوگوں نے سوء استفادہ کیا ہے اوراپنے بچوں کانام مہدی یا محمد رکھتے تھے ”علی“ بھی صرف امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کا نام نہیں تھا ،اسی طرح ”ابوطالب “ بھی فقط آپ کے والد کی کنیت نہیں تھی ، بلکہ عرب کے درمیان متعدد افراد کا نام اورکنیت ”علی“ اور ”ابوطالب“ تھی ،اس بناء پر اگر ”علی“ کا نام صریح طور پر قرآن کریم میں ذکر ہوتا تو شاید لوگ اس کو دوسرے ”علی“ پر منطبق کرتے (۸) یا کم سے کم اس طرح کا احتمال دیا جاتا ، جب کہ دوسرے طریقہ میں ایسا احتمال نہیں دیا جاسکتا ، اس لئے بہتر ہے کہ خصوصیات، صفات ممتاز اور جو صرف حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) میں منحصر ہیں ان سے تعارف کرایا جائے تاکہ صرف آپ کے مقدس وجود کے علاوہ کسی اور پر منطبق نہ ہو سکے ۔
شاید آپ یہ کہیں : تمہارا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم نے خصوصیات اور صفات کے ذریعہ ائمہ (علیہم السلام) کاتعارف کرایا ہے تو یہ تعارف کن آیات اور کن سوروں میں ہے ؟ ہم کہتے ہیں خداوند عالم نے کتنی ہی آیات میں ان کا تعارف کرایا ہے ہم یہاں پر ان میں سے صرف تین آیات کا ذکر کریں گے :
سورہ مائدہ کی ۵۵ ویںآیت میں فرمایا ہے : ”إِنَّما وَلِیُّکُمُ اللَّہُ وَ رَسُولُہُ وَ الَّذینَ آمَنُوا الَّذینَ یُقیمُونَ الصَّلاةَ وَ یُوْتُونَ الزَّکاةَ وَ ہُمْ راکِعُون“ ۔ ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوِٰ دیتے ہیں۔ بہت سے علماء اہل سنت کی تصریح کے مطابق یہ آیت امیرالمومنین (ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، جیسا کہ قاضی عضدالدین ایجی (متوفی ۷۵۶) اور بعض دوسرے علمائے اہل سنت نے اس متعلق کہا ہے : و اجمع ائمةالتفسیر ان المراد علی“ ۔ قرآن کریم کی تفسیر میں علماء اور راہنماوں کا اتفاق و اجماع ہے کہ اس آیت سے مرادحضرت علی (علیہ السلام) ہیں (۹) ۔
اس آیت کا آخری حصہ جمع کی ضمیر کے ساتھ ذکر ہوا ہے جس سے سمجھ میں آتا ہے کہ اگر چہ فی الحال اس کا مصداق ایک شخص ہے لیکن مستقبل میں اس کے دوسرے مصادیق ائمہ معصومین (علیہم السلام) ہوں گے جو ایک کے بعد ایک اس مقام پر فائز ہوں گے ۔ ( جاری ہے )
متعلقہ تحریریں:
قرآن اور اہل بيت عليہم السلام
سورۂ کوثر کا نزول مبارک ہو