• صارفین کی تعداد :
  • 12603
  • 12/15/2009
  • تاريخ :

امیرالمؤمنین علیہ السلام کے منتخب خطبات (16)

امیرالمؤمنین علیہ السلام

جب مدینہ میں آپ کی بیعت ہوئی تو فرمایا: میں اپنے قول کا ذمہ دار اور اس کی صحت کا ضامن ہوں۔ جس شخص کو اس کے دیدہء عبرت نے گذشتہ عقوبتیں واضح طور سے دکھا دی ہوں، اسے تقویٰ شبہات میں اندھا دھند کودنے سے روک لیتا ہے۔ تمہیں جاننا چاہیے کہ آج تمہارے لیے وہی آزمائشی  دور پلٹ آیا ہے جو رسول کی بعثت کے وقت تھا۔ اس ذات کی قسم جس نے رسول کو حق و صداقت کے ساتھ بھیجا۔ تم بری طرح تہ و بالا کیے جاؤ گے اور اس طرح چھانٹے جاؤ گے جس طرح چھلنی سے کسی چیز کو چھانا جاتا ہے اور اس طرح غلط ملط کئے جاؤ گے جس طرح (چمچے سے ہنڈیا) یہاں تک کہ تمہارے ادنےٰ اعلیٰ اور اعلیٰ ادنیٰ ہو جائیں گے جو پیچھے تھے آگے بڑھ جائیں گے اور جو ہمیشہ آگے رہتے تھے و ہ پیچھے چلے جائیں گے۔ خدا کی قسم میں نے کوئی بات پردے میں نہیں رکھی، نہ کبھی کذب بیانی سے کام لیا۔ مجھے اس مقام اور اس دن کی پہلے ہی سے خبر دی جا چکی ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ گناہ اس سرکش گھوڑوں کے مانند ہیں جن پر ان کے سواروں کو سوار کر دیا گیا ہو اور باگیں بھی ان کی اتار دی گئی ہوں اور وہ لے جا کر انہیں دوزخ میں پھاند پڑیں اور تقویٰ رام کی ہوئی۔ سواریوں کے مانند ہے جن پران کے سواروں کو سوار کیا گیا ہو۔ اس طرح کہ باگیں ان کے ہاتھ میں دے دی گئی ہوں اور وہ انہیں (باطمینان) لے جا کر جنت میں اتار دیں۔ ایک حق ہوتا ہے اور ایک باطل اور کچھ حق والے ہوتے ہیں، کچھ باطل والے۔ اب اگر باطل زیادہ ہو گیا تو یہ پہلے بھی بہت ہوتا رہا ہے اور اگر حق کم ہو گیا ہے تو بسا اوقات ایسا ہوا ہے اور بہت ممکن ہے کہ وہ اس کے بعد باطل پر چھا جائے۔ اگرچہ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی چیز پیچھے ہٹ کر آگے بڑھے۔ علامہ رضی فرماتے ہیں کہ اس مختصر سے کلام میں واقعی خوبیوں کے اتنے مقام ہیں کہ احساس خوبی کا اس کے تمام گوشوں کو پا نہیں سکتا اور اس کلام سے حیرت و استعجاب کا حصہ پسندیدگی کی مقدار سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس حالت کے باوجود جو ہم نے بیان کی ہے اس میں فصاحت کے اتنے بے شمار پہلو ہیں کہ جن کے کرنے کا یارا نہیں ۔ نہ کوئی انسان اس کی عمیق گہرائیوں تک پہنچ سکتا ہے۔ میری اس بات کو وہی جان سکتا ہے جس نے اس فن کاپورا پورا حق  ادا کیا ہو، اور اس کے رگ و ریشہ سے واقف ہو اور جاننے والوں کے سوا کوئی ان کو نہیں سمجھ سکتا۔

اسی خطبے کا ایک حصہ یہ ہے۔

جس کے پیشِ نظر دوزخ و جنت ہو، اس کی نظر کسی اور طرف نہیں اٹھ سکتی، جو تیز قدم دوڑنے والا ہے، وہنجاتیافتہ ہےاور جو بلب گارہو، مگر سست رفتار اُسے بھی توقع ہو سکتی ہے۔ مگر جو (ارادةً) کوتاہی کرنے والا ہو، اُسے تو دوزخ ہی میں گرنا ہے۔ دائیں بائیں گمراہی کی راہیں ہیں اور درمیانی راستہ ہی صراطِ مستقیم ہے۔ اس راستے پر اللہ کی ہمیشہ رہنے والی کتاب اور نبوت کے آثار ہیں۔ اسی سے شریعت کا نفاذ و اجراء ہوا ۔ اور اسی کی طرف آخر کار بازگشت ہے جس نے (غلط) ادعا کیا وہ تباہ و برباد ہوا اور جس نے افتراء باندھا ، وہ ناکام و نامراد رہا جو حق کے مقابلے میں کھڑا ہوتا ہے۔ تباہ ہو جاتا ہے اور انسان کی جہالت اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ وہ اپنی قدر و منزلت کو نہ پہچانے وہ اصل و اساس، جو تقویٰ پر ہو، برباد نہیں ہوتی، اور اس کے ہوتے ہوئے کسی قوم کی کشت (عمل) بے آب و خشک نہیں رہتی۔ تم اپنے گھر کے گوشوں میں چھپ کر بیٹھ جاؤ آپس کے جھگڑوں کی اصلاح کرو، توبہ تمہارے عقب میں ہے۔ حمد کرنے والا صرف اپنے پروردگارکی حمد کرے اور بھلا برا کہنے والا اپنے ہی نفس کی ملامت کرے۔

پیشکش : شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان


متعلقہ تحریریں:

امیرالمؤمنین علیہ السلام کے منتخب خطبات (12)

امیرالمؤمنین علیہ السلام کے منتخب خطبات (11)