صفحه اصلی تبیان
شبکه اجتماعی
مشاوره
آموزش
فیلم
صوت
تصاویر
حوزه
کتابخانه
دانلود
وبلاگ
فروشگاه اینترنتی
جمعرات 21 نومبر 2024
فارسي
العربیة
اردو
Türkçe
Русский
English
Français
تعارفی نام :
پاسورڈ :
تلاش کریں :
:::
اسلام
قرآن کریم
صحیفه سجادیه
نهج البلاغه
مفاتیح الجنان
انقلاب ایران
مسلمان خاندان
رساله علماء
سروسز
صحت و تندرستی
مناسبتیں
آڈیو ویڈیو
اصلی صفحہ
>
ایران
>
ادب و فن
1
2
ایران میں عالمی داستانی گویی میلے کا اختتام
اسلامی جمہوریہ ایران میں منعقدہ 20ویں بین الاقوامی داستانی گویی میلے کا اختتام کیا گیا جس میں اعلی کارکردگی دیکھانے والوں کو اعزازات سے نوازا گیا.
پروین اعتصامی کی شاعری میں حقیقت نگری اور تاریخ نگاری(حصہ نہم)
پروین لوگوں کی بدحالی اور کسمپرسی پر اظہار افسوس کرتی ہیں اور لوگوں کو حصولِ علم کے لیے ترغیب دلاتی ہیں۔ جیسا کہ ’’درخست پر ہی بر کے زیر عنوان نظم میں سرو کے درخت کی کہانی بیان کرتی ہیں۔
پروین اعتصامی کی شاعری میں حقیقت نگری اور تاریخ نگاری(حصہ ہشتم)
پروین ان تحفظات کی بنا پر ، جن کے بارے میں وہ مفصل طور پر بیان نہیں کر سکتیں، اس سلسلے میں صنعت مناظرہ سے بہت زیادہ استفادہ کیا اور اشیا کی تجسیم کرتے ہوئے حرفوں میں بیان کیا ہے اور کسی میں کب ہی ایسی جرأت کہ ایسا اظہار خیال کرے۔
پروین اعتصامی کی شاعری میں حقیقت نگری اور تاریخ نگاری(حصہ ہفتم)
جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ آئینی تحریک کا آغاز تا جاری بادشاہوں کے ظلم کا نتیجہ تھا اور بعدازاں رضا شاہ کی آمریت ایران کی تاریخ کے صفحات پر نقش ہو گئی۔
پروین اعتصامی کی شاعری میں حقیقت نگری اور تاریخ نگاری(حصہ ششم)
پروین کی شاعری میں بالعموم جگہ کا تعین کر دیا گیا ہے۔ رومانوی شعرا کے برعکس وہ دور دراز اور عجیب و غریب مقامات کا رخ نہیں کرتیں بلکہ حقیقت پسندانہ اور سچے ادیب کی طرح اُسی ماحول کا ذکر کرتی ہیں جس میں خود انھوں نے زندگی بسر کی۔
پروین اعتصامی کی شاعری میں حقیقت نگری اور تاریخ نگاری(حصہ پنجم)
پروین بظاہر تو ایک واقعہ یا کہانی بیان کرتی ہیں لیکن داستان کے آخر میں پتہ چلتا ہے کہ دراصل شاعرہ اپنے نظریات و خیالات کو پروان چڑھا رہی ہیں۔ ان کے ضمیر کی آواز خارجی واقعات اور داخلی نظریات کو یکجا کر دیتی ہے
پروین اعتصامی کی شاعری میں حقیقت نگری اور تاریخ نگاری(حصہ چہارم)
پروین نے جس عہد میں زندگی گزاری وہ افراتفری کا زمانہ تھا۔ لوگ خود غرض بادشاہوں کے ظلم و ستم سے تنگ آ چکے تھے۔ آئینی تحریک ایران میں جاگیردارانہ نظام سے نجات کی علامت تھی کہ عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے شروع کیے جا سکیں۔ لیکن اس تحریک کا حاصل شکست، ناامیدی
پروین اعتصامی کی شاعری میں حقیقت نگری اور تاریخ نگاری(حصہ سوم)
ایسے ماحول میں جب بیشتر مرد شاعر اور ادبی بھی یوں برملا اپنے خیالات کے اظہار کی جرأت نہ رکھتے تھے، بھلا کسی خاتون شاعرہ سے ایسے خیالات کے اظہار کی توقع کیسے کی جا سکتی تھی۔
پروین اعتصامی کی شاعری میں حقیقت نگری اور تاریخ نگاری(حصہ دوم)
