قرآن مجيد کي رو سے اسلامي اتحاد
قرآن مجيد نے اتحاد اور اختلاف کے موضوع کو تفصيل کے ساتھ بيان کيا ہے ، ايک طرف يہ کہ اس نے تاريخ انساني ميں اختلاف کے نتائج کو علل اور وجوہات کے ساتھ ذکر کرکے اس کے مٹانے کے طريقہ کو پيش کيا ہے دوسري طرف وحدت کے مسئلہ کو ہمبستگي کي راہ اور اصول کي دستيابي کے ساتھ بيان کيا ہے، گويا اسلامي معاشرے ميں اتحاد اور اختلاف کا مسئلہ اور مسلمانوں ميں اتحاد قائم کرنے کي راہيں، قرآن کي نظر سے دور نہيں رہي ہيں-
1- تاريخ انسان ميں قرآني نظريہ کے مطابق اتحاد اور اختلاف کے نتائج:
ايک کلي نظريہ کے مطابق يہ نتائج دو اصلي شاخوں ميں تقسيم ہوتے ہيں:
الف: اختلاف اور اتحاد انسان کي پيدائش کےمانند ہے-
ب: الٰہي اديان کے درميان، اختلاف اور اتحاد -
پہلے مورد ميں يہ کہا جائے گا کہ قرآن مجيد نے انسان کي زندگي کو ايک دوسرے کے مانند جانا ہے کہ جس ميں تمام افراد کے آپس ميں روابط اور ميل جول کو اس کے آغاز ميں ڈال ديا ہے "لوگ ايک امت تھے پھر خدا نے بشارت دينے اور ڈرانے کے لئے پيغمبروں کو مبعوث فرمايا اور ان کے ساتھ اپني باحق کتاب کو نازل کيا تاکہ لوگوں کے درميان اُن چيزوں ميں جن ميں وہ اختلاف رکھتے تھے فيصلہ کرے اور ان افراد کے علاوہ جن کو کتاب دي گئي روشن دلائل کے آنے کے بعد اس ظلم وحسد کي وجہ سے جو ان کے درميان تھا، کسي نے بھي اس ميں اختلاف نہيں کيا، پس خدا نے ان لوگوں کو جو ايمان لائے تھے اپني توفيق سے حقيقت کي طرف راہنمائي کي جس ميں وہ اختلاف رکھتے تھے"-
"لوگ ايک ملت کے علاوہ نہ تھے، اس کے بعد اختلاف کرليا اور اگر تيرے پوردگار کا وعدہ مقرر نہ ہوتا تو يقيناً اس ميں کہ جس ميں وہ اختلاف کرتے ہيں، ان کے درميان فيصلہ ہوجاتا"
قابل ذکر ہے کہ انسان کي زندگي اور اس کي زندگي کي فضا پر مسلط خاص حالات، اس کي ضرورتوں اور خواہشوں پر توجہ رکھتے ہوئے اتحاد کي پيدائش اور استمرار کے ساتھ پوري طرح سے سازگار ہونا چاہيے، جس قدر بھي انسان کے دائرہ امکانات اور اس کي توانائي وسيع ہوگي اسي قدراجتماعي حيات جديد پر اس کا نفوذ اور تسلط کم ہوتا چلاجائے گا اور يہ بھي ممکن ہے کہ اس کي اجتماعي جديد حيات تمام عرصہ حيات کے ساتھ متناقض ہو، نتيجةً اتحاد کي دستيابي کے لئے دشواريوں کا سمانا کرنا پڑے گا، دانش بشري اور اس کي ثقافتي سطح اُن وسائل واسباب کي نسبت جو آفاق اور جديد مقاصد کو انسان کي نظروں کے سامنے پيش کرتے ہيںاس سلسلے ميں بغير تاثير کے نہ رہيں گے، انسان کي زندگي کے ابتدائي ايام جس ميں خدادادي فطرت اس کي زندگي پر کامل طور سے مسلط ہوتي ہے اور اس کو مناسب حالات ميں تجليوں کي طرف ہدايت کرتي ہے، يہ تصور کيا جاسکتا ہے کہ ہوا وہوس کي وجہ سے پيدائش ہوئيں، کچھ ذاتي زيادتياں پيش آجائيں البتہ بہت جلد حسد ، کينہ، غيض وغضب يا شہوت کي آگ کے خاموش ہو جانے کے بعد اپني پاک فطرت کي طرف پلٹ جاتي ہيں، اس سلسلے ميں قرآن مجيد نے حضرت آدمï·¼ کے بيٹوں کے بارے ميں گفتگو کي ہے ، اس مرحلے کے گذر جانے اور ايک مشخص مقطع زماني کے عبور ہونے کے بعد کہ جس ميں انساني معاشرہ کمال کي طرف گامزن ہوتا ہے اوراس کي تعداد ، ضرورتيں اور خواہشات ميں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے يہيں سے اختلاف کا دور بھي شروع ہو جاتا ہے، اس بحث سے يہ نتيجہ نکالا جا سکتا ہے کہ بشريت ہميشہ اپني زندگي کے تمام دوروں ميں ايک قانون کي محکوم رہي ہے اور اس قانون کا نام اختلاف ہے- ( جاري ہے )
متعلقہ تحریریں:
قرآن سے زندگي ميں بہار
اہميت کتاب الہي