عقیدہ ختم نبوت
دین اسلام کے مسلمہ اصولوں میں سے ایک نبوت پر اعتقاد ہے بلکہ تمام ادیان آسمانی کے ہاں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ نبوت اور پیغمبری کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت اور آپ ؐ کا آخری نبی ہونا دین اسلام کے مسلمہ امور میں سے ہے۔
عقیدہ ختم نبوت
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
دین اسلام کے مسلمہ اصولوں میں سے ایک نبوت پر اعتقاد ہے بلکہ تمام ادیان آسمانی کے ہاں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ نبوت اور پیغمبری کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت اور آپ ؐ کا آخری نبی ہونا دین اسلام کے مسلمہ امور میں سے ہے۔ اس پر تمام امت اسلامی کا اتفاق و اجماع ہے۔ اگر کبھی اس سلسلے میں کوئی اختلاف بھی ہو تو وہ فرعی مسائل میں ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی عقلی دلیل یہی ہے کہ تاریخ شاہد ہے آپ ؐنے نبوت کا دعویٰ کیا اور اپنے دعوے کو معجزات کے ذریعے ثابت فرمایا۔ آپ ؐنے ان معجزات کے ذریعے لوگوں کو چیلنج بھی دیا۔ لہذا اگر معجزہ چیلنج کے ساتھ ہو تو یہی نبوت کے اثبات کے لئے قطعی دلیل ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہم ترین معجزات میں سے ایک قرآن کریم ہے۔ آپ ؐنے مختلف طریقوں سے لوگوں کو قرآن کا مقابلہ کرنے کا چیلنج دیا۔ کبھی قرآن کا مثل لانے۔1 کبھی اس کی طرح دس سورتیں لانے،2 اور کبھی اس کی مانند ایک سورہ لانے کا چیلنج دیا۔3 جس کے آگے صرف یہ کہ عرب کے نامور ادیبوں اور سخنوروں نے سر تسلیم خم کیا بلکہ ان میں سے بعض افراد نے قرآن کریم کے مافوق بشر ہونے کا اعتراف بھی کیا، لیکن جاہلی تعصب کی وجہ سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کے بجائے وہ آپ ؐ کے کلام کو جادو سے تعبیر کرنے لگے، تاکہ لوگوں کو اس طریقے سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے سے روکا جا سکے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن کریم کے علاوہ بھی مختلف معجزات کے مالک تھے۔ اگرچہ ان میں سے ہر ایک تواتر لفظی کے ساتھ نقل نہیں ہوا، لیکن وہ تواتر معنوی کی حد تک پہنچے ہوئے ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی نبوت کے اثبات کے لئے مختلف معجزات لوگوں کو دکھائے اور آپ ؐنے اس سلسلے میں دوسروں کو مقابلہ کرنے کی دعوت بھی دی۔ یہ بات تاریخ کے مسلمات اور قطعیات میں شامل ہے۔4 قرآن مجید پیغمبر اسلام کے متعدد معجزات بیان کرتا ہے جیسے؛ شق القمر، واقعہ معراج، مباہلہ، عالم غیب کی خبر دینا وغیرہ۔ ان کے علاوہ محدثین اور مورخین اسلام نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بہت سے معجزات نقل کئے ہیں، جو تواتر کی حد تک پہنچتے ہیں۔ اسلام کی ضروریات میں سے ایک یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ آنحضرت ﷺ پر تمام ہوگیا ہے، یعنی (آنحضرت ﷺ خاتم ہیں) اور آپ کے بعد نہ کوئی نبی مبعوث ہوا ہے اور نہ ہی آئندہ کوئی نبی مبعوث ہونے والا ہے، یہاں تک کہ غیر مسلموں کو بھی معلوم ہے کہ یہ اسلام کے اعتقادات میں سے ہے اور اس پر ایمان رکھنا ہر مسلمان کا فرض ہے، اسی وجہ سے دوسری ضروریات کی طرح اِس کے لئے استدلال کی ضرورت نہیں ہے، اس کے علاوہ اس مطلب کو قرآن اور متواتر دلیلوں کے ذریعہ ثابت کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کے قرآن کریم فرماتا ہے:(مَّا كاَنَ محُمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَ لَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيِّن)5۔ محمد (ص) تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیاء کے خاتم ہیں اور اللہ ہر شے کا خوب جاننے والا ہے۔