زبان کی تعریف کرتے ہوئے جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ زبان مخصوص قواعد پر مبنی نظام کی حامل ہے جو استانوں کے درمیان رابطے کا کام دیتا ہے۔
پروین اعتصامی کی شاعری میں حقیقت نگری اور تاریخ نگاری
حقیقت پسندی کا اطلاق ان واقعاتی تحریروں اور حقائق پر مبنی ادب پر ہوتا ہے جن کی طرف رومانویت پسند توجہ نہیں دیتے یا اُسے مسخ کرکے پیش کرتے ہیں۔
درفگند از گفتہ رب جليل ( پروین اعتصامی)
غالباًصبح كا وقت تھا_ابھى اہل مصر محو خواب تھے_مشرق سے پو پھٹ رہى تھي_ماں نے نوزائيدہ بچے اور صندوق كو دريائے نيل كے كنارے لائي،بچے كو آخرى مرتبہ دودھ پلايا
پروین اعتصامی کی بیماری اور موت
پروین اعتصامی نے اپنی زندگی میں بہت سارے اعلی اعزاز حاصل کیۓ لیکن عین اس وقت جب ان کا بھائی ابوالفتح اعتصامی ، ان کے دیوان کو دوسری مرتبہ چھپوانے کی غرض سے تیار کر رہا تھا
پروین اعتصامی ایک عظیم شاعرہ
ان کے مطابق تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو تعلیم کے مواقع فراہم ہونے چاہیۓ ۔ ان کے مطابق ماضی کی خرابیوں کو دور کرنے کے لیۓ بڑے پیمانے پر اصلاح کی ضرورت ہے ۔
پروین اعتصامی کی شاعرانہ صلاحتیں
پروین نے اپنی عمر کے گیارھویں سال سے لے کر چودھویں سال تک جو اشعار کہے ، ان کو پڑھ کر ان کی شاعرانہ صلاحیتّوں کو داد دیۓ بغیر نہیں رہا جا سکتا
پروین اعتصامی کی شہرت
لوگوں نے ان کی شاعری کو بہت پسند کیا ۔ ان کی شہرت کا یہ عالم تھا کہ ان کا دیوان چھپنے کے کچھ ہی عرصہ بعد عام لوگوں کی پہنچ میں تھا اور بڑی تیزی سے ان کی شہرت ہر جگہ پھیل رہی تھی
پروین اعتصامی
پروین اعتصامی اسلامی جمہوریہ ایران کی ایک معروف شاعرہ گزری ہیں ۔ ان کا اصل نام رخشندہ ہے اور وہ 25 اسفند سن 1285 ہجری شمسی کو ایران کے شہر تبریز میں پیدا ہوئیں ۔
پروین اعتصامی
سن 1906 ۔ 1941 پروین یوسف نام، اعتصام الملک کی لڑکی تھی۔ چونکہ خاندان علم وفضل سے بہرہ اور شعر و شاعری کا دلدادہ تھا
قدیم ایرانی زبان
اگر ایرانی ادبیات کی تاریخ ہخامنشی دور سے شمار کی جاۓ تو کوئی ڈھائی ہزار سال سے یہ وطن نظم و نثر میں ادبی آثار کا حامل نظر آتا ہے۔ موجوده فارسی کی اصل و بنیاد جن قدیم زبانوں سے ملتی هے،ان میں سے ایک فارسی باستان هے.جو ایران میں هخامنشیوں کے زمانہ سلطنت 5
فارسی زبان کی تاریخ
ایران کا پرانا نام اران تھا یعنی آریائی باشندوں کا وطن ۔ آریائی باشندے بنیادی طور سے جنوبی روس میں رہنے والی ایک نیم خانہ بدوش قوم تھی جو چار ہزار سال مسیح قبل چراگاہوں کی تلاش میں برصغیر اور موجودہ ایران کے علاقوں میں قافلہ در قافلہ ہجرت کرکے آباد ہو
اردو گرائمر پر فارسی کا اثر
اردو ایک ایسی زبان ہے جو مختلف طرح کی زبانوں سے مل کر سامنے آئی ہے ۔ اسے لشکری زبان بھی کہا جاتا ہےکیونکہ یہ زبان لشکر میں بولی جاتی تھی ۔ اردو ترکی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی بھی لشکر کے ہیں ۔ مغلیہ سلطنت کی افواج میں مختلف علاقوں کے لوگ بھرتی تھے جو
فارسی زبان اور اس کے اثرات
انسان نے جب سے ایک دوسرے کے قریب رہنا شروع کیا اور ایک معاشرے کی بنیاد رکھی تب سے باہمی ارتباط کے لیۓ انسان کو زبان کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ اس ضرورت کے پیش نظر دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف طرح کی زبانیں وجود میں آئیں ۔
