امیرالمؤمنین علیہ السلام کے منتخب خطبات (34)
لوگوں کو اہلِ شام سے آمادہ جنگ کرنے کے لئے فرمایا. حیف ہے تم پر, میں تو تمہیں ملامت کرتے کرتے بھی اُکتا گیا ہوں کیا تمہیں آخرت کے بدلے دنیوی زندگی اور عزت کے بدلے ذلّت ہی گوارا ہے. جب تمہیں دشمنوں سے لڑنے کے لئے بلاتا ہوں تو تمہاری آنکھیں اس طرح گھومنے لگ جاتی ہیں کہ گویا تم موت کے گرداب میں ہو اور جان کنی کی غفلت اور مدہوشی تم پر طاری ہے میری باتیں جیسے تمہاری سمجھ ہی میں نہیں آتیں, تو تم ششدر رہ جاتے ہو. معلوم ہوتا ہے. جیسے تمہاری دل و دماغ پر دیوانگی کا اثر ہے کہ تم کچھ عقل سے کام نہیں لے سکتے. تم ہمیشہ کے لئے مجھ سے اپنا اعتماد کھو چکے ہو. نہ تم کوئی قوی سہارا ہو کہ تم پر بھروسہ کر کے دشمنوں کی طرف رُخ کیا جائے. اور نہ تم عزت و کامرانی کے وسیلے ہو, کہ تمہاری ضرورت محسوس ہو, تمہاری مثال تو ان اونٹوں کی سی ہے. جن کے چرواہے گُم ہو گئے ہوں, اگر انہیں ایک طرف سے سمیٹا جائے, تو دوسری طرف سے تِتر بتر ہو جائیں گے. خدا کی قسم تم جنگ کے شعلے بھڑکانے کے لئے بہت بُرے ثابت ہوئے ہو. تمہارے خلاف سب تدبیریں ہوا کرتی ہیں اور تم دشمنوں کے خلاف کوئی تدبیر نہیں کرتے. تمہارے (شہروں کے ) حدود (دن بہ دن ) کم ہوتے جا رہے ہیں. مگر تمہیں غصہ نہیں آتا. وہ تمہاری طرف سے کبھی غافل نہیں ہوتے, اور تم ہو کہ غفلت میں سب کچھ بھولے ہوئے ہو. خدا کی قسم ایک دوسرے پر ٹالنے والے ہارا ہی کرتے ہیں. خدا کی قسم میں تمہارے متعلق یہ گمان رکھتا ہوں کہ اگر جنگ زور پکڑ لے اور موت کی گرم بازاری ہو, تو تم ابن ابی طالب سے اس طرح کٹ جاؤ گے, جس طرح بدن سے سَر ( کہ دوبارہ پلٹنا ممکن ہی نہ ہو ) جو شخص کہ اپنے دشمن کو اس طرح اپنے پر قابو دے دے کہ وہ اس کی ہڈیوں سے گوشت تک اڑا ڈالے, اور ہڈیوں کو توڑ دے, اور کھال کو پارہ پارہ کردے, تو اس کا عجز انتہا کو پہنچا ہوا ہے اور سینے کی پسلیوں میں گھرا ہوا (دل) کمزور و ناتواں ہے. اگر تم ایسا ہونا چاہتے ہو تو ہوا کرو. لیکن میں تو ایسا اس وقت تک نہ ہونے دوں گا. جب تک مقام مشارف کی (تیز دھار) تو لاریں چلا نہ لوں کہ جس سے سَر کی ہڈیوں کے پرخچے اڑ جائیں, اور بازو اور قدم کٹ کٹ کر گرنے لگیں. اس کے بعد جو اللہ چاہے, وہ کرے .
اے لوگو! ایک تو میرا تم پر حق ہے, اور ایک تمہارا مجھ پر حق ہے کہ میں تمہاری خیر خواہی پیشِ نظر رکھوں اور بیت المال سے تمہیں پورا پورا حصہ دوں اور تمہیں تعلیم دوں تاکہ تم جاہل نہ رہو اور اس طرح تمہیں تہذیب سکھاؤں, جس پر تم عمل کرو اور میرا تُم پر یہ حق ہے کہ بیعت کی ذمہ داریوں کو پورا کرو, اور سامنے اور پسِ پشت خیر خواہی کرو, جب بلاؤں تو میری صدا پر لبیک کہو, اور جب کوئی حکم دوں تو اس کی تعمیل کرو.
یہ جملہ ایسی علٰیحدگی کے لئے استعمال ہوتا ہے کہ جس کے بعد پھر مل بیٹھنے کی کوئی آس نہ رہے. صاحبِ درہ نجفیہ نے اس کی توجیہ میں چند اقوال نقل کئے ہیں:
(الف) ابنِ درید کا قول یہ ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح سَر بدن سے کٹ جاتا ہے, تو پھر اس کا جڑنا ناممکن ہوتا ہے. یُونہی تم ایک دفعہ ساتھ چھوڑنے کے بعد پھر مجھ سے نہ مل سکو گے .
(ب) مفضل کا قول ہے کہ راس (سَر) ایک شخص کا نام تھا اور شام کا ایک گاؤں " بیت الراس" اسی کے نام پر ہے جو اپنا گھر بار چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا. اور پھر پلٹ کر اپنے گاؤں میں نہ آیا. جس سے یہ کہاوت چل نکلی, کہ تم تو یوں گئے جس طرح راس گیا تھا.
(ج) ایک معنی یہ ہیں کہ جس طرح سر کی ہڈیوں کے جوڑ الگ الگ ہو جائیں تو پھر آپس میں جڑا نہیں کرتے, یُونہی تم مجھ سے کٹ کر پھر نہ جڑ سکو گے .
(د) یہ بھی کہا گیا ہے کہ جُملہ "الفرجتم عنی راسا" (یعنی تم پورے طور پر مجھے سے الگ ہو جاؤ گے ) کے معنی میں ہے. شارح معتزلی نے یہ معنی قطب الدین راوندی کی شرح سے نقل کرنے کے بعد تحریر کیا ہے کہ یہ معنی درست نہیں ہیں. کیونکہ راس جب کلیتہً کے معنی میں آتا ہے, تو اس پر الف لام داخل نہیں ہوا کرتا.
(ڈ) اس کے یہ معنی بھی کئے جاتے ہیں کہ تم مجھ سے اس طرح دامن چھڑا کر چلتے بنو گے, جس طرح کوئی سر بچا رک بھاگ کھڑا ہوتا ہے. اس کے علاوہ ایک آدھ معنی اور بھی کہے گئے ہیں مگر بعید ہونے کی وجہ سے انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے.
سب سے پہلے اس کا استعمال حکیم عرب اکثم ابنِ صیفی نے اپنے بچوں کو اتفاق و اتحاد کی تعلیم دیتے ہوئے کیا. چنانچہ اس کا قول ہے کہ :
بیٹو! سختی کے وقت ایک دوسرے سے الگ نہ ہو جانا, ورنہ پھر کبھی ایک جگہ جمع نہ ہو سکو گے .
متعلقہ تحریریں:
امیرالمؤمنین علیہ السلام کے منتخب خطبات (30)
امیرالمؤمنین علیہ السلام کے منتخب خطبات (29)