یہ آیت واضح انداز میں آپ کے خاتم ہونے کو بیان کرتی ہے، لیکن اسلام کے دشمنوں نے اس آیت پر دو اعتراض کئے ہیں۔ پہلا اعتراض یہ ہے کہ یہ آیت سلسلہ انبیاء علیہم السلام کے ختم ہونے کی خبر بھی دے رہی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رسولوں کی بعثت کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا ہے۔ دوسرا اعترض یہ ہے کہ بالفرض اگر ہم تسلیم کر لیں کہ آنحضرت سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے ہیں، لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نبوت کے ساتھ، رسالت کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا ہو۔ پہلے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ خاتم کے معنی ختم کرنے اور تمام کرنے والے کے ہیں اور خاتم کو اسی وجہ سے انگوٹھی کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے کہ اس کے لگنے کے بعد تحریر مکمل ہو جاتی ہے۔ دوسرے اعترض کا جواب یہ ہے کہ جو بھی نمائندہ خدا مقام رسالت سے سرفراز ہوا، وہ مقام نبوت کا بھی مالک ہے، لہٰذا انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ کے ختم ہوتے ہی رسولوں کا سلسلہ بھی تمام ہو جاتا ہے۔6 خاتمیت کے گواہ کے طور پر صرف مذکورہ آیت نہیں ہے بلکہ اسی سلسلے میں قرآن مجید میں نصوص ششگانہ ہیں، جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاتمیت پر گواہی دیتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کی خاتمیت کے بارے میں متعدد روایات موجود ہیں، جو اس بات کی وضاحت اور تاکید کرتی ہیں، جیسے کہ حدیث منزلت جو آنحضرت ﷺ سے نقل ہوئی ہے، اُسے شیعہ اور سنی علماء نے تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے۔ جس کی وجہ سے اُس کی صحت اور مضمون میں کسی بھی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں رہتا ہے۔
جب آنحضرت ﷺ نے جنگ تبوک کے لئے مدینہ سے خارج ہونا چاہا تو حضرت علی علیہ السلام کو مسلمانوں کی دیکھ بھال اور اُن کے امور کی انجام دہی کے لئے اپنا نائب بناکر مدینہ چھوڑ گئے، لیکن حضرت علی علیہ السلام اس فیض الٰہی سے محروم ہونے کے سبب غمگین و رنجیدہ خاطر تھے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، یہ دیکھ کر حضرت رسول اکرا م ﷺ نے آپ سے فرمایا ۔ (اَمَا تَرضَیٰ اَن تَکُونَ مِنِّي بِمَنزِلَہِ ہَارُونَ مِن مُوسیٰ اِلَّا اَنَّہُ لَا نَبِيَّ بَعدِي) کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ تم کو مجھ سے وہی نسبت ہےو جو ہارون علیہ السلام کو موسٰی علیہ السلام سے تھی؟ اور اسی جملہ کے فوراً بعد فرمایا:(اِلَّا اَنَّہُ لَانَبِيَّ بَعدِي) بس فرق اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ یہ جملہ آپ کی خاتمیت کے سلسلہ میں بھی ہر قسم کے شک و شبہ کو دفع کر دیتا ہے۔7 ایک دوسری روایت میں آپ ﷺ سے نقل ہوا ہے کہ آپ فرماتے ہیں:(ایُّہا النَّاس اِنَّہُ لَا نَبِيَّ بَعدِي وَلَا اُمَّةَ بَعدَکُم)8 اے لوگو! میرے بعد کوئی نبی اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں آئے گی۔ اسی طرح ایک دوسری روایت میں فرماتے ہیں :(اَیُّہَا النَّاسُ اِنَّہُ لَا نَبِيَّ بَعدِي وَلَا سُنَّةَ بَعدَ سُنَّتِی)9 اے لوگو میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور میری سنت کے بعد کوئی سنت نہیں ہوگی۔
جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل کی گئی ایک معتبر حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انبیاء کے در میان میری مثال ایسی ہے جیسے کسی نے ایک خوبصورت عمارت تعمیر کی ہو، لیکن اس عمارت میں ایک جگہ صرف ایک اینٹ لگانا باقی ہو، جو بھی اس عمارت میں داخل ہوتا ہے، اس خالی جگہ پر نظر ڈالتے ہی کہتا ہے: کتنی خوبصورت ہے یہ عمارت، لیکن ایک اینٹ کی جگہ خالی ہے۔ میں وہی آخری اینٹ ہوں اور نبوت کا سلسلہ مجھ پر ختم ہوگیا ہے۔10 حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: حلال محمد حلال اٴبداً الیٰ یوم القیامة و حرامہ حرام ابداً الیٰ یوم القیامة۔11 حلال محمد ہمیشہ ہمیشہ قیامت تک حلال ہے اور حرام محمد ہمیشہ ہمیشہ قیامت تک حرام ہے۔ نبوت اور رسالت کے درمیان نسبت کے بارے میں دو نظریئے ہیں: بعض نبوت کو رسالت سے عام جبکہ بعض نبوت کو رسالت کا لازمہ قرار دیتے ہیں۔ البتہ بہرحال ختم نبوت، ختم رسالت بھی شمار ہوتا ہے، کیونکہ دو متلازم چیزوں میں سے کسی ایک کی نفی کرنا گویا دوسری چیز کی بھی نفی کرنا ہے۔ اسی طرح عام کی نفی کرنا خاص کی بھی نفی ہے۔ لہذا یہ دعویٰ کہ خاتمیت پر موجود دلائل صرف ختم نبوت پر دلالت کرتے ہیں نہ کہ ختم رسالت پر، صرف اور صرف ایک بیہودہ خیال ہے، جو حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔
جب پوری کائنات کے لئے تبلیغ رسالت الیت کی ذمہ داری صرف ایک رسول اور اس کے حامیوں اور جانشینوں کی مدد سے ممکن ہو جائے اور اس کی شریعت کے احکام و قوانین حال و آئندہ کی احتیاجات کے جواب دینے پر قادر ہوں، نیز مسائل جدید کو حل کرنے کے لئے اس شریعت میں اتنی صلاحیت ہو اور اس کے علاوہ تحریف سے محفوظ رہنے کی ضمانت اُسے دی گئی ہو تو پھر اس صورت میں کسی دوسرے پیغمبر کی بعثت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن بشری علوم ایسی شرائط کی تشخیص سے ناتواں اور عاجز ہیں، فقط خدا ہے جو اپنے لامتناہی علم کی وجہ سے ایسے زمان و شرائط کے تحقق سے باخبر ہے، جیسا کہ اُس نے آخری نبی اور اُس کی کتاب کے ساتھ انجام دیا، لیکن سلسلہ نبوت کے ختم ہو جانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا اور اُس کے بندوں کے درمیان اب کوئی رابطہ نہیں رہا ہے، بلکہ اگر خدا چاہے تو کسی بھی وقت اپنے شائستہ بندوں کو علم غیب کے ذریعہ اضافہ کرسکتا ہے، اگرچہ وحی کی صورت ہی میں کیوں نہ ہو، جیسا کہ شیعوں کے عقیدہ کے مطابق خدا نے ائمہ علیہم السلام کو ایسے علوم سے نوازا ہے۔12
حوالہ جات:
1۔ اسراء،88
2۔ ہود،13
3۔ بقرۃ،23
4۔ عقائد امامیہ، جعفرسبحانی، ص199
5۔ احزاب،40
6۔ مفاہیم القران، ج 3ص130
7۔ صحیح بخاری، ج3، ص58۔ صحیح مسلم، ج2، ص323۔ امالی صدوق، ص28۔ بحار الانوار، ج37، ص254۔ سنن ترمذی، ج2، ص301۔ سیرۃ ابن ہشام، ج4، ص162۔ مسند احمد،ج1، ص174
8۔ وسائل اشیعہ، ج۱/ ص ۱۵۔ خصال، ج۱/ص ۳۲۲ خصال ج۔۲/ ص ۴۸۷
9۔ وسائل الشیعہ، ج۱۸/ ص۵۵۵․ من لا یحضرہ الفقی، ج۴/ ص ۱۶۳۔ بحار الانوار، ج۲۲/ ص ۵۳۱۔ کشف الغمہ، ج۱، ص۲۱
10۔ تفسیر مجمع البیان
11۔ اصول کافی ،ج۱،ص58
12 ۔علامہ مصباح یزدی،آموزش عقائد