قرآن اور اسلامي اتحاد کي ترغيب
1- معفرت، توبہ اور بخشش کي سنت: لوگوں کو اپني غلطيوں واشتباہات سے باز آنے کے لئےاس سنت کے دروازے ہميشہ کھلے ہيں-
2- دنيا ميں انتقام کي سنت:جب دنيا ميں لوگوں يا گروہوں کے انحرافات شديد ہو جائيں، گناہ زيادہ ہو جائيں تو اس سنت کو آئندہ نسل کو عبرت حاصل کرنے لئے قرار ديا ہے-
دوسري شاخ: يعني اديان آسماني ميں اتحاد اور اختلاف، قرآن کے نظريہ کے مطابق اتحاد اوراختلاف کو مشخص اصول اور جانے پہچانے وسائل کي بنياد پر ہونا چاہيے، اختصار کے ساتھ اس کي طرف اشارہ کيا جائے گا، حقيقت ميں انسانوں کے درميان اتحاد کا محقق ہونا کچھ مشترک وجوہات پر موقوف ہے اور يہي اتحاد کا نقطہ آغاز قرار پاتا ہے-
الف: خدا، آسماني وحي، نبوت اور قيامت پر ايمان
ب: عزت اورکرامت انسان کو قبول کرنا ، اس کے احترام کا قائل ہونا اس کو عقيدہ اور عمل ميںآزاد سمجھنا-
اس بنياد ہرگز مومنين اور کافرين کے درميان واقعي اتحاد کي گفتگو سامنے آہي نہيں سکتي، البتہ ممکن ہے کوئي ايسي ضرورت پيش آ جائے جس ميں دونوں ايک ساتھ جمع ہوجائيں اور ايک ملک ان کے اجتماع کا مرکزي نقطہ قرار پائے اور اس طرح ان کے درميان صلح وآرامش برقرار ہو جائے، ليکن يہ اتحاد حقيقي نہيں ہے خدا کا شريک قرار دينا اور اس کا انکار کرنا اتحاد کي راہ ميں اندروني رکاوٹ اور اجتماعي نتاقض ہے-
اديان الٰہي کے درميان اتحاد کے مشخّصات: قرآن مجيد نے مکرراً بنيادي انحرافات کي تصحيح کرنے کے لئے جو اہل کتاب کے پيروان کے دامنگير ہيں ان آيات ، مادہ77-81، آل عمران81-187، بقرہ 78، 79، 85، 86، 174/ ميں بيان کيا ہے اور طول تاريخ ميں اديان الٰہي کے درميان اتحاد کي چارہ جوئي کو مشخص کيا ہے تاکہ مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کے پيروکاروں کے درميان رابطہ محفوظ رہے، ايک طرف سے يہ کہ اديان الٰہي کے پيروکاروں کے درميان مشترک اجتماعي اور سياسي زندگي کي راہيں فراہم ہو سکيں اور دوسري طرف سے يہ کہ سب خدا اور قيامت پر اعتقاد رکھنے والوں کو بت پرستوں مشرکوں اور ملحدوں کے مقابلہ ، ايک پليٹ فارم پر جمع کرديں- اس دائرہ کے مشخصات اور پہلو اس طرح ہيں:
1- خدائے واحد، آسماني وحي، قيامت، آسماني کتابوں اور پيغمبروں کي رسالت پر ايمان رکھنا-
2- پيغمبروں اور آسماني کتابوں کے ايک ہونے پر تاکيد کرنا-
تمام پيغمبروں اور تمام آسماني پيغاموں کا ايک ہي سرچشمہ ہے، ان کا سرچشمہ خدا وندعالم ہے، پيغمبران الٰہي موظف تھے کہ الٰہي پيغام کو بشر تک پہنچائيں، اس کي تربيت ميں کوشاںرہيں، نيکي کي ہدايت اور اس کي صلاح کي طرف راہنمائي کريں اور بدي، فساد اور گمراہي سے روکيں-
3- عمومي دعوت: اديان کے درميان تقارب اور اتحاد کو روشن کرنے کي غرض سےتمام اديان کے پيرواں کو توريت اور انجيل ميں خدا کے ثابت اور مشترک احکام کے جاري کرنے کي دعوت ديںخصوصي طور پر يہ کہيں کہ يہ تمام شريعتيں ايک دوسرے کو کامل کرنے کے لئے آئي ہيں، وجوب روزہ قصاص کي کيفيت، رباخواري سے پرہيز سے مربوط آيتيں اسي عمومي دعوت کا نمونہ ہيں- ( جاري ہے )
متعلقہ تحریریں:
قرآن سے زندگي ميں بہار
اہميت کتاب الہي