شيخ کي شہرت اور بلند آوازگي
یہ جملہ شیخ کے کان تک بھی پہنچ گیا اس کو کمال افسوس ہوا اور یہ سمجھا کہ حکیم نے ہماری مہمان داری میں شاید کوئی قصور دیکھا۔
شيخ اور حکيم نزاري قہستاني کي حکايت
اسی طرح ملتان سے جو کہ شیراز سے چودہ سو میل ہے دو بار خان شہید سلطان محمد قاآن نے شیخ کی شہرات سن کر اس کو وطن سے بلایا مگر وہ بڑھاپے کے سبب نہ آ سکا۔
شيخ کي شاعري کي شہرت اس کي زندگي ميں
شیخ کی جادو بیانی اور فصاحت و بلاغت کا چرچا اس کی زندگی ہی میں تمام ایران، ترکستان، تاتار اور ہندوستان میں اس قدر پھیل گیا تھا کہ اس زمانے کی حالت پر لحاظ کرنے کے بعد اس پر مشکل سے یقین آتا ہے۔
شيخ کو بچپن سے فقر اور درويشي کي طرف زيادہ ميلان تھا
شیخ کو بچپن سے جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے فقر اور درویشی کی طرف زیادہ میلان تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں بھی وہ برابر وجد و سماع کی مجلسوں میں شریک ہوتا تھا
شيخ سعدي اور علامہ ابوالفرج عبدالرحمن ابن جوزي
علامہ ابوالفرج عبدالرحمن ابن جوزی حدیث اور تفسیر میں اپنے وقت کا امام تھا۔ بے شمار کتابیں اس کی تصنیفات سے ہیں۔
سعدي کے زمانے ميں مسلمانوں کے بے شمار مدرسے بلاد اسلام ميں کھلے ہوئے تھے
اس زمانے میں مسلمانوں کے بے شمار مدرسے بلاد اسلام میں جا بجا کھلے ہوئے تھے جہاں دور دور سے طالب علم آ آ کر علم تحصیل کرتے تھے۔
شيخ کي تعليم کا حال
اگرچہ شیخ کا باپ ایک درویش مزاج آدمی تھا اور بچپن میں شیخ کو بہ نسبت علم حاصل کرنے کے زہد اور صلاح و تقوی کی زیادہ ترغیب دی گئی تھی۔
شيخ سعدي کا نام، نسب، ولادت اور بچپن
اس کا نام شرف الدین اور مصلح لقب اور سعدی تخلص ہے۔ سر گوارا وسلی نے اس کی ولادت 589 ہ لکھی ہے۔
پروين اعتصامي کي شاعري
ایران شعروں اور عظیم شعراء کی سرزمین ہے جہاں تاریخ کے مختلف حصوں میں بڑے عظیم شاعر پیدا ہوۓ اور انہوں نے لوگوں کے لیۓ معاشرے کے ہر پہلو پر اپنے دل سے شاعری کی ۔
فارسي ادب کي ايک عظيم شاعرہ
ان کے اشعار دیوان کی صورت میں چھپنے سے قبل ان کے والد کے رسالے مجلہ دوم بھار میں چھپتے تھے ۔
ايراني تاريخ کي ايک عظيم ادبي خاتون
پروین کا گھرانہ ایک ادبی گھرانہ تھا اس لیۓ بچپن سے ہی انہیں مطالعہ کرنے کی عادت پڑ گئی تھی
پروين اعتصامي کي زندگي پر ايک مختصر نظر
پروین اعتصامی فارسی زبان کی ایک معروف شاعرہ گزری ہیں ۔ ان کا اصلی نام رخشندہ ہے
ايران ميں آئينے سے عمارت کي سجاوٹ
قدیم زمانے کے یونانی سائنسدانوں نے اس شیشے کی ایک خاص خاصیت یعنی محدب اور مقعر کے متعلق آشنائی حاصل کی
آئينوں سے سجاوٹ کا ہنر
مختلف طرح کی سجاوٹ کے لیۓ ایران میں آئینے کا استعمال قدیم زمانے سے چلا آ رہا ہے ۔ اس کا رواج 10 صدی ہجری کے آخر میں اور صفوی دور حکومت میں ہوا ۔
بی بی شہربانو (دوسرا حصہ)
بس نے مسافروں کی صلوات پڑھنے کی آوازوں کے درمیان پیچھے کو حرکت کی، پھر گھوم کر دوسری بسوں کے درمیان سے باہر نکل آئی۔
ناصر خسرو کا سفرنامہ
