امیرالمؤمنین علیہ السلام کے منتخب خطبات (28)
( جو اس خطبے کی ایک فصل کی حیثیت رکھتا ہے جس کا آغاز " الحمد للہ غیر مقنوط من رحمتھ " سے ہوا ہے اوراس میں گیارہ تنبیہات ہیں )
دنیا نے پیٹھ پھیر کر اپنے رخصت ہونے کا اعلان اور منزل عقبیٰ نے سامنے آ کر اپنی آمد سے آگاہ کر دیا ہے ۔ آج کا دن تیاری کا ہے اور کل دوڑ کا ہو گا ۔ جس طرف آگے بڑھنا ہے، وہ تو جنت ہے اور جہاں کچھ اشخاص (اپنے اعمال کی بدولت بلا اختیار پہنچ جائیں گے وہ دوزخ ہے کیا موت سے پہلے اپنے گناہوں سے توبہ کرنے والا کوئی نہیں اور کیا اس روز مصیبت کے آنے سے پہلے عمل (خیر) کرنے والا ایک بھی نہیں، تم امیدوں کے دور میں ہو جس کے پیچھے موت کا ہنگامہ ہے ۔ تو جو شخص موت سے پہلے ان امیدوں کے دنوں میں عمل کر لیتا ہے تو یہ عمل اُس کیلئے سودمند ثابت ہوتا ہے اور موت اُس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی اور جو شخص موت سے قبل زمانہ امید و آرزو میں کوتاہیاں کرتا ہے تو وہ عمل کے اعتبار سے نقصان رسیدہ رہتا ہے اور موت اس کیلئے پیغام ضرر لے کر آتی ہے ۔ لہٰذا جس طرح اس وقت جب ناگوار حالات کا اندیشہ ہو نیک اعمال میں منہمک ہوتے ہو، ویسا ہی اس وقت بھی نیک اعمال کرو جب کہ مستقبل کے آثار مسرت افزا محسوس ہو رہے ہوں۔ مجھے جنت ہی ایسی چیز نظر آتی ہے جس کا طلب گار سویا پڑا ہو اور جہنم ہی ایسی شے دکھائی دیتی ہے جس سے دور بھاگنے والا خواب غفلت میں محو ہو، جو حق سے فائدہ نہیں اٹھاتا، اسے باطل کا نقصان و ضرر متعلق سب سے زیادہ دو ہی چیزوں کا خطرہ ہے ۔ ایک خواہشوں کی پیروی اور دوسرے امیدوں کا پھیلاوٴ۔ لہذا جب تک اس دنیا میں ہو اس دنیا سے وہ زاد راہ حاصل کر لو جس کے ذریعے کل اپنے نفس کا تحفظ کر سکو ۔
سید رضی کہتے ہیں کہ اگر کوئی کلام گردن پکڑ کر زہد و نیوی کی طرف لانے والا اور عمل اخروی کیلئے مجبور و مضطر کر دینے والا ہو سکتا ہے تو وہ کلام ہے جو امیدوں کے بندھنوں کو توڑنے اور وعظ و سرزنش سے اثر پذیری کے جذبات کو مشتعل کرنے کیلئے کافی و وافی ہے ۔ اس خطبے میں یہ جملہ ”الاوالیوم المصمار و غذا السباق السبعة الجنة و الغایة النار“ تو بہت ہی عجیب و غریب ہے ۔ اس میں لفظوں کی جلالت، معنی کی بلندی، سچی تمثیل اور صحیح تشبیہ کے ساتھ عجیب اسرار اور باریک نکات ملتے ہیں۔ حضرت امام علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا”السبعة الجنة و الغایة النار“ میں بمعتی مقصود کے الگ الگ ہونے کی وجہ سے دو جداگانہ لفظیں ”السبقة الغلیة“ استعمال کی ہیں۔ جنت کیلئے لفظ ”سبقة“(بڑھنا) فرمائی ہے اور جنہم کیلئے یہ لفظ استعمال نہیں کیا۔ کیونکہ سبقت اس چیز طرف کی جاتی ہے جو مطلوب و مرعوب ہو اور یہ بہشت ہی کی شان ہے اور دوزخ میں مظلوبیت و مرغوبیت کہاں کہ اس کی جستجو و تلاش میں بڑھا جائے ۔ (نعوذ باللہ منہا ) چونکہ البقة النار کہنا صحیح و درست نہیں ہو سکتا تھا۔ اسی لئے والغایة النار فرمایا اور غایت صرف منزل منتہا کو کہتے ہیں۔ اس تک پہنچنے والے کو خواہ رنج و کوفت ہو یا شادمانی و مسرت ۔ یہ ان دونوں معنوں کی ادائیگی کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بہر صورت اسے مصبر و مآل (باز گشت ) کے معنی میں سمجھنا چاہیے اور ارشاد قرآنی ہے ۔ ”قُل تَمَنْعُوا فَانً مَصِبْرَ کُمْ اِلَی النًار“(کہو کہ تم دنیا سے اچھی طرح حظ اٹھا لو تو تمہاری باز گشت جہنم کی طرف ہے ) یہاں مصبر کم کی بجائے سیقنکم کہنا کسی طرح صحیح و درست نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس میں غور و فکر کرو اور دیکھو کہ اس کا باطن کتنا عجیب اور اس کا گہراوٴ نطافتوں کو لئے ہوئے کتنی دور تک چلا گیا ہے اور حضرت امام علی علیہ السلام کا بیشتر کلام اسی انداز پر ہوتا ہے اور بعض روایتوں میں ”السبقة بصم سین“ بھی آیا ہے اور سبقة اُس مال و متاع کو کہتے ہیں جو آگے نکل جانے والے کیلئے بطور انعام رکھا جاتا ہے ۔ بہر صورت دونوں کے معنی قریب قریب یکساں ہیں اس لئے کہ معاوضہ و انعام کسی قابل مذمت فعل پر نہیں ہوتا۔ بلکہ کسی اچھے اور لائق ستائش کارنامے کے بدلے ہی میں ہوتا ہے ۔
بشکریہ مباھلہ ڈاٹ کام
پیشکش : شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان
متعلقہ تحریریں:
امیرالمؤمنین علیہ السلام کے منتخب خطبات (24)
امیرالمؤمنین علیہ السلام کے منتخب خطبات (23)