معرفت قرآن سے کیامراد ہے ؟
رآن کیا ہے ........؟ حقیقت قرآن کیا ہے ........؟یہ قرآن کہاں سے ہے........ ؟منبع ا س کا کیا ہے........؟ ما¿خذ ا س کا کیا ہے........؟ کس مقصد کے لئے ہے........؟ کیوں قرآن خلق ہوا
اب جبکہ ہمارا موضوع معرفت و شناخت قرآن ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ اس شناخت سے مراد کیا ہے ؟ شناخت قرآن سے بعض اوقات یہ مراد لی جاتی ہے کہ جو کچھ قرآن کے اندر موجود ہے قرآن کی مختلف سورتیں، قرآن کی آیات ، قرآن کا پیغام ، قرآن کی دعوت ، ان کو سمجھنا شناخت قرآن اور معرفت قرآن ہے یہ بھی درست معنی ہے اور اسے بھی قرآن کی معرفت کہہ سکتے ہیں لیکن ہماری گفتگو اس معرفت کے بارے میں نہیں ہے یعنی اس مرحلے میں تفسیر قرآن و فہم قرآن مقصود نہیں ہے بلکہ شناخت قرآن سے مراد یہ ہے کہ خود قرآن کیا ہے ؟ نہ کہ قرآن کیا کہہ رہا ہے ،قرآن کے اندر موجود آیات کیا کہہ رہی ہیں بلکہ خود قرآن کیا ہے ؟
معرفت قرآن سے مراد چند چیزوں کا جاننا ہے اوّل یہ کہ خود قرآن کیا ہے ........؟ حقیقت قرآن کیا ہے ........؟یہ قرآن کہاں سے ہے........ ؟منبع ا س کا کیا ہے........؟ ما¿خذ ا س کا کیا ہے........؟ کس مقصد کے لئے ہے........؟ کیوں قرآن خلق ہوا........؟ کیوں قرآن وجود میں آیا........؟ کیوں قرآن اتارا گیا ........؟کیوں قرآن نازل ہوا........ ؟مقصد کیا ہے ........؟ہدف کیا ہے........؟ غرض و غایت کیا ہے ........؟ قرآن کا پی©غام کیاہے........ ؟اس پیغام کو پہنچانے کے لئے قرآن کا اسلوب اور روش کیا ہے........؟ اور اس اسلوب کی زبان کیاہے ........؟کس زبان میں قرآن اپنا پیغام پہنچارہا ہے ........؟ قرآن کا مخاطب کون ........ہے؟ کس کو مخاطب قرار دے رہا ہے........؟ قرآن اپنے مخاطب کو کہاں پہنچانا چاہتا ہے........؟ اسے کدھر لے کر جانا چاہتا ہے........؟ اور یہ کہ قرآن اپنے پیغام کو کن مراتب ، درجات ،اقسام اور شکلوں میں پہنچانا چاہتا ہے یا پہنچا ر ہا ہے........ ؟ قرآن کے پیغام کے مرتبے، درجے اور شکلیںکیا ہیں........؟ قرآن کا ادّعا کیا ہے........؟ قرآن کی دعوت کیا ہے........ ؟یہ وہ مسائل ہیں جو شناخت قرآن سے تعلق رکھتے ہیں۔ پس یہاں ہماری بحث فہم قرآن میں نہیں ہے بلکہ خود قرآن کی شناخت میںہے نہ قرآن کے اندر جو کچھ موجود ہے ا س کی پہچان ،وہ بعد کا مرحلہ ہے جب ہم یہ پہلی شناخت ہدف کیا ہے........؟ قرآن کی رسالت کیا ہے ............؟ قرآن کا مقصد کیا ہے........ ؟ قرآن کی زبان کیاہے ........؟یہ امور اگر ہم جان لیں اور ان جیسے دیگر امور جو اس بحث کے زمرے میں آتے ہیں اس وقت ہم دوسری معرفت کے قابل ہوں گے کہ قرآن کے اندر جو کچھ موجود ہے وہ کیا ہے؟ یعنی فہم قرآن پر قادر ہوں گے۔ اس دوسری شناخت کے لئے پہلی شناخت ضروری ہے ابتدا ئی شناخت ضروری ہے مثلاً ہم دعوت قرآن،پیغام قرآن ،قرآن کی سورتوں اور آیات کو اس وقت سمجھنے کے قابل ہوںگے جب یہ پہلی معرفت حاصل ہو جائے پس معرفت کی دو قسمیں ہوگئیں اور ان دونوں کی طرف توجہ رکھنا ضروری ہے، ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا رکھنا اور سمجھنا ضروری ہے تا کہ اثناءبحث میں گم نہ ہو جائیں،بہک نہ جائیں، جس حصے میں بحث کررہے ہیں اس سے کہیں دو سرے حصے میں منتقل نہ ہو جائیں کہ عموماً جن لوگوں نے شناخت قرآن کے بارے میں بحث کی ہے یہ اتفاق ان کے ساتھ رو نما ہوا ہے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ پہلی بحث سے دوسری بحث میں منتقل ہو گئے ہیں، ناخواستہ طور پر دوسری بحث میں چلے گئے ہیں یعنی یہ بحث کرنے بیٹھے تھے کہ خود قرآن کیا ہے........؟
قرآن کی زبان کیا ہے........ ؟ قرآن کی رسالت کیا ہے ........؟ قرآن کا ہدف کیا ہے ........؟ قرآن کی روش کیاہے ........؟ قرآن کا مخاطب کون ہے ........؟ قرآن کی تعلیمات کے درجے کیا ہیں........؟ قرآن کن معارف کی اقسام کو لے کر آیا ہے وغیرہ جبکہ ناخواستہ طور پر اس بحث سے منتقل ہو کر اس معرفت میں چلے گئے ہیں جو خود قرآن دے رہا ہے مثلا ًخدا کی شناخت ،زمین و آسمان کی شناخت ،لیل و نہار کی شناخت ،ملائکہ کی شناخت ، انسان کی شناخت اور احکام کی شناخت ،یہ سب امور جاننا بھی شناخت قرآن اورفہم قرآن ہیں لیکن یہ معرفت کی دوسری قسم ہے ،قرآن شناس انسان کے سامنے یہ دو بحثیں ہیں اور ا ن کے در میان فرق مد نظر نہ ہو یا فرق اتنا دقیق ہو کہ اس کو عملًا لحاظ نہ کیا جا سکتا ہو تو نہ چاہتے ہوئے بھی پہلی بحث سے دوسری بحث میں منتقل ہو جائے گا پس اس نکتے پر اصرار اور تاکید ہے کہ دونوں قسم کی شناخت میں فرق ملحوظ رکھا جائے، پہلی شناخت نہ ہونے کی صورت میں انسان اگر قرآن فہمی کے مرحلے میں آجائے یعنی معرفت دوّم میں آجائے تو اس وقت جو صورت حال سامنے آئے گی اسے ایک حسی مثال کے ذریعے آ پ کی خدمت میں عرض کیا جاتا ہے
مثال کے طور پر انسان کسی شہر کی معلومات حاصل کئے بغیر، شناخت حاصل کئے بغیر یا معرفت حاصل کئے بغیر ایک ایسے انجانے شہر میں داخل ہوجائے جس کی گلیوں، سڑکوں، محلوں، مارکیٹوں، بازاروں اور شہریوں کی زبان سے آشنا نہ ہو ،کہ آئے دن ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں آپ فرض کریں کہ ایک ایسا انسان شہر میں داخل ہو،جس کو اس شہر کی زبان نہیں آتی اور جو زبان وہ بولتا ہے وہ یہاں کوئی نہیں بولتا، اس شہر کے بارے میں ا س کو کوئی پہچان نہیں ہے کوئی شناخت نہیں ہے اور اس شہر میں آنا اس کی ضرورت بھی ہے اورلازمی بھی ہے کیونکہ اس شہر میں اس کا مطلوب و مقصود ہے جس کی جستجو اور تلاش میں اس شہر میں داخل ہوا ہے، اس شخص کی تصویر اپنے ذہن میں بنائیں کہ کیا اتفاق ا س کے ساتھ رونما ہو گا؟ ایک گونگا انسان اگر چہ بولتا ہے لیکن ا س کی بولی کوئی سمجھتا نہیں ہے، شہر والے گفتگو کر رہے ہیں لیکن یہ شہر کی زبان نہیں سمجھتا ،شہر میں داخل تو ہو گیا ہے،گلیاں سڑکیں دیکھ رہا ہے لیکن اسے یہ نہیں معلوم کہ یہ گلیاں کہاں جا رہی ہیں، یہ طُرق اور یہسُبُل کہاں جارہے ہیں اور اس شہر کے باسی آپس میں ایک دوسرے کو کیا کہہ رہے ہیں اور یہ سڑکیں کہاں ختم ہوں گی؟........ یہ گلیاں کہا جاکر ختم ہوتی ہیں؟ ........ا س کا مطلوب کس گلی میں ہے؟ ........ ا س کا مقصود کس سڑک پر ہے؟........ کس بازار میں ہے ؟........کس مارکیٹ میں ہے؟ ........معلوم ہے اور آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ انسان ایک انجان شہر میں جس کی بولی اور زبان نہیں سمجھتا ،جس کا نقشہ نہیں جانتا ،جس کی ابتدا و انتہا نہیں جانتا کہ یہ شروع کہاں سے ہوتا ہے ؟ ........ختم کہاں پہ ہو تا ہے ؟........ اس شہر کی کسی بھی چیز سے آشنا نہیں ہے لیکن اس کے اند ر داخل ہو گیا ہے ا س کا نتیجہ حیرت ،سرگردانی،اتلاف عمر، گمراہی، بہکاوا، خستگی ،تھکاوٹ، پریشانی اور خود ساختہ آراءکے علاوہ کچھ نہیں ہے یعنی خود سے ہی کسی بلڈنگ کو دیکھتا ہے پوچھتا نہیں ہے ،کسی کی زبان نہیں سمجھتا، بینک کو ہوٹل قرار دے رہا ہے، ہوٹل کو بینک سمجھ رہا ہے، گھر کو مارکیٹ سمجھ رہا ہے، مارکیٹ کو دکان یا کچھ اور سمجھ رہا ہے چونکہ نہیں جانتا، لیکن ذہن تو ا س کا کام کر رہا ہے اپنے ذہن سے خود ہی ان چیزوں کو عنوان بھی دے رہا ہے جن،خود قرآن کے بارے میں پیدا کرلیں، ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ قرآن کیا ہے........؟ قرآنکی معرفت نہیں رکھتا، انجان شہر کے اندر سوائے حیرت کے کچھ نصیب نہیں ہوتا۔
اس سے زیادہ شدید ترحیرت انسان کو اس وقت نصیب ہوتی ہے جب قرآن جیسی آسمانی کتاب میں داخل ہو جائے در حالیکہ جانتا نہ ہو معرفت نہ رکھتا ہو ،پہلے درجے کی شناخت نہ رکھتا ہو ،قرآن شناس نہ ہو اور قرآن فہمی شروع کردے قرآن کا نقشہ ا س کے پاس نہیں ہے اور قرآن میں وارد ہوگیا ہے اس کو قرآن کی روش معلوم نہیں ہے اور قرآن پڑھنا شروع کر دیا ہے ، قرآن کی زبان نہیں جانتا اور قرآن حفظ کرلے، قرآن کی تفسیر شروع کردے ، قرآن میں غور و تدبر شروع کردے، قرآن میں فکر کرنا شروع کردے ، قرآن دعوت دیتا ہے تدبر کی طرف اور مذمت کرتا ہے تدبر نہ کرنے کی ،سب کو دعوت دیتا ہے آو¿! مخالفین کو دعوت دیتا ہے اپنے پیرو کاروں کو دعوت دیتا ہے، اپنے مخاطبین کو دعوت دیتا ہے لیکن تدبر کے آداب و تفکر کے آداب کے مطابق، انسان سنے کہ قرآن تفکر کی دعوت دے رہا ہے۔
https://mashrabenaab.com/urdu/print_content.asp?nm=onbvvm34118613