ابو معين حميد الدين ناصر بن خسرو القبادياني المروزي ، تجاوز اللہ عنہ اس طرح سے بيان کرتا ہے کہ ميں ايک منشي تھا اور ان درباري اہلکاروں ميں سے تھا جو سرکاري کاموں ميں مصروف رہتے ہيں ۔ ميں نے کچھ مدت تک يہ کام کيا اور ہم عصروں ميں معروف بھي ہوا ۔
ناصرخسرو قباديانى کا حج نامہ
جس دن سے حضرت ابراہيم عليہ السلام نے اپنے بيٹے حضرت اسماعيل کے ساتھ خانہ کعبہ کي بنياد رکھي ، آج تک ، ہر سال خاص وقت ميں، بہت سے لوگ خانہ خدا کي زيارت کے لئے جاتے اور معين اعمال انجام ديتے ہيں ۔
سيمين دانشور اور ان کي کہانياں
سیمین دانشور کا نام پڑھنے والوں کے لیے نامانوس نہیں۔یہاں ان کی چار منتخب کہانیاں پیش کی جا رہی ہیں جو ایرانی معاشرے، خصوصاً اس میں عورتوں کی صورت حال، کے مختلف پہلوں کو بڑی عمدگی سے ظاہر کرتی ہیں۔
گلستان سعدي
ایران کے قادر الکلام شاعر اور سحر طراز ادیب شیخ شرف الدین کا نثری شاہکار ہے۔ فارسی نثر کی دوسری کتاب کو اس کے برابر مقبولیت ان ممالک میں حاصل نہیں ہوئی۔
فارسي دري کس طرح وجود میں آئی؟
سنہ 21 میں جنگ نہاوند میں ایرانیوں کی شکست کے بعد ایران عملا عربوں کے قبضے میں آگیا۔
اقبال نے مثنوي کو مطالعہ کي کتاب سے عمل کي کتاب بنا ديا
جدید زمانے میں مطالعہ رومی کی تحریک کا نقطۂ عروج اقبال کا تجزیۂ مثنوی ہے۔
مثنوی کے مطالعے کے مقاصد
مثنوی کے زمانہ تصنیف سے لے کر آج تک اس کے مطالعہ کے چار مختلف مطمحِ نظر اور مقصد نظر آتے ہیں
خوش ذوق امرائے عہد کي بدولت مثنوي کے مطالعہ کا شوق اور بھي بڑھ جاتا ہے
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاہجہاں کے آخری زمانے میں مطالعہ مثنوی کی تحریک پہلے سے زیادہ زور سے اٹھی اور آہستہ آہستہ اس میں اتنی شدت اور وسعت پیدا ہو گئی
اکبر کا دورِ عقليّت مثنوي کي عرفاني اور وجداني روح کا متحمل نہ تھا
دسویں صدی کے آخر اور گیارھویں صدی کے شروع میں رومی کی مثنوی ہندوستان میں بھی باقاعدہ طور پر درس و تدریس میں شامل ہو جاتی ہے
مثنوي رومي کے مطالعے کي لہر نويں صدي ہجري کے آغاز ميں اور بھي تيز ہو گئي
رومی کے مطالعہ و تتبع کی تحریک خود رومی کی زندگی ہی میں شروع ہو چکی تھی ان کے بعد ان کے فرزند سلطان ولہ نے حباب نامہ کے نام سے ایک مثنوی لکھی
مُطالعۂ رومي ميں اقبال کا مقام
مطالعہ اقبال کے سلسلے میں رومی کو جو اہمیت حاصل ہے اس کا اعادہ لاحاصل ہے کیونکہ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کو اقبال کے معمولی سے معمولی ناقد یا شارح نے بھی نظر انداز نہیں کیا۔
رومي کے کلام ميں سعدي کي فصاحت موجود نہيں
رومی کے کلام میں سعدی کی فصاحت ، عنصری کی پختہ کاری ، انوری اور فرخی کے پرشکوہ الفاظ موجود نہیں ۔
عالم اور صحبت امراء
علماء میں سے بدتریں عالم وہ ہے جو امراء کی ملاقات کو جائے اور امراء میں سے بہترین امیر وہ ہے جو عالم کی زیارت کو جائے۔
شعر گوئي سے رومي کے کيا کيا مقہصد ہيں؟
وہ شعر کو ہنر مندی کاذریعہ نہیں بناتے۔ وہ تو ان کے لیے آئینہ روح ہے ۔ وہ زندگی سے ناامید نہیں ہوتے
1
2
اصلی صفحہ
ہمارے بارے میں
رابطہ کریں
آپ کی راۓ
سائٹ کا نقشہ
صارفین کی تعداد
کل تعداد
آن لائن